اب کسی اور ’’سیزن‘‘ کی توقع نہ رکھیں
روایتی اور سوشل میڈیا سنجیدگی سے یہ جاننا اور بتانا ہی نہیں چاہ رہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے معاملات درحقیقت کن ٹھوس وجوہات کی بنا پر اٹکے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دو دنوں سے بلکہ بحث اس سوال کا جواب ڈھونڈنے پر مبذول رہی کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے ازخود فون اٹھاکر عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کی سربراہ کو ’’ہاتھ ہولا‘‘ رکھنے کی استدعا کی یا اس خاتون نے مہربان ہوکر شہباز شریف صاحب کو دلاسہ دینے کے لئے انہیں فون کیا تھا۔جو بحث چھڑی اس کا ذمہ دار میں وزیر اعظم کا ’’امیج‘‘ بہتر بنانے کو متعین اہلکاروں کو ٹھہراتا ہو۔میری ناقص رائے میں شہباز شریف صاحب لوگوں کی نظر میں ہماری مشکلات کی بابت ز یادہ فکر مند محسوس ہوتے اگر میڈیا کے ذریعے تاثر یہ پھیلایا جاتا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہونے میں تاخیر سے ’’گھبرا‘‘ کر وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے براہ راست گفتگو کا فیصلہ کیا۔ایسی صورت میں اگرچہ ہم یہ سوچنے کو بھی مجبور ہوجاتے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اپنے تئیں معاملات سلجھانے میں ناکام رہے ہیں۔ڈار صاحب کے مرتبے اور ’’رسائی‘‘ سے گھبراتے ہوئے مگر وزیر اعظم کے میڈیا منیجر یہ تاثر پھیلانے سے گریز کو مجبور ہوئے۔’’درمیانی راہ‘‘ نکالنے کی خواہش میں یہ کہانی گھڑی کہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے وزیر اعظم پاکستان سے ’’ازخود‘‘ رابطہ کیا۔میڈیا کی بدولت جب یہ کہانی حقیقت کا تاثر دینا شروع ہوگئی تو آئی ایم ایف نے پیشہ وارانہ مہارت سے اس کی تردید کردی۔مذکورہ تردید کو اندھی نفرت وعقیدت کی بنیاد پر حکومت مخالفین نے شہباز صاحب اور ان کی معاشی ٹیم کا تمسخر اڑانے کے لئے بے رحمی سے استعمال کیا۔’’لوز بال‘‘ پر چھکا لگادیا۔
’’سب اچھا‘‘ اور ’’ہر چیز قابو میں ہے‘‘ کا ورد کرنا ہر حکومت کی مجبوری ہوا کرتا ہے۔مطلوبہ تاثر کو تقویت فراہم کرنے کے لئے لیکن ’’بازار‘‘ میں چند ’’مثبت رحجانات‘‘ کی موجودگی بھی لازمی ہے۔پیر کی صبح چھپے کالم میں اصرار کرچکا ہوں کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران 25سے 50ہزار روپے ماہوار کمانے والے پاکستانی کی جیب میں پڑے سوروپے کے نوٹ کی اصل قدر اب ستر روپے کے برابر ہوچکی ہے۔اس بریکٹ میں موجود لاکھوں افراد صدیوں سے جبلی طورپر غربت اور بدحالی کے عادی بنا دئیے گئے ہیں۔وہ سوشل میڈیا کے ٹک ٹاک جیسے ایپس کے ذریعے بھی اپنا دکھ بیان کرنہیں سکتے۔’’عوامی مزاج‘‘ نسبتاََ پڑھے لکھے متوسط طبقے کی جانب سے پوسٹ کئے ٹویٹس یا وڈیوز کے ذریعے تشکیل پاتا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی گرتی قدر مگر اب اجارہ دار سیٹھوں کا مسئلہ ہی نہیں رہی۔ہمارے بے تحاشہ ہم وطن روزی کمانے کے لئے دیگر ممالک میں مقیم ہیں۔اپنے خاندان کی کفالت کے لئے وہ جو رقوم پاکستان بھیجتے ہیں ان کے حصول کے لئے بینکوں کے بجائے ’’ہنڈی‘‘ یا حوالے پر انحصار کرنا پڑے تو دنیا کا ماہر ترین ’’ذہن ساز‘‘ بھی ’’سب ا چھا‘‘ والا تاثر پھیلانے میں ناکام رہے گا۔گزشتہ برس کے دوران میری قوت بینائی کو چند سنگین خطرات کی تشخیص ہوئی۔ان سے محفوظ رہنے کے لئے آنکھوں میں ڈالنے کے لئے جو دوائی تجویز ہوئی اس کی ایک شیشی کی قیمت 600روپے سے زیادہ نہیں تھی۔بتدریج اس کی قیمت بڑھنا شروع ہوگئی۔ بعدازاں وہ بازار سے غائب ہوگئی۔اسے تیار کرنے والی فیکٹری نے کئی ماہ سے سپلائی بند کررکھی ہے اس کے متبادل کے طورپر جو برانڈ بازار میں موجود ہیں وہ زیادہ مؤثر نہیں۔اپنے ذاتی تجربے سے لہٰذا میں ’’سب اچھا‘‘ محسوس ہی نہیں کرسکتا۔ میرے مقابلے میں لیکن ان لاکھوں پاکستانیوں کی بابت سوچیں جن کے طبی مسائل مجھ سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ان سے مؤثر انداز میں نبردآزما ہونے والی ادویات مگر بازار سے غائب ہوچکی ہیں۔ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر کو ایک سطح پر منجمد رکھنے کی ضد اس کا بنیادی سبب ہے۔
