”سیم پیج“ والے ”اچھے“ دن اور صدر علوی کی حالیہ سرگرمیاں
ٹی وی میں دیکھتا نہیں اور گزشتہ چند ہفتوں سے آنکھوں کی توانائی برقرار رکھنے کے لئے سوشل میڈیا پر محض سرسری نگاہ ڈالنا بھی لازمی ہوگیا ہے۔صحافیانہ تجسس مگر چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ گزرے جمعہ کے روز چند دہشت گرد کراچی پولیس کے ایک اہم ترین دفتر میں در آئے تھے۔ان پر قابو پانے میں چار سے زیادہ گھنٹے لگے۔جو حملہ ہوا وہ دہشت گردی کی ایک نئی لہر اُبھرنے کا واضح عندیہ دے رہا تھا۔اس کا آغاز بنوں سے ہوا۔بنوں کے بعد پشاور کی پولیس لائنز میں دلخراش واردات ہوئی۔102نمازی شہید ہوئے۔
جولہر نمودار ہورہی تھی اسے خیبرپختونخواہ تک محدود تصور کیا گیا۔جی کو تسلی دینے کے لئے اپنائی اس سوچ سے میں تڑپ اٹھا۔ یاد دلانے کو مجبور ہوا کہ خیبرپختونخواہ پاکستان ہی کا ایک صوبہ ہے۔ اس حقیقت کو بھی اجاگر کرنا پڑا کہ دہشت گردی کی جو لہر ابھررہی ہے نشانہ اس کا محض ایک صوبہ نہیں۔ ریاستی اداروں ،خاص کر پولیس کو نہایت منظم انداز میں مفلوج دکھانے کی کوشش ہورہی ہے اور یہ کوشش فقط خیبرپختونخواہ تک محدود نہیں رہے گی۔ کراچی میں ہوئے حملے نے بدقسمتی سے میرے خدشات کو درست ثابت کیا۔سانحہ پشاور کے بعد یہ کوشش ہوئی کہ وزیر اعظم کی دعوت پر تمام سیاسی جماعتیں ایک میز پر بیٹھ کر یکسوئی سے دہشت گردی کی نئی لہر کا جائزہ لیں۔اس کا پھیلاﺅ روکنے کی حکمت عملی تیار کریں۔مجوزہ کانفرنس دو مرتبہ تاریخ دینے کے باوجود مگر منعقد نہیں ہوپائی ہے۔غالباََ اسے بلانے کا ارادہ بھی ترک کردیا گیا ہے۔تحریک انصاف کے ”عدم تعاون“ کو اس کا جواز بتایا جارہا ہے۔
میرا دل خوش فہم یہ تسلیم کرنے کو ہرگز آمادہ نہیں کہ عمران خان صاحب سمیت تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نمادہشت گردی کی نئی لہر کے بارے میں واقعتا متفکر نہیں ہوں گے۔اس جماعت کی توجہ اگرچہ فوری انتخابات کے حصول پر مرکوز ہوچکی ہے۔اس ہدف کے حصول کے لئے جو فضا بنائی جارہی ہے وہ تحریک انصاف کے بے شمار حامیوں کو ایک سازشی کہانی آنکھ بند کرتے ہوئے قابل اعتبار تصور کرنے کو مائل کررہی ہے۔سرگوشیوں میں کہانی یہ گھڑی جارہی ہے کہ امن وامان یقینی بنانے والے ادارے دہشت گردی کے تناظر میں ”دانستہ غفلت“ کے ذمہ دار ہیں۔اس کے بعد دو جمع دو کی منطق استعمال کرتے ہوئے مبینہ ”غفلت“ کو ”انتخاب سے فرار“کا جواز ڈھونڈنے کی کوشش ٹھہرادیا جاتا ہے۔میری دانست میں یہ کاملاََ بے بنیاد کہانی ہے۔پاکستانیوں کی مو¿ثر تعداد کو اگرچہ قابل اعتبار سنائی دیتی ہے۔
مذکورہ کہانی کے تناظر ہی میں صحافیانہ تجسس نے مجھے یہ معلوم کرنے کو مجبور کیا کہ کراچی میں جمعہ کے روز ہوئے واقعہ کے بار ے میں صدر عارف علوی نے کیا رویہ اختیار کیا۔ جس روز یہ واقعہ ہوا اس دن صدر مملکت کراچی میں موجود تھے۔ ہفتے اور اتوار کو جو اخبارات میں نے دیکھے ہیں ان میں ایسی کوئی تصویر یا خبر موجود نہیں تھی جو عارف علوی کو جائے واردات کا دورہ کرتے یا ہسپتال میں زیر علاج زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے دکھائے۔آنکھوں کی توانائی برقرار رکھنے کے لئے میں ان دنوں اخبارات بھی بہت غور سے نہیں پڑھتا۔سادگی میں فرض کرلیا کہ شاید مجھ سے متوقع خبر مس ہوگئی ہوگی۔ جی کے اطمینان کے لئے اتوار کی شام دو سینئر دوستوں سے رابطہ کرنا پڑا۔وہ ادارتی امور کے نگہبان ہیں۔انہوں نے میرے وسوسے کی تصدیق کی۔مصر رہے کہ عارف علوی صاحب کراچی میں ہوئی واردات کے بعد جائے وقوعہ یا ہسپتال کا دورہ کرتے نظر نہیں آئے۔
