منتخب تحریریں

مدنی تکیہ اور نظریں نیچے رکھنے کا طریقہ

Share

سچی بات یہ ہے کہ صحافت سے منسلک تمام شعبوں میں کچھ ایسے بدنصیب موجود ہیں جنہیں اگر کوئی پھل بھی نظر آئے تو ان کی توجہ اس پھل کی مٹھاس پر نہیں جاتی بلکہ وہ اس میں سے کیڑے تلاش کرلیتے ہیں اور یوں اس دکاندار کی روزی پر لات مارتے ہیں۔میں اعتراف جرم کرتا ہوں کہ ایک زمانہ تھا کہ میں خود بھی ان بدنصیبوں میں شامل تھامیری نظر بھی تصویر کے کسی ایک رخ پر آکر رک جاتی اور تصویر کا روشن رخ میری نظروںسے اوجھل ہو جاتا تھا مگر میں جب سے مولانا الیاس قادری عطاری کی درویشی کا قائل ہوا ہوں بالکل بدل گیا ہوں دعوت اسلامی کے امیر کے عقیدت مند سبز پگڑیاں باندھتے ہیں باقی باتیں میں بعد میں عرض کروں گا مگر ماہ رمضان کے آخری روزے پر میں نے ایک ویڈیو میں انہیں دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا مجھ گنہگار کو اس گریہ کی وجہ سمجھ نہ آئی اس پر میرے ایک متقی دوست نے بتایا کہ حضرت سے ماہ رمضان کی جدائی کا صدمہ برداشت نہیں ہورہا اور انہیں یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ وہ اس مبارک ماہ کی برکتوں سے محروم ہو رہے ہیں ۔ان کا گریہ بجا تھا اگلے سال اگرچہ یہ مقدس مہینہ پھر ہمیں نصیب ہو گا مگر محبوب سے تو ایک لمحے کی جدائی بھی برداشت نہیں ہوتی مگر ایک سچے عاشق کیلئے محبوب کا ایک سال انتظار اگر اتنا آسان ہوتا تو حضرت یوں رو رو کر بے حال نہ ہو رہے ہوتے ۔

میں ایک گستاخی کی وضاحت کر دوں کہ یہ عاصی حضرت کا صرف نام لکھے جا رہا ہے حالانکہ گوگل میں ان کا تعارف حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی کے نام سے کرایا گیا ہے اور یہ بھی کہ انہیں علامہ عظیم بھی کہا جاتا ہے مگر کالم کی سپیس کم ہوتی ہے جس بنا پر مجھے یہ گستاخی کرنا پڑ رہی ہے۔یوں میں تو دوسرے علماء اور مشائخ کی دینی خدمات کا بھی بہت قائل ہوں لیکن حضرت نے تو انتہائی باریک بینی سے ہمارے رویوں کا جائزہ لیا ہے اور انہیں خاص اسلامی جہت دینے کی کوشش کی ہے مثلاً میں ان کی ایک ویڈیو دیکھ کر حیران بلکہ سخت نادم ہوا کہ میں بلکہ تقریباً سارا عالم اسلام ایک ایسی بے ادبی کا مرتکب ہوتا ہے جس کا اسے احساس تک نہیں، چنانچہ حضرت نے اس ویڈیو میں کیلوں کا ایک گھچاپکڑا ہوا ہے اور بتا رہے ہیں کہ جب آپ اپنے گھر میں یا دکاندار اپنے چھابوں میں رکھیں تو ان کا منہ کعبہ شریف کی طرف ہونا چاہیے، پھر انہوں نے ایسا کرکے بھی دکھایا مگر مجھ سمیت کروڑوں گناہ گار مسلمانوں کو کیا پتہ کہ کیلے کا منہ ہوتا بھی ہے یا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو آگے یا پیچھے کس طرف ہوتا ہے۔ بلکہ یہ بھی کہ کیلے کا کوئی آگا یا پیچھا ہوتا بھی ہے یا نہیں؟ ہماری اس جہالت کا حضرت کو کیا پتہ مگر انہوں نے ہمیں کیلا رکھنے کے آداب سے آگاہ کردیا تاکہ ہم انجانے میں گناہ کے مرتکب نہ ہوں۔

حضرت نے اور بھی بہت سے امور میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے ، صرف رہنمائی نہیں بلکہ گناہوں سے بچانے کیلئے کچھ چیزیں بھی ایجاد کی ہیں، مثلاً آپ نے دیکھا ہوگا کہ اچھے خاصے شرعی وضع قطع کے لوگ لمبی ریش چہرے پر سجائے کسی موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوتے ہیں، ظاہر ہے ان میں سے ایک بائیک ڈرائیو کر رہا ہوتا ہے اور دوسرا اس کے پیچھے بیٹھا نظر آتا ہے، ہم عادی گناہ گاروں کے ذہن میں کبھی خیال تک نہیں آیا کہ پیچھے بیٹھا شخص شیطان کے بہکاوے میں بھی آسکتا ہے۔ چنانچہ حضرت نے ’’مدنی تکیہ‘‘ کا منفرد تصور پیش کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ دو مدنی بھائی جب موٹرسائیکل پر، ظاہر ہے آگے پیچھے بیٹھے ہوں تو درمیان میں مدنی تکیہ رکھ لیں تاکہ شیطان اگر کوئی کارروائی کرانا بھی چاہے تو درمیان میں رکھا ہوا یہ تکیہ اس کے عزائم کو ناکام بنا دے۔ میں اس حوالے سے حضرت کا ذاتی طور پر بھی ممنون ہوں کہ میں اگرچہ برس ہا برس کسی دوست کی موٹر سائیکل پر اس سے لفٹ لیتا رہا ہوں مگر جس روز یہ احتیاط میری نظر سے گزری اس سے اگلے روز میں حسب معمول ایک دوست کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھا تھا تو حضرت کی بات یاد آگئی اور پھر اس کے فوراً بعد مجھے محسوس ہوا کہ شیطان مجھے بہکانے کی کوشش کر رہا ہے، میں نے دوست سے فوری طور پر بریک لگانے کو کہا اور اسے جانے کا کہہ کر پیدل چل پڑا۔ اب میں مدنی تکیہ کی تلاش میں ہوں کہ آخر مجھے بھی تو کسی کو پیچھے بٹھانا پڑ سکتا ہے اور ہر کوئی تو اتنا احتیاط پسند نہیں ہوتا۔

اور اب آخر میں حضرت کی ایک اور دور بینی کی حکایت ۔ اور اس کا تعلق معنوی طور پر بھی دور بینی سے ہے ۔ ان کے مریدوں نے ایک عینک ایجاد کی ہے جس سے آپ دور تک نہیں صرف نیچے کی طرف دیکھ سکتے ہیں، ہمیں ہمارے بزرگ ہمیشہ آنکھیں نیچی کرکے چلنے کی ہدایت کرتے رہے ہیں مگر حضرت نے صرف نصیحت نہیں کی اس کا ایسا حل بھی نکالا ہے کہ اب کوئی نظریں اونچی کرکے تو دیکھے؟