سلام سوچ سمجھ کر کرنا چاہئے
میں نے محفل میں موجود ساٹھ سال سے زیادہ عمر کے کسی ایسے شخص کو سلام کرنا ترک کر دیا ہے جو عینک نہ لگاتا ہو کیونکہ اس سے خاصی ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ذرا فاصلے پر بیٹھے ہوئے کسی جاننے والے شخص سے آنکھیں چار ہوتی ہیں تو چار و ناچار ہاتھ ماتھے تک لے جانا پڑتا ہے تاکہ اسے بیگانگی کا گلہ نہ ہو لیکن موصوف کے چہرے پر بیگانگی کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا دیکھ کر سلام کیلئے ماتھے تک لے جانے والے ہاتھ سے خواہ مخواہ خارش کرنا پڑتی ہے۔ اس کے بعد موقع پاتے ہی یہ ہاتھ ایک دفعہ پھر حرکت میں آ جاتا ہے کہ ممکن ہے پہلی بار اس نے دیکھا نہ ہو لیکن پتا چلتا ہے کہ وہ ہونقوں کی طرح مسلسل میری طرف دیکھے جا رہے ہیں لیکن سلام کا جواب نہیں دیتے چنانچہ ایک دفعہ پھر اپنی خفت مٹانے کے لئے اس ہاتھ سے خارش کرنا پڑتی ہے۔تاہم یہ حرکت بار بار نہیں دہرائی جاسکتی کہ دیکھنے والے سمجھیں گے شاید مجھے ’’کھرک‘‘ پڑی ہوئی ہے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعد میں موصوف الٹا گلہ کرتے ہیں کہ میں نے تمہیں تین چار دفعہ سلام کیا لیکن تم نے جواب نہیں دیا ظاہر ہے یہ حضرت ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ بعد میں تھک ہار کر میں نے عینک اتار دی ہوتی ہے!
میں محفلوں میں فلسفی قسم کے حضرات کو بھی سلام نہیں کرتا کہ یہ عموماً بہت شرمندہ کرتے ہیں یہ نہ صرف آپ کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں بلکہ باقاعدہ مسکراتے نظر آتے ہیں جو آپ سےایک طرح کی علیک سلیک ہی ہوتی ہے۔ خیر سگالی کے اس اظہار کا جواب نہ دینا خاصی بداخلاقی ہے چنانچہ میں جوابی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا ہاتھ ماتھے تک لے جاتا ہوں، ان کی مسکراہٹ بدستور قائم رہتی ہے لیکن اس سے یہ اشارہ کہیں نہیں ملتا کہ انہوں نے سلام وصول کیا ہے اور قبول بھی کیا ہے؟ جس کے نتیجے میں یہ مسکراہٹ خاصی احمقانہ سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ موصوف اپنے دھیان میں اپنی ہی کسی بات پر مسکرا رہے تھے مگرکیا فائدہ جب اس عرصے میں سینکڑوں لوگ آپ پر مسکرا چکے ہوتے ہیں۔
دوچار دفعہ تلخ تجربے کے بعد میں نے غریب غرباء کو بھی سلام کرنا چھوڑ دیا ہے کہ اگلے ہی روز ادھار مانگ لیتے ہیں۔ انہیں ادھار دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن سود چونکہ اسلام میں حرام ہے اس لئے انہیں ادھار دینے میں فائدہ بھی کوئی نہیں۔ ابن انشا نے ایک اپنے ممدوح کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ بہت مخیر تھے چنانچہ انکے پاس ضرورت سے زیادہ جو روپیہ ہوتا ہے وہ اسےاللہ کی راہ میں سود پر دے دیتے تھے۔ غریبوں کو سلام کرنے میں جو خفت کا پہلو ہے وہ یہ ہے کہ کبھی آپ کا کوئی دوست آپ کو یہ حرکت کرتے دیکھ لیتا ہے تو اس کی نظروں میںوہ سلام بے وقعت ہو جاتے ہیں جو آپ اسے کرتے رہتے ہیں!
ویسے ایک عرصے سے میں نے امیروں کو بھی سلام کرنا ترک کر دیا ہے۔ انہیں سلام کریں تو وہ سلام اس طرح وصول کرتے ہیں جیسے خراج وصول کر رہے ہیں۔ چنانچہ سر کی ہلکی سی جنبش آپ کے سلام کی رسید ہوتی ہے۔ بعض تو یہ رسید بھی نہیں دیتے بس ہلکا سا مسکرا دیتے ہیں۔ بعض جواباً ہنس پڑتے ہیں اور انکی یہ ہنسی خندئہ استہزا محسوس ہوتی ہے ۔ منیر نیازی نے ایک دفعہ ایک اُسی طرح کے بزرگ صورت شخص کے گھٹنوں کو احتراماً چھوا تو نہ صرف یہ کہ انہوں نے سرپرستانہ انداز میں منیر نیازی کو تھپکی دی بلکہ جب اگلی دفعہ منیر نیازی کوئی چیز اٹھانے کیلئے ذرا سے جھکے تو اسی بزرگ نے اپنا گھٹنا اوپر اٹھا لیاکہ چلو چھولو!
بس ایک سلام ایسا ہے جو میں نے ابھی تک ترک نہیں کیا اور وہ صاحبِ اقتدار لوگوں کو سلام ہے۔ امیر آدمی کو سلام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ وہ آگے سے کچھ نہیں دیتا جواب تک نہیں دیتا جبکہ صاحبِ اقتدار کے سلام کا اپنا ہی مزا ہے۔ اس کے لئے صاحب کے پی اے سے فون نمبر لے کر ’’صاحب‘‘سے روابط بڑھائے جاتے ہیں اور پھر ٹائم لے کر صاحب کی کوٹھی کے برآمدے میں پوری کرسی پر آدھا بیٹھا جاتا ہے چپراسی جب اندر بلاتا ہے تو کلیجہ باہر کو آنے لگتا ہے ۔
صاحب اقتدار شخص باقاعدگی سےسلام کی صورت میں بہت کچھ دیتا ہے وزارت دیتا ہے ،ٹکٹ دیتا ہے اور ان سب چیزوں کےساتھ ساتھ دھکے بھی دیتا ہے مگر یہ دھکے برےنہیں لگتےکہ اگر نوالہ سونے کا ہو تو شیر کی آنکھ سے دیکھنے میں کیا حرج ہے؟ صاحبانِ اقتدار کو نہ صرف یہ کہ سلام کرنے میں مزا ہے بلکہ جب وہ اقتدار میں نہ رہیں تو انہیں سلام نہ کرنے کا بھی اپنا ہی مزا ہے حقیقت پسند صاحبانِ اقتدار اس کا بُرا نہیں مانتے، وہ جانتے ہیں کہ جب وہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں تو سامنے بیٹھے بے شمار عوام انہیں سلام کر رہے ہوتے ہیں جن کا جواب دینا ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا چنانچہ وہ اس کرسی پر عینک اتار کر بیٹھتے ہیں اور جب یہ کرسی ان کے نیچے سے کھسکتی ہے تو پھرعوام اپنی عینک اتار کر بیٹھ جاتے ہیں جس سابق صاحبِ اقتدار کے ساتھ لوگ یہ سلوک نہ کریں تو سمجھ لیں اس پر اللہ کی رحمت ہے ہمارے ہاں اللہ کی رحمت حاصل کرنے والے لوگ اتنے کم کیوں ہیں؟