علم معاشیات کی مبادیات سے بھی میں قطعاََ نابلد ہوں۔آج سے دو دہائیاں قبل مگر ایک کاروباری دوست نے نہایت سادہ زبان میں سمجھادیا تھا کہ دنیا کے کئی ممالک میں سخت ترین آمرانہ حکومتیں بھی بالآخر بازار میں موجود حقائق کے روبرو ڈھیر ہوجانے کو مجبور ہوجاتی ہیں۔کاروباری حقیقتوں سے خوب واقف ہوتے ہوئے بھی تاہم اسحاق ڈار صاحب پاکستانی روپے کو ڈالر کے مقابلے میں ’’مستحکم‘‘ دکھانے کی ضد میں مبتلا ہیں۔ان کی ضد کی وجوہات ایک حوالے سے قابل ستائش ہیں۔ مگر کب تک؟ بازار میں موجود حقائق کو بالآخر انہیں بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
ڈالر مارکیٹ سے غائب ہونا شروع ہوجائے تو وافر سرمایے کے حامل اپنا مستقبل محفوظ رکھنے کے لئے سونا خریدنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی باعث گزشتہ چند دنوں سے پاکستان میں روزانہ کی بنیاد پر سونے کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ یہ اضافہ واضح طور پر یہ پیغام دیتا ہے کہ ہمارے ہاں خاطر خواہ تعداد میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو گھبراہٹ میں سونا خریدنے کی سکت رکھتے ہیں۔ان کی جانب سے ہوئی سونے کی خرید مگر حکومتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنتی۔اس پر واجب ٹیکس بھی قومی خزانے میں نہیں آتا۔ہماری ہر نوع کی حکومتوں نے ان ٹھوس حقائق کی جانب توجہ دی ہوتی،محاصل جمع کرنے کا مؤثر نظام متعارف کروایا ہوتا تو آج ہمیں ہر تیسرے برس کشکول اٹھاکر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔دوست اور برادر ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی شرمندگی سے بھی محفوظ رہ پاتے۔
محض اسحاق ڈار اور موجودہ حکومت کو ان دنوں کے بحران کا یک وتنہا ذمہ دار ٹھہرانا اس کالم کا ہرگز مقصد نہیں۔ عرض فقط یہ کرنا ہے کہ حادثے کی طرح ’’دیوالیہ‘‘ بھی ایک دن نہیں ہوتا۔وقت اس کی برسوں سے پرورش کررہا ہوتا ہے۔ ’’حادثہ‘‘ ہوجانے کے بعد مگر حکومتوں کے لئے مزید بحرانوں کا تدارک یقینی بنانے کے لئے ’’عوام کے لئے ناقابل قبول‘‘ اقدامات لینا لازمی ہوجاتا ہے۔1950ء کی دہائی سے ہمارے حتمی حکمران پاکستان کی ’’جغرافیائی اہمیت‘‘ ’’کا ڈھنڈورا اہی پیٹتے رہے۔ 1980ء کی دہائی میں ’’افغان جہاد‘‘ کا سیزن لگایا۔ اس سے فارغ ہوئے تو ہمارے حتمی حکمران 1999ء تک بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں کی ’’نگہبانی‘‘ میں مصروف ہوگئے۔بالآخر اس برس کے اکتوبر میں جنرل مشرف اقتدار پر قابض ہوگئے۔’’احتساب‘‘ ا ن کا کلیدی نعر ہ تھا۔معیشت سنوارنے کے لئے انہوں نے سٹی بینک کے نابغے مشہور ہوئے شوکت عزیز صاحب کو ہماری تاریخ کا طاقت ور ترین وزیر خزانہ بنادیا۔ انہوں نے ’’ٹیکس‘‘ کا نظام مؤثر بنانے کے لئے بازاروں میں فوجی ٹیموں کی نگرانی میں ’’سروے‘‘ کروانا شروع کردئے۔ وہاں شدید مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ چند ہی ماہ بعد مگر نائن الیون ہوگیا۔ اس نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا نیاسیزن لگادیا۔ خدارا اب کسی اور ’’سیزن‘‘ کی توقع نہ رکھیں۔