شاعری کے ہاتھوں کورونا کی درگت
ان دنوں کورونا ہماری اردو شاعری کی زد میں آیا ہوا ہے، ہمارے ایک شاعر عمران ظفر نے تو اس ’’ملعونہ‘‘ کی مت مار دی ہے۔ موصوف نے ہمارے بہت سے شعراء کی معروف غزلوں کی زمین میں غزلیں کہی ہیں اور موضوع یہ منحوس وبا ہی ہے۔ تاہم یہ شاعری آپ کو اداس نہیں کرے گی بلکہ گدگدائے گی اور اس وائرس کا علاج اپنی قوتِ مدافعت ہی سے کیا جا سکتا ہے اور گدگدیاں اس قوت میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور اداسیاں اس ’’ملعونہ‘‘ کی روح کی غذا ہیں۔ اب آپ ذیل میں عمران ظفر کی خوش طبعی اور قادر الکلامی کے جوہر ملاحظہ فرمائیں اور یہ بندوق انہوں نے ہمارے نامور شعراء کے کاندھوں پر رکھ کر چلائی ہے۔
بہادر شاہ ظفر
خوف و ہراس پھیلا ہے قرب و جوار میں
جب سے وبا یہ آئی ہے اپنے دیار میں
اک پل تو یوں لگا کہ کورونا مجھے بھی ہے
میں نے علامتیں جو پڑھیں اشتہار میں
کیسی ہے یہ وبا کہ کوئی پوچھتا نہیں
بیگانے ہو کے رہ گئے اپنے دیار میں
اب احتیاط کر مرے بھائی! کہ بعد میں
رہنا نہیں ہے کچھ بھی ترے اختیار میں
میں چھینکنے لگا تو کورونا کے خوف سے
غیروں نے بیٹھنے نہ دیا بزمِ یار میں
بازار بند، گھر ہیں پڑے، اہلیہ کے ساتھ
’’قسمت میں قید لکھی تھی فصلِ بہار میں‘‘
کتنا ہے بدنصیب ظفرؔ دید کے لیے
اک ماہ سے گزر نہ ہوا کوئے یار میں
یاس یگانہ چنگیزی
وبائے عام میں عمرانؔ ڈر جانا نہیں آتا
ذرا محتاط ہوتے ہیں پہ گھبرانا نہیں آتا
مجھے بھی جینا آتا ہے بہ طرزِ حضرت غالبؔ
وبا کے خوف سے گھٹ گھٹ کے مر جانا نہیں آتا
مرض یہ عارضی ہے دائمی تو ہو نہیں سکتا
کوئی بھی درد ہو اس کو ٹھہر جانا نہیں آتا
کورونا کوہ کی صورت ہے لیکن کٹ ہی جائے گا
مجھے اس وائرس سے خوف تو کھانا نہیں آتا
نہ جائوں ٹوٹکوں پہ، یہ مرض ہے لاعلاج اب تک
’’سمجھتا ہوں، مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا‘‘
قرنطینہ میں تم نے بےسبب تکلیف کی جاناں
تمہیں کیا ڈاک سے سوغات بھجوانا نہیں آتا؟
ادھر ہے چوک میں ناکہ، کہاں جائے گا تو کاکا!
تجھے چھترول سے خود کو بچا پانا نہیں آتا؟
’’ازل سے تیرا بندہ ہوں، ہے تیرا حکم آنکھوں پر‘‘
مجھے یوں زوجۂ اقدس سے فرمانا نہیں آتا
قرنطینہ میں بکل مار کے کھاتا ہوں بریانی
کہ روزہ دار کے آگے مجھے کھانا نہیں آتا
احمد ندیم قاسمی
اس کورونا نے کھڑی کیسی مصیبت کر دی
پوری دنیا میں بپا گویا قیامت کر دی
سوچتا ہوں جو نتائج تو لرز جاتا ہوں
لاک ڈائون تو کیا، نرمی میں عجلت کر دی
یہ بھی خدشہ ہے کہ فاقوں کی وبا پھوٹے گی
لاک ڈائون میں اگر اور طوالت کر دی
میں تو سمجھا تھا کہ غم خواری کرے گی میری
تو نے آتے ہی شروع اپنی سیاست کر دی
وقفہ ہونے پہ یہ دل کھول کے ملنے والے
احتیاط ایک مہینے کی اکارت کر دی
شیخ دیتے رہے مسجد میں اذانوں پہ اذاں
جانے کس شوخ نے کل رات شرارت کر دی
ڈھائی من سے بھی زیادہ ہوا اب وزن مرا
اس Stay Homeyنے ’’اچھی‘‘ میری صحت کر دی
ایک مدت سے تُو جا ہی نہ سکی پالر تک
لاک ڈائون نے بھیانک تری صورت کر دی
گھر میں رہ رہ کے میں شاعر سا بنا تھا عمرانؔ
اہلیہ نے ہے مگر آج حجامت کر دی
احسان دانش
یوں نہ مل مجھ سے ڈرا ہو جیسے
تن مرا وجہِ وبا ہو جیسے
اپنے ’’احساس‘‘ کی دھجی نہ اُڑا
میرا حق، تیری عطا ہو جیسے
دی جو امداد تو اس ناز کے ساتھ
’’مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے‘‘
جونہی چھینکا تو سبھی دوڑ گئے
میں نے بم پھوڑ دیا ہو جیسے
لاک ڈائون میں پھنسے ہیں ایسے
ہاتھ کھڑکی میں پھنسا ہو جیسے
ہے قرنطینہ میں ہنگامہ سا
کوئی پھر بھاگ گیا ہو جیسے
جھڑکیاں رات وہ یوں دیتے رہے
یہ کورونا کی دوا ہو جیسے
کوئی مِس کال قرنطینہ میں؟
’’تو مجھے بھول گیا ہو جیسے‘‘
یہ کورونا کی علامت ہی نہیں
عشق کا روگ لگا ہو جیسے
لاک ڈائون میں گزارا بھی ظفرؔ
’’ایک بےجرم سزا ہو جیسے‘‘