زندگی بدل رہی ہے!
انسانوں پہ دہشت طاری ہے لیکن عام زندگی پہ جو بریکیں لگ چکی ہیں اور مزید لگ رہی ہیں کرۂ ارض کے لئے شاید اچھا ہو۔ ماڈرن زندگی بہت تیز ہو گئی تھی اور اس طرزِ زندگی کا بھاری بوجھ زمین پہ پڑ رہا تھا۔ ویسے تو انسانوں نے رُکنا نہیں تھا نہ اپنی رفتار کم کرنی تھی، اس بیماری نے وہ کر دکھایا ہے جو نا ممکن لگتا تھا۔
انسانوں پہ البتہ یہ بیماری بھاری گزر رہی ہے۔ کیا تباہیاں مچ چکی ہیں، شہر کے شہر اور ملک کے ملک جیسے بند ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ یہ حقائق ہم سب کے سامنے ہیں۔ اور ایک ہی بات کو دہرائے جانا کہاں کی عقل مندی ہے۔ کل میں نے لاہور کے اُس ہوٹل میں فون کیا جہاں قیام رہتا ہے۔ پوچھا کہ بزنس پہ اثر پڑا ہے تو جواب ملا کہ بس تھوڑے سے کمرے لگے ہوئے ہیں باقی سب خالی ہیں۔ ریستوران بند ہیں، سناٹا پڑا ہوا ہے۔ اس ہوٹل کے پیچھے ہی وہ پارلر ہے جہاں چند لمحات آرام اور آسودگی کے لئے جایا کرتے تھے۔ وہاں بھی فون کیا اور پوچھا کہ حالات کیسے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم احتیاطی تدابیر بہت کر رہے ہیں لیکن بزنس نے ڈاؤن تو ہونا ہی تھا۔ پتہ نہیں کب تک یہ حالات رہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ دنوں کی بات نہیں، لگتا ہے یہ امتحان لمبی مدت تک بھگتنا پڑے گا۔ دوسری طرف خاتون بات کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں دیہاڑی پہ کام کرنے والے بہت لوگ ہیں۔ اُن کا تو تکیہ روز کے کام پہ ہوتا ہے۔ حالات ایسے رہے تو دیہاڑی کے کام بند ہو جائیں گے۔ کورونا سے کچھ ہو یا نہ ہو لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔ اس کا میں کیا جواب دیتا۔
جب سے اس بیماری کی خبریں آنے لگیں روز کوئی نہ کوئی بابو یا وزیر کہہ دیتا تھا کہ ہماری تیاری مکمل ہے اور حکومت بہت کچھ کر رہی ہے۔ ان اعلانات کا بھانڈا تو اسلام آباد کے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے پھوڑ دیا‘ جب اُن کی تنظیم کے عہدے داروں نے یہ دہائی دی کہ بچاؤ کے مناسب کپڑے نہیں ہیں، حکومت وہ مہیا کرے نہیں تو ہمیں مجبوراً کام روکنا پڑے گا۔ اسلام آباد کے تین چار بڑے سرکاری ہسپتال ہیں۔ یہاں پہ حفاظت کی مخصوص کٹ اور لباس مہیا نہیں ہو سکے تو کون سی پھر ہماری تیاری ہے۔ حسب قومی روایت باتوں اور دعووں پہ زور زیادہ ہے اور کام پہ ذرا کم۔ یہ قومی روش ہے، اس کا کیا کیا جائے۔
ایسے میں تنقید بھی اچھی نہیں لگتی اور نصیحت تو بالکل ہی بیکار کی بات ہے۔ ہم جو دور بیٹھے ہیں کیا نصیحت دیں۔ ویسے بھی نصیحت سب سے آسان چیز ہے۔ ہم نے کالم کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے اور ہاتھ آئی سب سے سستی اور آسان چیز نصیحت ہے۔ بس اللہ خیر کرے اور بیماری یہاں زیادہ نہ پھیلے، نہیں تو مارے جائیں گے۔ معیشت پہلے ہی رینگتے رینگتے چل رہی تھی۔ بیماری کی وجہ سے اور نقصان پتہ نہیں کیا ہو گا۔
اپنی تقریر میں وزیر اعظم نے ایک چیز کہی کہ پاکستان جیسے ملکوں کے قرضہ جات معاف ہونے چاہئیں۔ یہ تو فضول کی بات ہے، کس نے معاف کرنے ہیں۔ کرنا تو یہ چاہیے کہ از خود ہم قرضہ جات واپس نہ کرنے کا اعلان کر دیں۔ کہ پیسے نہیں ہیں، دے نہیں سکتے۔ لہٰذا جیسے بینک قرضہ جات کو ری شیڈول کرتے ہیں ہم بھی اعلان کر دیں کہ ہمارے قرضے ری شیڈول کیے جائیں۔ تباہی تو ویسے ہی پھیل رہی ہے، اس سے زیادہ ہمارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔ ماہرین ڈرایا کرتے تھے کہ عالمی معیشت کے ہم مجرم ٹھہرے تو ہم پتھر کے زمانے میں چلے جائیں گے۔ بیماری کی وجہ سے پتھر کے زمانے میں نہ صرف ہم بلکہ ساری دنیا جا رہی ہے‘ جس کا یہ مطلب نہیں کہ بیماری پہ قابو نہیں پایا جا سکے گا۔ چین نے یہ کر دکھایا ہے کہ قابو پانا ممکن ہے۔ لیکن دنیا کی معیشت ہل کے تو رہ گئی ہے۔ چین کی اپنی معیشت کو بھاری نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ امریکا اٹھارہ مہینے تک محیط بیماری سے نمٹنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ریلیف پیکج‘ امریکی معیشت اور امریکی عام لوگوں کے لئے جس کا اعلان کیا گیا ہے‘ اتنا بڑا ہے کہ پڑھیں تو سر چکرا جاتا ہے۔ ہماری حالت ویسے ہی پتلی ہے۔ کوئی مضبوط حکمران ہو تو فوری اعلان کرے کہ ہم قرضے نہیں واپس دے سکتے۔ حالات ٹھیک ہوں گے تو پھر واپسی کا سوچیں گے۔ جو بیماری کی وجہ سے ہماری تباہی ہو رہی ہے اُس سے زیادہ ہم پہ کیا پابندیاں لگ سکتی ہیں؟ دنیا کی ائیر لائنیں دیوالیہ پن کے دہانے پہ کھڑی ہیں۔ ٹورازم کی انڈسٹری، ہوٹل وغیرہ پہ بُرے اثرات پڑ چکے ہیں۔ ہمارے ساتھ اور کیا ہو سکتا ہے؟
لیکن عمران خان صاحب میں اتنی سوچ اور ہمت ہے؟ ہمیں چین سے بھی کہنا چاہیے کہ اس وقت ہم قرضے واپس نہیں کر سکتے۔ ہم دوستی دوستی کہتے رہتے ہیں۔ دوستی میں پھر اتنا تو ہونا چاہیے۔ انڈی پنڈنٹ پاور پروڈیوسرز یا آئی پی پیز سے بھی از سر نو معاہدے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے بہترین کوئی موقع نہ ہو سکے گا۔ ان لوگوں نے بہت مال کما لیا ہے۔ ان کے ساتھ معاہدے ان کے فائدے کے کیے گئے تھے۔ اب یہ قوم پہ کچھ رحم کھائیں۔ ان کو سامنے بٹھانا چاہیے اور کہنا چاہیے کہ پرانے معاہدے نہیں چل سکتے۔ سرکولر قرضوں کو ختم کرنے کی اب ضرورت ہے۔
اس بحران میں اس بات پہ بھی غور کر لینا چاہیے کہ آیا آئی ایم ایف سے پروگرام جاری رہے یا نہیں۔ آئی ایم ایف سے اسی لیے پروگرام کیا گیا تھا کہ نہ کریں تو معاشی تباہی ہو گی۔ تباہی تو ویسے ہی آسمانوں سے آن پڑی ہے۔ معیشت کو اور دھچکا کیا لگ سکتا ہے۔ مزید آفتیں اب ہم پہ کیا گر سکتی ہیں؟ کیا باہر کے ملک اپنی پروازیں منسوخ کر دیں گے؟ وہ تو پہلے ہی ہو چکی ہیں۔ انویسٹروں نے جو پیسے زیادہ لگائے تھے بہت حد تک نکال لیے ہیں۔ تیل کی قیمتیں ویسے گر چکی ہیں۔ اس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ معیشت کی بندش سے تیل کی ڈیمانڈ میں کتنی کمی آئی ہے۔ لہٰذا یہ آفت کا وقت دلیرانہ فیصلوں کا تقاضا کرتا ہے۔ وائرس کے پھیلنے کی وجہ سے یہ معمول کی زندگی نہیں رہی۔ اگر ایسا ہے تو معمول سے ہٹ کر فیصلے بھی ہونے چاہئیں۔
اس خیال کو ذہن سے نکال دیا جائے کہ یہ ایک دو مہینے کی بات ہے۔ ابھی تو شروعات ہیں۔ پاکستان میں تو اب پتا چل رہا ہے کہ بیماریاں کتنی ہیں، نہیں تو ہم بغلیں بجا رہے تھے کہ ہم اس آفت سے محفوظ ہیں۔ مختلف بندشیں بڑھ رہی ہیں کمی کی طرف نہیں جا رہیں۔ خدا نہ کرے کہ یہاں اٹلی والی صورت حال پیدا ہو جائے لیکن اُس کے قریب بھی پہنچی تو تباہی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ملک کے ملک بند ہو رہے ہیں اور ہم آئسولیشن یا تنہائی میں جا رہے ہیں تو پھر فیصلے بھی تنہائی والے ہونے چاہئیں۔ ملک کے ملک ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں۔ اپنے زورِ بازو پہ انحصار کریں اور دنیا سے کہہ دیں کہ حالات ٹھیک ہوں گے تو پھر سے منقطع رابطے بحال ہو جائیں گے۔ اپنی مدد ہمیں خود کرنی پڑے گی۔ اپنے صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور اپنے بہترین دماغوں پہ بھروسہ کریں۔ ان اقدامات پہ سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ بات دہرائی جا سکتی ہے، ہم پہ اور پابندیاں کیا لگ سکتی ہیں؟
یہ وقت اس چیز کا بھی تقاضا کرتا ہے کہ ہم قومی ائیر لائن اور سٹیل مل کے بارے میں سوچیں کہ ان سفید ہاتھیوں کا کیا کرنا چاہیے۔ یہ دونوں ہاتھی مفت کی کھا رہے ہیں اور قوم پہ بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ ان کے حوالے سے حکومتیں بڑے فیصلوں سے کتراتی رہی ہیں لیکن شاید وقت آن پہنچا ہے کہ ان کے بارے میں کچھ سوچا اور کیا جائے۔