خاتون سے درندگی: میڈیا اور پولیس
کسی واردات کے ملز م کی ’’شناخت‘‘ اور ’’گرفتاری‘‘ میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اتوار کی صبح اُٹھنے کے بعد یہ کالم ختم کرنے تک لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ ہوئی درندگی کے مرتکب افراد کی فقط شناخت ہوئی تھی۔ دو بیٹیوں کا باپ ہوتے ہوئے ربّ کریم سے فریاد کررہا ہوں کہ میرا کالم چھپنے تک ذمہ دار ٹھہرائے درندے گرفتار ہوچکے ہوں۔آنے والے کئی دنوں تک بطور صحافی یہ خیال مگر مجھے کئی دنوں تک پریشان رکھے گا کہ ’’سب سے پہلے‘‘ خبر دینے کے جنون نے مذکورہ واردات کے ذمہ داروں کو خبردار کردیا۔ انہیں فوری گرفتاری سے بچنے کے لئے کافی وقت مل گیا۔میرے چند ساتھی ہی مگر اس خطا کے حتمی ذمہ دار نہیں تھے۔ پنجاب حکومت کو اس خطے کی مستعد ترین انتظامیہ کے طورپر مارکیٹ کرنے والے ترجمان وافسران بھی برابر کے خطاوار تھے۔
موٹروے پر ہوا واقعہ ہر حوالے سے دل خراش تھا۔ اس کی تفصیلات بیان کرنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں۔یہ اعتراف کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ ایسے واقعات پر محض پاکستان کا اجارہ نہیں ہے۔ہمارے حکمرانوں کو مگر ہمیشہ یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ ان واقعات پر مچائی دہائی ملک کی ’’بدنامی‘‘ کا باعث ہوتی ہے۔اپنی بقا کے لئے سرکار کے کامل محتاج ہوئے میڈیا کو لہذا مجبور کیا جاتا ہے کہ ایسے واقعات کو Underplayکیا جائے۔میڈیا ہمہ وقت حکم بجالانے کو آمادہ ہوتا ہے۔اسے مگر اپنی ’’ساکھ‘‘ کو بھی ذہن میں رکھنا ہوتا ہے۔یہ حقیقت ہرگز نظرانداز نہیں کی جاسکتی کہ ہم کئی برس سے Citizen Journalismکے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔سوشل میڈیا کے فیس بک اور ٹویٹر اکائونٹس ’’انہونی‘‘ کو شدت جذبات سے مغلوب ہوئے اجاگر کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔روایتی میڈیا اس کے مقابلے میں’’ذمہ دار‘‘ ہونے کو بضد رہے تو قارئین اور ناظرین اسے ’’بکائو اور غلام‘‘ ٹھہرانا شروع ہوجاتے ہیں۔کئی صورتوں میں یہ مبینہ ’’غلامی‘‘ ناقابلِ برداشت حد تک ’’سفاکانہ‘‘ بھی محسوس ہونا شروع ہوجاتی ہے۔
تحریک انصاف کے ترجمانوں سے توقع تھی کہ وہ روایتی میڈیا کی مذکورہ مجبوریوں کو کھلے دل سے برداشت کریں گے۔ پاکستان کی یہ پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کی بدولت عوام کے دلوں میں ’’تبدیلی‘‘ کی تمنا بھڑکائی تھی۔قصور کی زینب کے ساتھ ہوئی درندگی کو اس جماعت نے شہباز حکومت کو ’’شوباز‘‘ ثابت کرنے کے لئے جارحانہ حد تک استعمال کیا تھا۔ ’’وسیم اکرم پلس‘‘ کا امیج برقرار رکھنے کے لئے لہذا ضروری تھا کہ عوام کو یہ باور کروایا جائے کہ جرائم کے سراغ لگانے کے لئے میسر تمام تر ریاستی وسائل لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر ہوئی درندگی کے ذمہ دار افراد کی نشاندہی کی جانب مرکوز کردئیے گئے ہیں۔ ان کی یکسوئی ’’بارآور‘‘ بھی ثابت ہورہی ہے۔
