منتخب تحریریں

’خرگوش، کتا، پنجابی۔۔۔ اینمیل فارم؟‘

Share

کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ تین الفاظ ایک جملے میں استعمال کروں گا لیکن نگران وزیر اعظم نے کسی سوال کے جواب میں اپنے دبنگ لہجے میں فرمایا کہ کیا ہم قانون بنا دیں کہ بلوچستان میں خرگوش، کتا اور پنجابی کا قتل جائز ہے؟

ان کو شکوہ اُن صحافیوں اور سیاسی کارکنوں سے تھا جو بقول ان کے بلوچستان میں دہشت گردوں کی کارروائیوں پر تو خاموش رہتے ہیں لیکن جب مسنگ پرسنز والے احتجاج کے لیے نکلتے ہیں تو کالم بکنے لگتے ہیں۔

وزیر اعظم نے فرمایا کہ انھیں اس جعلی ہمدردوں کے قبیلے سے شکایت ہے۔ اس جعلی قبیلے کے ایک ادنیٰ رکن کے طور پر میں وزیر اعظم کا دکھ سمجھتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ عالی جاہ خرگوش اور کتے کا قتل صرف اس صورت میں جائز ہے جب خرگوش انتہائی بھوک کی حالت میں شکار کیا جائے اور کتا صرف اسی صورت میں جب وہ پاگل ہو جائے اور انسانوں کے لیے خطرہ بن جائے۔

پنجابی کے طور پر میں پنجابی کے قتل کی ہر صورت میں مذمت کروں گا چاہے اُسے دہشت گرد قتل کریں یا ریاستی اداروں میں بیٹھے اُن کے اپنے پنجابی بھائی۔

وزیراعظم نے یہ بھی فرمایا کہ انھیں صرف اس جعلی ہمدردوں کے قبیلے سے ہی نہیں پورے پاکستان سے گلہ ہے کہ وہ ان کی بات سمجھتے ہی نہیں۔

اب پاکستان تو ظاہر ہے کہ ایک جعلی قبیلہ نہیں ہے، اور پاکستانی کم از کم اتنے سیانے تو ہیں کہ انھیں نگران وزیر اعظم سے کوئی گلہ نہیں ہے، ان کو نگران بنانے والوں سے ہو تو ہو لیکن اس بے شعور قوم کو بھی اتنا شعور ہے کہ وہ نگرانوں کو گلے کے قابل نہیں سمجھتے۔

ان سے گلہ کرنا ایسے ہی ہے کہ جھگڑا آپ کا سیٹھ سے ہو اور آپ اس کی کوٹھی کے باہر پودوں کو پانی لگاتے مالی کے ساتھ دوبدو ہو جائیں۔

پاکستان کو بھی نگران وزیراعظم سے کوئی گلہ نہیں ہے صرف یہ کہ وہ اپنے گیان لاہور کی یونیورسٹیوں میں پھیلانے پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا خیال ہو گا کہ نوجوانوں کی قوم ہے اگر عمران خان کی دیوانی ہے تو میں نے تو عمران خان سے کہیں زیادہ کتابیں پڑھی ہیں۔

Kakar in lums
،تصویر کا کیپشنانوار الحق کاکڑ لاہور کی لمز یونیورسٹی میں طلبا سے مخاطب ہیں

طلبا کے ساتھ ان کے پہلے ٹاکرے میں وہ اپنے آپ کو یورپی دانشور سمجھتے ہوئے ریڈ وائن اور سٹیک کو ریستوران میں پیش کرنے کی مثالیں دے رہے تھے۔ اس ہفتے میں وہ لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی میں ایک طالب علم کا نام چبا چبا کر (کیونکہ نام شیعہ تھا) اسے یاد کرا رہے تھے کہ اگر بلوچستان جاؤ گے تو مارے جاؤ گے۔

عام طور پر ریاست ہمیں بتاتی ہے کہ صوبائی عصبیت اور فرقہ واریت نه پھیلاؤ۔ ہمارے نگران وزیراعظم لاہور کی یونیورسٹی میں بیٹھ کر دونوں کام ساتھ ساتھ کرتے ہیں۔

اگر یونیورسٹی کا قانون بھی لاگو ہو تو انھیں ایک طالب علم کی جان خطرے میں ڈالنے کے الزام میں دوبارہ لیکچر دینے کی اجازت نہ دی جاتی اور اگر شہر لاہور کا کوئی قانون بنے تو ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا جو ہمارے کیلنڈر کے حساس مہینوں میں فسادی مولویوں کا شہر میں داخلہ بند کر کے کیا جاتا ہے۔

انھیں شاید طلبا سے بات کرنے کی اجازت اس لیے ملتی ہے کہ وہ ہر ٹین ایجر کی طرح واؤ واؤ کر لیتے ہیں اور اسلام آباد میں ان کے دوستوں کے مطابق کتابیں پڑھتے ہیں۔

ہمدردوں کے جعلی قبیلے کو مخاطب کرتے ہوئے انھوں نے جارج آرویل کا طعنہ دیا کہ وہ تو لڑائی میں شامل ہو گیا تھا تم لوگ صرف کالم ہی لکھ رہے ہو۔ ساتھ اپنی قابلیت کا ثبوت دینے کے لیے اس کی دو کتابوں کا بھی نام لیا: 1984 اور اینیمل فارم۔

1984 میں سچ جھوٹ بن جاتا ہے اور جھوٹ سچ۔

بگ برادر اور نیو سپیک اور سچ کی وزارت جیسی اصطلاحات اس ناول سے آئی ہیں۔ اینمیل فارم کئی پاکستان سکولوں، کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے اگر آپ کی تعلیم اتنی شاندار نہیں رہی جیسی ہمارے نگرانوں کی ہے تو کہانی سنائے دیتے ہیں۔

ایک فارم پر جانور اپنے مالک کے خلاف بغاوت کر کے اپنا آزاد قبیلہ بنا لیتے ہیں جس میں وعدہ کیا جاتا ہے کہ سب برابر ہیں، گدھا، گھوڑی، سور، بکری، کتے اور شاید ایک کوّا بھی۔ سب آپس میں مل کر رہتے ہیں۔

نعرہ ہے کہ سب جانور برابر ہیں، لیکن بہت جلد گیان والے جانور ایک نیا سچ ایجاد کر لیتے ہیں کہ کچھ جانور باقی جانوروں سے زیادہ برابر ہیں۔

اگر یونیورسٹی والوں کی مجبوری ہے کہ نگران کا بھاشن ضرور سننا ہے تو شاید اس دفعہ کوئی طالبعلم بلوچستان میں مسنگ پرسنز کی بابت پوچھنے کی بجائے یہ سوال اٹھا دے کہ آپ جارج آرویل کی کتاب اینیمل فارم میں اپنے آپ کو کس کردار کے قریب پاتے ہیں۔