منتخب تحریریں

جنرل چشتی راز ضرور کھولیں گے

Share

میرا آپ کے والد کی پھانسی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس روز آپ کے والد کو پھانسی دی گئی میں شمالی علاقہ جات کے دورے پر تھا۔ مجھے پھانسی کی خبر ہیلی کاپٹر پر وائرلیس کے ذریعے ملی۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض علی چشتی نے مبینہ طور پر یہ بات سینیٹر انور بیگ کے گھر پر بینظیر بھٹو کے ساتھ نومبر 2007کے تیسرے ہفتے ہونے والی ملاقات میں کہی۔ اس واقعے کے کم و بیش ایک ماہ بعد بینظیر کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا تھا چونکہ اس واقعہ کے واحد عینی شاہد سینیٹر انور بیگ تھے اس لیے کبھی یہ بات منظر عام پر نہیں آسکی۔

اس ملاقات کی اہمیت سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ بھٹو کی پھانسی کا الزام اگر جنرل ضیاء الحق کے بعد کسی پر عائد کیا جاتا رہا ہے تو وہ جنرل چشتی ہی ہیں کیونکہ فیض علی چشتی پاکستان میں پانچ جولائی 1977میں لگنے والے مارشل لاء کے مرکزی کردار تھے۔

جنرل ضیاء الحق انہیں مرشد کہہ کر پکارتے اور اُن پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ جب بھٹو حکومت کے خلاف جنرل ضیاء کے حکم پر کارروائی کی گئی تو جنرل چشتی راولپنڈی کے کور کمانڈر تھے اور جب بھٹو کو تختہ دار پر چڑھایا گیا تو اس وقت بھی وہ اسی حیثیت میں فوج میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

بینظیر بھٹو نے 2007کی اس سرد شام ہونے والی ملاقات کے آغاز میں جنرل چشتی سے ان کی خیریت دریافت کی تھی اور پھر وہ زیادہ تر خاموش ہی رہی تھیں۔ یہ خبر میرے پاس کئی مہینوں سے تھی تاہم اس کی تصدیق کے عمل میں وقت لگ گیا اور بالآخر گزشتہ ہفتے سینیٹر انور بیگ سے ان کے گھر ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس حوالے سے آن دی ریکارڈ کچھ بھی کہنے سے معذرت کرلی۔ چند روز بعد جناب رئوف کلاسرا صاحب کا اسی موضوع پر ایک کالم شائع ہوا مگر میرا تجسس برقراررہا۔

’’بینظیر سے میں نہیں وہ مجھ سے ملی تھیں بالکل ایسے ہی جیسے 1978میں میرے برطانیہ کے دورے کے دوران غلام مصطفیٰ کھر مجھے برطانوی ہائی کمشنر کے دفتر میں ملنے آئے تھے اور میڈیا میں خبر لگائی گئی کہ میں غلام مصطفیٰ کھر سے ملا ہوں‘‘ جنرل فیض علی چشتی نے اپنی کھنک دارآواز میں مجھے فون پر بتایا۔

میری دلچسپی اوربھی بڑھ گئی کیونکہ ان کی کتاب Betrayals of Another Kind: Islam, Democracy and The Army in Pakistan کئی سال قبل شائع ہو چکی تھی۔ جس میں انہوں نے جنرل ضیاء کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کا ناقدانہ جائزہ لیا تھا جبکہ 1977کے مارشل لامیں مرکزی کردار ادا کرنے کا اعتراف کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اس وقت یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ کھولنے کا مشورہ اس وقت ضیاء الحق کے مشیر شریف الدین پیرزادہ اور بھٹو کے مخالف وکیل اے کے بروہی نے دیا تھا۔

جنرل چشتی سے فون پر گفتگو میں میری دلچسپی اس بات میں تھی کہ جان سکوں کہ انہوں نے بینظیر بھٹو سے ملاقات کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ میں ان کے جذبات ان کی زبان سے سننے کا خواہشمند تھا کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ چشتی صاحب نے سینیٹر انور بیگ کو بینظیر سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ایک موقع پر کہا تھا کہ میں الزامات اپنے سر لے کرنہیں مرنا چاہتا۔

اسی پس منظر میں مَیں نے جنرل صاحب سے پوچھاکہ اگر آپ برا نہ منائیں تو بتائیں کہ آپ کے اور بینظیر بھٹو کے درمیان ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟ چشتی صاحب بولے، نہیں میں یہ نہیں بتا سکتا اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے سینیٹر انور بیگ سے اس ملاقات کے لیے کوئی درخواست نہیں کی تھی۔ میں ایسا کیوں کرتا؟

یہ بینظیر سے میری پہلی ملاقات بھی نہیں تھی۔ بلکہ میری نصرت بھٹو اور بینظیر سے برطانیہ میں جام ساقی کے گھرماضی میں بھی ملاقاتیں رہیں۔ دیکھیے مصطفیٰ کھر کہہ چکے اور نصرت بھٹو بھی تسلیم کرتی رہیں کہ اگر جنرل چشتی نہ ہوتے تو شاید وہ نہ بچتیں اگر میں چاہتا تو سارے مارے جا سکتے تھے مگر میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

’’آپ صحافی ہیں، بین السطور باتوں کو سمجھتے ہیں، یاد رکھیے بینظیر کوبھی اقتدار سے نکالا گیا تھا، کس نے نکالا تھا آپ کو بھی پتا ہے ہماری گفتگو میں وہ باتیں بھی شامل تھیں جو ان کے اقتدار کے حوالے سے تھیں‘‘۔

پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر انور بیگ کا جنرل چشتی سے 1978کا اس وقت کا تعلق ہے کہ جب بیگ نے جنرل چشتی سے سیکٹر ایف ایٹ میں ایک گھر خریدا تھا۔ انور بیگ کے قریبی بھٹو کی بیٹی اور ضیا کے ساتھی کی اس ملاقات کا ذکر کرتے ہیں۔

بیگ تردید نہیں کرتے تاہم چشتی اس ملاقات کی تصدیق کرتے ہیں مگر تفصیلات پر اختلاف بھی رکھتے ہیں ۔ میں جنرل صاحب کی صحت و تندرستی اور لمبی زندگی کے لیے دعا گو ہوں اگرچہ انہوں نے کچھ باتیں اپنی کتاب میں لکھ دی ہیں مگر ان کے سینے میں آج بھی بہت سے راز موجود ہیں مجھے یقین ہے کہ وہ یہ راز بھی کھولیں گے۔