عمران حکومت کی ’’فرض شناسی‘‘ کو مسلسل اجاگر کرتے صحافتی اداروں کے ذریعے لمحہ بہ لمحہ Progressرپورٹ آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس کی بدولت ’’فورٹ عباس کے رہائشی‘‘ والی ’’بریکنگ نیوز‘‘ آئی۔اس ’’نیوز‘‘ نے ملزم کو خبردار کردیا۔ اسے دائیں بائیں ہونے کو مناسب وقت مل گیا۔ ویسے بھی وہ ایک عادی اور کائیاں ’’وارداتیا‘‘ہے۔ اپنے بچائو کی سوترکیبوں سے واقف ہوگا۔’’بریکنگ نیوز‘‘ یقینا اس کی سہولت کار ثابت ہوئی۔ سرکار کی مستعدی کو ثابت کرتے کئی صحافی سینہ پھلاکر اگرچہ اس کی ’’گرفتاری‘‘ کا اعلان بھی کرتے رہے۔Secrecyیعنی خاموشی انتظامیہ کا بنیادی وصف شمار ہوتی ہے۔صحافت اس خاموشی کو اپنا دشمن سمجھتی ہے۔اقتدار واختیار کے ایوانوں میں ہوئے فیصلوں کو عیاں کرنے کی لگن میں مبتلا رہتی ہے۔چند مقامات مگر آجاتے ہیں جہاں Secrecyکا احترام لازمی ہے۔سنگین جرائم کا سراغ لگانے کے لئے ہوئی کاوشیں اس ضمن میں اہم ترین ہیں۔سرکار اگر واقعتا ملزم کی نشان دہی کے بعد اسے گرفتار کرنے کے قریب پہنچ چکی ہو تب بھی صحافی کے لئے لازمی ہے کہ گرفتاری سے پہلے اس پراگرس کو رپورٹ نہ کرے۔ کائیاں اور تجربہ کار افسر بھی اس ضمن میں خاموش رہنے ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ مگرہم ایک بڑھک باز قوم ہیں۔ لاہور پولیس کے حال ہی میں کماندار لگائے عمر شیخ صاحب نے سماج سدھارنے کا ’’فارمولہ‘‘ بھی ایجاد کر رکھا ہے۔ انہیں بہت چائو سے لاہور بھیجا گیا۔ منصوبہ تھا کہ ان کی دبنگ شخصیت اور سماج سدھار فارمولہ اس شہر کو ’’گڈگورننس‘‘ سے متعارف کروائے گا۔ شہباز شریف نے اپنے دس سالہ حکمرانی میں جن ’’نااہل‘‘ افسروں کی پشت پناہی سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی پولیس کو مبینہ طورپر ’’تباہ وبرباد‘‘ کیا ہے ان کی قیادت میں اصلاح پذیر نظر آنا شروع ہوجائے گی۔شیخ صاحب کو مگر سرمنڈاتے ہی اولے ملے۔ ان کے منصب سنبھالنے کے چند ہی گھنٹے بعد لاہور-سیالکوٹ موٹروے کا واقعہ ہوگیا۔موصوف کے لئے مناسب تو یہی تھا کہ خاموش اور عاجزانہ یکسوئی سے مذکورہ واقعہ کے ذمہ داروں کا سراغ لگاکر ہمیں اپنی ’’مہارت‘‘ دکھادیتے۔وہ مگر ٹی وی سکرینوں پر وحشت کا شکار ہوئی خاتون کو ’’آبیل مجھے مار‘‘ والا رویہ اختیار کرتے بتانا شروع ہوگئے۔
عمر شیخ صاحب خود کو ایک مفکر منتظم تصور کرتے ہیں۔ بہت مان سے یاد دلاتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ نے بھی ان کی صلاحیتوں کو دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے لئے استعمال کیا تھا۔ایسے ’’جہاندیدہ‘‘ افسر سے توقع تھی کہ وہ جبلی طورپر اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ ہماری پڑھی لکھی متوسط طبقے کی خواتین بھی اب ’’منہ میں زبان‘‘ رکھتی ہیں۔جدید دور اور ’’مغرب کی نقالی‘‘ بھلا بھی دیں تو ’’ریاست مدینہ‘‘ قائم کرنے کے دعوے داروں کو امن وامان سے متعلق وہ تصور تو ہمہ وقت یاد رکھنا لازمی ہے جو عورت کو ’’سونا اچھالتے‘‘ ہوئے سفر کو یقینی بناتا ہے۔