منتخب تحریریں

یران-اسرائیل کشیدگی اور مہنگائی کی لہر

Share

اسرائیل اور ایران کے مابین لمحہ بہ لمحہ خطرناک حد تک کشیدہ ہوتی صورتحال سے مجھ جیسے صحافیوں کو کامل آگاہی کے لیے ٹویٹر تک جسے اب ایکس کہا جاتا ہے بلاتعطل رسائی درکار ہے۔ تقریباً3ماہ قبل مگر ہمارے حکمرانوں نے یہ فیصلہ کیا کہ دنیا بھر کے مستند یا غیر مستند ذرائع حتیٰ کہ ڈھٹائی سے جعلی خبریں پھیلانے والوں کو میسر یہ پلیٹ فارم پاکستانی عوام کو گمراہ کررہا ہے۔ فکر مند مائی باپ کی طرح ہمارے ’بچگانہ‘اذہان کو گمراہی سے بچانے کے لیے ایکس پر کنٹرول کا لہٰذا فیصلہ ہوگیا۔ دن کے 24گھنٹوں میں اب وہ طویل وقفوں کے بعد کبھی کبھار ہی چند لمحات کے لیے فعال ہوتا ہے۔ 
وطن عزیز کے تین ہائی کورٹس اپنے اپنے طورپر ایکس کی تقریباً بندش کا نوٹس لے چکے ہیں۔ سخت سوالات اٹھانے کے باوجود تاہم وہ ابھی تک یہ جان نہیں پائے ہیں کہ ٹویٹر پر کامل کنٹرول کی حقیقی وجوہات کیا ہیں اور ممکنہ وجوہات کو واجب ٹھہرایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اسرائیل اور ایران کے مابین لمحہ بہ لمحہ خطرناک حد تک کشیدہ ہوتی صورتحال سے آگاہی لہٰذا ناممکن تو نہیں مگر بہت دشوار ہوچکی ہے۔ایسے حالات میں کوئی پاکستانی صحافی تبصرہ آرائی کے نام پر یاوہ گوئی یا احمقانہ قیاس آرائی ہی سے ڈنگ ٹپاسکتا ہے۔
ہفتے کی شام سے اسرائیل اور ایران کے مابین کشیدگی میں خوفناک حد تک ہوئے اضافے کا اثر اگرچہ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کی روزمرہ زندگیوں پر دل دہلادینے کی حد تک اثرانداز ہوگا۔ 8فروری کے انتخابات مکمل ہوجانے کے بعد سے اسلام آباد کے سفارتی حلقوں میں ’مستند‘ تصور ہوتی گپ شپ کی بدولت مجھے یہ علم ہوا کہ ایرانی صدر کی پاکستانی آمد کی تیاری ہورہی ہے۔ اس خبرکا ذکر کردیا تو ہمارے میڈیا میں یہ بات بھی تیزی سے زیر بحث آنے لگی کہ ایرانی صدر کا دورئہ پاکستان دوبرادر ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قابل ستائش حد تک بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔شاید اس کے نتیجے میں بہت دنوں سے امریکی اقتصادی پابندیوں کے خوف سے رکی پاک-ایران پائپ لائن کی تعمیر مکمل کرنے کے راستے بھی نکل آئیں۔
ایرانی صدر کی پاکستان آمد اور ہماری جانب سے ایرانی تیل اورگیس کی خریداری کے حوالے سے پھیلی خبروں سے امریکا صاحب بہادرخوش نہیں ہوا۔ چند ہی ہفتے قبل امریکی وزا رت خارجہ کے ہمارے ہاں ضرورت سے زیا دہ مشہور افسر-ڈونلڈ لو- امریکی ایوان نما ئندگان کی ایک کمیٹی کے روبرو پیش ہوئے۔ انھیں طلب کرنے والوں کی حقیقی خواہش پاکستان میں عمران خان کی گرفتاری کی وجہ سے ’جمہوریت کی صحت ا ور بقا‘ پر سوال اٹھانا تھی۔ بات چل نکلی تو ’اصل خبر‘ وہاں سے تاہم یہ نکلی کہ پاکستان نے اگر ایرانی تیل اور گیس کی درآ مد بڑھانے اور انھیں ’باقاعدہ‘ بنانے کا فیصلہ کرلیا تو واشنگٹن اسے پسند نہیں کرے گا۔ معاملہ حد سے بڑھا تو ہمارے خلاف امریکا اقتصادی پابندیاں بھی عائد کرسکتا ہے۔ 
ڈونلڈلو کے دیے بیان کے بعد ہماری حکومت کے فیصلہ ساز نہایت خلوص وفکر مندی سے کوئی ایسی حکمت عملی تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے جو واشنگٹن کو ایرانی صدر کے دورئہ پاکستان کو برداشت کرنے میں مدد دے سکے ۔پھرمگر یکم اپریل 2024ء ہوگیا ۔ اسرائیل نے نہایت ڈھٹائی سے اس روز شام کے شہر دمشق میں کئی برسوں سے قائم ایران کی ایک سفارتی عمارت کو تباہ کردیا۔ جواز اس کا یہ بتایا کہ سفارتکاری کے نام پر کھڑی عمارت درحقیقت شام میں ’ایرانی پاسداران‘ کا ہیڈکوارٹر تھی اور اسے اسرائیل کے دشمنوں کو ہتھیاروتربیت فراہم کر نے کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔
