منتخب تحریریں

آئیں، افغان جنگ کا جشن مناتے ہیں

Share

حقیقت: 11ستمبر 2001کو امریکہ میں چار ہوائی جہاز اغوا کیے گئے، اغوا کاروں نے دو جہاز نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے ٹکرائے جس سے پوری عمارت زمین بوس ہو گئی، قریباً تین ہزار افراد مارے گئے، ایک جہاز پینٹا گون سے ٹکرایا جس سے اِس کی عمارت کو نقصان پہنچا جبکہ چوتھے جہاز میں مسافروں نے اغوا کاروں پر قابو پا لیا مگر پھر بھی جہاز بےقابو ہو کر پنسلوانیا کے کھیتوں میں گر کر تباہ ہو گیا۔

فسانہ 9/11:امریکہ نے خود کروایا، 9/11 یہودیوں نے کروایا، 9/11ہوا ہی نہیں ۔

حقیقت 2:مئی 2011کو رات 1بجے ایبٹ آباد میں امریکی فوجیوں نے ایک آپریشن میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا۔

فسانہ:بن لادن وہاں نہیں تھا، وہ گردوں کے مرض میں مبتلا ہو کر کئی سال پہلے ہی فوت ہو چکا تھا، وہ آج بھی زندہ ہے۔

حقیقت2004:ءسے 2018ءکے درمیان پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 26,689سویلین اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے جوان شہید ہوئے جبکہ 32,819شدت پسند مارے گئے، دہشت گردی کے بدترین حملوں کی ذمہ داری طالبان نے ڈنکے کی چوٹ پر قبول کی۔

فسانہ:جو کروا رہا ہے امریکہ کروا رہا ہے، کوئی مسلمان یہ کام نہیں کر سکتا، طالبان کا کوئی وجود نہیں۔

یہ اُس تخیلاتی دنیا کی ہلکی سی جھلک ہے جس میں ہم زندہ تھے/ ہیں۔ حقائق کو منہ لگانا ہمیں پسند نہیں لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہماری پسند ناپسند سے حقائق کو فرق نہیں پڑتا۔

 جب سے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ میں ’امن معاہدہ‘ ہوا ہے کچھ لوگوں نے جشن منانا شروع کر دیا ہے کہ بالآخر امریکہ کی شکست ہوئی، بہت اچھی بات ہے مگر کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے حقائق کی پڑتال ضروری ہے۔ امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بہت سے پہلو ہیں، مثلاً کیا امریکہ کا افغانستان پر حملہ بین الاقوامی قانون کے تحت جائز تھا؟ کیا اِس حملے کے اہداف حاصل کر لیے گئے؟ 

اِس جنگ کا فاتح کون ٹھہرا؟ امریکہ کا کتنا خرچہ آیا، افغانستان کا کتنا نقصان ہوا؟ کیا کسی بھی ملک کا دوسرے ملک پر حملہ، چاہے وہ حملہ قانوناً جائز ہی کیوں نہیں ہو، دوسرے ملک کو دفاع کا حق نہیں دیتا اور اگر یہ حق دیتا ہے تو کیا اپنے دفاع میں لڑنے والوں کو دہشت گرد کہا جا سکتا ہے؟ کیا افغان طالبان کا پاکستانی طالبان سے کوئی تعلق تھا اور اگر تھا تو کیا پاکستانی طالبان کے پاکستانی فوج، پولیس اور بےگناہ شہریوں پر حملے جائز تھے؟

امریکہ کا افغانستان پر حملہ بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی تھا، کسی بھی ملک پر حملہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری سے کیا جا سکتا ہے یا پھر اپنے دفاع میں کوئی ملک طاقت استعمال کر سکتا ہے۔ 