کسی بے حس ’’تفتیشی‘‘ کی طرح مگر عمرشیخ صاحب خاتون کو اپنے ساتھ ہوئے ظلم کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع ہوگئے۔ان کے رویے نے تحریک انصاف کی دل وجان سے حامی کئی خواتین کوبھی بہت اشتعال دلایا۔انہوں نے خود کو ’’لاوارث‘‘ محسوس کیا۔ ریاست ان کے تحفظ کی بابت بے حس نظر آئی۔شیخ صاحب مگر ان دنوں ’’پیا کو بھائے‘‘ افسر ہیں۔اسدعمر جیسے طاقت ور ترین وزراء بھی ان کا دفاع کرنے کو مجبور ہوئے۔
شیخ صاحب کی ’’ابتدائی تفتیش‘‘ نے سوشل میڈیا پر جو آگ بھڑکائی مگر وقتی طورپر Diversionفراہم کرتی بھی نظر آئی۔ معاملہ اگرچہ ٹلا نہیں۔ پنجاب حکومت بالآخر مجبور ہوئی کہ درندوں کا سراغ لگائے۔ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ فنگرپرنٹس کی مدد سے فرانزک کے عمل پر مامور ادارے اب پاکستان جیسے ممالک میں بھی ملزم کی نشاند ہی کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے۔مان لیتے ہیں کہ لاہور میں اس ضمن میں بنائی لیب کے قیام کا تصور سب سے پہلے چودھری پرویز الٰہی کے ذہن میں آیا تھا۔ شہباز شریف کے دور میں لیکن یہ لیبارٹری حقیقی معنوں میں حیران کن نتائج دیتی نظر آئی۔ اس لیبارٹری کا قیام مگر عوام پر ہرگز کوئی احسان نہیں ہے۔ دنیا میں اب شاید ہی کوئی ایسا ملک بچا ہے جو فرانزک کی صلاحیت سے محروم ہے۔اس صلاحیت کے استعمال کو یقینی بنانا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔یہ فریضہ نبھانے کا ’’کریڈٹ‘‘ لینا خواہ مخواہ کی پوائنٹ سکورنگ ہے۔کرونا پھیلنے کے بعد اب میرے اور آپ جیسے عام آدمی بھی یہ جان چکے ہیں کہ موبائل فون سے زیادہ مؤثر ’’مخبر‘‘ ریاست کو نصیب ہی نہیں ہوسکتا۔اس کی بدولت کرونا کی زد میں آئے مریضوں کا سراغ لگایا گیا۔ان سے ملنے والے Track ہوئے۔انہیں Testکو مجبور کیا گیا اور بالآخر کرونا کی زد میں آئے علاقوں میں قرنطینہ کا نفاذ ہوا۔فرانزک اور موبائل فون پر نگاہ رکھنے والی صلاحیتوں سے ملزموں کی ’’نشاندہی‘‘ کرتے ہوئے پنجاب حکومت نے مریخ کو فتح کرنے جیسا کوئی کارنامہ ہرگز سرانجام نہیں دیا۔ ’’اچھی خبریں‘‘ دینے کے جنون میں لیکن محض ’’نشان دہی‘‘ کی بابت ڈھول بجنا شروع ہوگئے۔ مقابلہ یہ بھی ہوا کہ لاہور میں فرانزک لیب کا کریڈٹ کسے دیا جائے۔
دل دہلا دینے والی اہم ترین حقیقت مگر یہ ہے کہ درندگی کا شکار ہوئی خاتون یہ کالم لکھنے تک پولیس کو بیان دینے پر رضامند نہیں ہورہی تھی۔ ان پر جو قیامت گزری ہے اس کی بدولت وہ اور ان کے بچے تاحیات جس دہشت میں مبتلا رہیں گے سوشل میڈیا پر حاوی ہیجان کو اس کا احساس تک نہیں ہے۔سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں ایسے ماہرین اورادارے موجود ہیں یا نہیں جو درندگی کی زد میں آئی خواتین اور بچوں کا مقدر ہوئے Traumaکی حقیقت وشدت سے ہم تماش بینوں کو کماحقہ آگاہ کرسکیں۔ اس امر کو یقینی بنائیں کہ دہشت کی زد میں آئے بدنصیب برق رفتاری سے اپنی معمول کی زندگی بحال کرسکیں۔ ان کی بقیہ عمر ڈرائونے خواب کی اذیتوں کو برداشت کرتے ہی نہ گزرجائے۔