کسی بھی ملک کے ’سفارت خانے‘ سے جڑی عمارتوں پر کسی اور ملک کی جانب سے ہوا حملہ عالمی قوانین کی نگاہ میں ’ایکٹ آف وار‘ یعنی ’جنگی حملہ‘ تصور ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم ہوئے نام نہاد عالمی اداروں کے پاس لیکن ایسے ’حملوں‘ کا حساب لینے کا اختیار موجود نہیں۔ ایسے اختیارات اگر میسر ہوتے تو فروری 2022ء سے آج تک جاری روس-یوکرین جنگ ختم ہوچکی ہوتی۔ 7اکتوبر 2024ء سے غزہ میں محصور ہوئے فلسطینیوں پر وحشیانہ حملے بھی رک جاتے۔ آپا دھاپی کا زمانہ ہے۔ ہر ملک کو اپنے خلاف ہوئے حملے کا دفاع خود ہی کرنا ہوتا ہے۔ ایران نے بھی دورِ حاضر میں رائج چلن اختیار کیا اور اسرائیل پر اپنے تیار کردہ ڈرون پرندوں کے غول کی صورت لانچ کردیے۔ جو ڈرون چلائے گئے وہ کیمروں کے ذریعے جاسوسی کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ وہ اسلحہ بردار ہیں۔ نشانہ ڈھونڈ کر خودکش بمبار کی طرح اس پر گرکے خود کو تباہ کرلیتے ہیں۔ اسرائیل مگر ایران کا ہمسایہ نہیں ہے۔ ایران کی جانب سے بھیجے ڈرون ہتھیاروں کو اسرائیل تک پہنچنے کے لیے عراق، شام،اردن یا لبنان کی فضائوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل تک پہنچنے سے قبل ہی امریکا اور برطانیہ کے جدید مواصلاتی اور فضائی دفاع کے نظام نے ایران سے چلائے ڈرون ہوا ہی میں غیر مؤثر بنادیے۔ ایران نے مگر ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات سرکاری طورپر جاری کیے اعلان کے ذریعے یہ دعویٰ کیا کہ اس نے دمشق میں اپنی عمارت پر ہوئے حملے کا ’بدلہ‘ لے لیا ہے۔اس کی جانب سے اسرائیل کے خلاف آپریشن (غالباً اپنے مقاصد کے حصول کے بعد) اب ’اختتام‘ کو پہنچ گیا ہے۔ جھگڑا مزید بڑھانے کی ضرورت نہیں۔ ساتھ ہی امریکا کو خبردار بھی کردیا کہ وہ اسرائیل کی محبت میں ایران سے پنگا لینے سے گریز کرے۔ 
اتوار کی صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھتے ہوئے میں ہرگز اس قابل نہیں کہ خود کو یا آپ کو اطمینان دلاسکوں کہ ایران اور اسرائیل کے مابین کشیدگی کا تازہ ترین مرحلہ اپنے ’اختتام‘ کو پہنچ گیا ہے یا نہیں۔ ٹویٹر سے ’محفوظ‘ بنائے پاکستانی صحافی کی حقائق تک رسائی انتہائی محدود ہے۔ امریکا کا مگر ایک اخبار ہے۔ نام ہے اس کا ’وال سٹریٹ جرنل‘ ۔ گزشتہ ہفتے کے آغاز میں اس نے ایک تجزیہ نما خبر کے ذریعے دعویٰ کیا تھا کہ ایران اسرائیل پر جمعہ کے دن دمشق میں ہوئے حملے کا بدلہ لینے کے لیے ’کچھ کرنے‘ کو تیار ہے۔ یہ تجزیہ نما خبر چھپتے ہی امریکا کی سٹاک ایکس چینج میں تھرتھلی مچ گئی۔ پاکستان جیسے ملکوں کے لیے مگر تشوشناک واقعہ یہ بھی ہوا کہ اکتوبر2023ء کے بعد تیل کی قیمت عالمی منڈی میں ایک بار پھر سو ڈالر فی بیرل کی حد تک تیزی سے بھاگنے لگی۔ 
یہ کالم لکھنے سے قبل ٹی وی کا ریموٹ اٹھاکر ایک گھنٹے تک سی این این اور بی بی سی وغیرہ دیکھے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ ایران تو اپنی جانب سے اسرائیل کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے مرحلے کو ’اختتام‘ تک پہنچا چکا ہے۔ اسرائیل اور اس کے اتحادی مگر معاملہ ختم ہوا تصور نہیں کررہے۔ وہ اس سوچ پر قائم رہے تو آئندہ کچھ دنوں میں مجھے اور آپ کو پٹرول کا ایک لیٹر خریدنے کے لیے اپنی اوقات سے کہیں زیادہ قیمت ادا کرنا ہوگی۔ مہنگائی کی ایک اور لہر ہماری بچی کھچی ہمت بھی نچوڑلے گی۔ 
میرے اور آپ جیسے عامیوں پر جو قیامت گزرنا ہے اسے نظرانداز کرتے ہوئے بطور صحافی یہ سوچنے کو بھی مجبور ہورہا ہوں کہ ایرانی صدر ہماری توقع کے مطابق رواں مہینے کی 21یا 22تاریخ کو پاکستان تشریف لاسکیں گے یا نہیں اور اگر وہ آگئے تو واشنگٹن میں بیٹھے ہمارے ’دوست‘ اس کے بارے میں کیا محسوس کریں گے۔