فقط دو ساتھیوں سے گفتگو کے بعد مزید تحقیق کی زحمت نہ اٹھائی۔ ”اگر“کاتاہم استعمال کرتے ہوئے کالم لکھنا شروع کردیا۔حیرت کا اظہار کیا کہ کراچی میں موجود ہوتے ہوئے بھی عارف علوی اس شہر میں ہوئی دہشت گردی کا نشانہ بنے افراد سے ہمدردی کا اظہار کرتے کیوں نظر نہیں آئے۔ روانی میں انہیں یاد دلایا کہ وہ محض صدر مملکت ہی نہیں کراچی شہر سے دوبار قومی اسمبلی کے لئے منتخب بھی ہوئے ہیں۔دہشت گردی اگر کراچی میں بھی سراٹھارہی ہے تو انہیں اس کے بارے میں حقیقی معنوں میں فکر مند نظر آنا چاہیے تھا۔
اپنے دفتر والوں کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔میرے بھیجے کالم کو پڑھتے ہوئے انہوں نے ”فیکٹ چیک“ کی مشقت برداشت کی۔ 19فروری کے نوائے وقت میں شائع ہوئی ایک تصویر مجھے بھجوائی گئی۔ صدر علوی اس میں دہشت گردی کے حملے میں زخمی ہوئے مریض کی ہسپتال جاکر عیادت کررہے تھے۔
علوی صاحب اگر ماضی کے منتخب صدور کی طرح خود کو ”علامتی“ ہی بنائے رکھتے تو کراچی میں ہوئے واقعہ کے تناظر میں ان کے رویے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتا۔عمران حکومت کے اختتام کے بعد ان کی ذات اور دفتر مگر حیران کن حد تک متحرک ہوچکے ہیں۔اپنے ”آئینی اختیارات“ کو صدر علوی نے آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں انتشار بھڑکانے کے لئے بے دردی سے استعمال کیا تھا۔حال ہی میں انہوں نے منی بجٹ پر دستخط کرنے سے انکار بھی کردیا۔ وہ اس ضمن میں رضا مند ہوجاتے تو منی بجٹ آرڈیننس کی صورت لاگو ہوجاتا۔ اس کی بدولت آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت پاکستان کے کئی دنوں سے جاری مذاکرات سبک رفتاری سے مکمل ہوسکتے تھے۔ منی بجٹ پارلیمان کے سپرد کردینے کے بعد صدر علوی اب الیکشن کمیشن کو پنجاب اور خیرپختونخواہ اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ دینے کو مجبور کررہے ہیں۔اپنے سیاسی اہداف کے حصول کے لئے عمران خان کو البتہ اپنے نامزد کردہ صدر سے ”مزید“ کی توقع ہے۔
حال ہی میں ریٹائر ہوئے جنرل باجوہ سے منسوب چند کلمات جب ایک اخباری کالم اور وی لاگ کے ذریعے لوگوں تک پہنچے تو سابق وزیر اعظم چراغ پا ہوگئے۔ عارف علوی کو خط لکھتے ہوئے یاد دلایا کہ وہ افواج پاکستان کے ”سپریم کمانڈر“ بھی ہیں۔ اس حیثیت کو بروئے کار لاتے ہوئے جنرل باجوہ کی بطور آرمی چیف لئے چند اقدامات کی ”انکوائری“ کروائیں۔انکوائری کا مطالبہ اگرچہ عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گیم تک محدود رکھا جارہا ہے۔اس کا آغاز 2017سے کرنے کی خواہش نہیں ہوئی۔”سیم پیج“ والے دن گویا”اچھے“ تھے۔باجوہ صاحب مذکورہ ”پیج“ سے ہٹے تو عمران خان صاحب کو ”برے“ لگنا شروع ہوگئے۔