افغانستان پر حملے کے وقت یہ دونوں شرائط پوری نہیں ہوئیں، 9/11حملہ افغانستان نے امریکہ پر نہیں کیا تھا بلکہ یہ ہائی جیکرز کا ایک گروہ تھا جن میں سے پندرہ کا تعلق سعودی عرب سے تھا، سو افغانستان پر حملہ کرکے امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی شق دو، سیکشن چار کی خلاف ورزی کی، سلامتی کونسل نے 9/11حملوں کے تناظر میں قرار داد ضرور پاس کی تھی مگر امریکہ کو حملے کا اختیار نہیں دیا تھا۔ 

قطع نظر اِس بات سے کہ یہ حملہ قانونی تھا یا نہیں، اُس وقت کی افغان حکومت، عوام، طالبان اور ہر افغانی نے اپنے حق دفاع کو استعمال کرتے ہوئے امریکی قابض فوجوں کے خلاف جو بھی جنگ لڑی وہ اُس کا حق تھا،دہشت گرد صرف وہ لوگ نہیں ہوتے جو چہرے مہرے سے دہشت گرد لگیں، دہشت گرد خوبصورت امریکی فوجی وردی میں ملبوس وہ میرین بھی ہو سکتا ہے جو امریکی صدر کے احکامات کے تحت بے گناہ افغانیوں پر اندھا دھند بم برسائے۔ 

اُس زمانے کی ایک تصویر مجھے آج تک نہیں بھولتی، ایک طرف بوڑھا افغان باپ اپنی بچی کی لاش کے سرہانے بیٹھا رو رہا ہے اور دوسری طرف ایک حسین خاتون پائلٹ نئے حملے کی تیاری کے لیے آئینے کے سامنے کھڑی بال سنوار رہی ہے۔

 امریکہ کا افغانستان پر حملے کا ہدف القاعدہ کے ٹھکانے ختم کرکے وہاں ایک نئی جمہوری حکومت کا قیام تھا، اِس ہدف کا ایک حصہ تو حاصل ہو گیا مگر دوسرے حصے میں کامیابی نہیں مل سکی، آج بھی افغانستان تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ویسا ہی ہے۔ 

دوسری طرف طالبان نے اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا تھا، یہ بھی لاحاصل رہا، اسامہ کو امریکہ نے پکڑ کر مار دیا، افغانستان کو کھنڈر بنا دیا، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے 3,561فوجی مارے گئے جبکہ دوسری طرف 62,000افغان فوج اور پولیس کے اہلکار ،قریباً 60,000طالبان اور کم از کم 24,000عام افغانی شہری مارے گئے، کیا اِس بات کا جشن منایا جا رہا ہے، کیا یہ فتح مبین ہے؟ امریکہ کا البتہ خرچہ بہت ہوا، 2001ءسے اب تک 932ارب ڈالر انکل سام کے لگ گئے۔

افغانستان میں امریکہ جیتا یا طالبان، آپ جسے چاہیں اس کے گلے میں ہار ڈال دیں مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر یہ بات نہ بھولیں کہ افغان طالبان نے کبھی پاکستانی طالبان سے خود کو علیحدہ نہیں کہا او ر نہ ہی اُن کے پاکستانی فوج، پولیس اور عام شہریوں پر حملوں کو روکا۔ 

افغانستان میں گزشتہ انیس برس میں ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے، اسکول، اسپتال، بازار اور شہر کے شہر تباہ کر دیے گئے، لاکھوں خاندان در بدر ہوئے اور یہ سب کچھ اِس وجہ سے ہوا کہ افغان طالبان نے امریکہ کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا تھا، آج وہ مطالبہ بےمعنی ہو چکا، امریکہ اور طالبان دونوں تھک چکے۔ 

سو اب جس شخص نے بھی لاکھوں افراد کی موت کا جشن منانا ہے اسے چاہئے کہ یہ جشن کسی ایسی افغان بچی کے ساتھ مل کر منائے جس کے ماں باپ امریکی ڈرون حملے یا طالبانی حملے میں مارے گئے ہوں، وہ بچی اسکول میں تو نہیں گئی ہوگی پر جشن کے ہجے ضرور بتا دے گی۔