مرنے اور غائب ہونے والے بھی تو ہمارا خیال کریں
یہ واقعہ اپنی جگہ درست ہے کہ یومِ آزادی سے ایک روز پہلے کراچی یونیورسٹی کا جواں سال طالبِ علم حیات بلوچ تربت میں اپنے گھر کے باغیچے سے دہشت گردی کے شبہے میں سڑک پر گھسیٹ لیا گیا اور مسلح ایف سی اہلکاروں نے اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر والدین کی التجائی آنکھوں کے سامنے حیات بلوچ کے جسم میں لگ بھگ آٹھ گولیاں پمپ کر دیں۔
میں بھی حیات بلوچ کے اس طرح سے قتل کیے جانے کی مذمت کرنا چاہتا ہوں پر مشکل یہ ہے کہ تربت پاکستان میں ہے اور میں پاکستانی میڈیا کا ایک ادنی سا پرزہ۔ لہذا میں کوئی ایسا غیر ذمہ دارانہ تبصرہ نہیں کر سکتا جس سے پاکستان کے کسی ادارے کی شہرت پر خراش تک آئے۔
زیادہ سے زیادہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ حیات بلوچ کا قتل افسوسناک ضرور ہے مگر دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اس طرح کی بُھول چُوک ہوتی رہتی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ متعلقہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو مزید احتیاط سے نبھائیں تاکہ آئندہ ایسے افسوسناک واقعات سے بچا جا سکے۔
میں تو اگلے چند روز میں اس خبر کا بھی منتظر ہوں کہ حیات بلوچ کے اہلِخانہ نے عظیم تر قومی مفاد میں اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے بغیر کسی دباؤ کے قاتل کو معاف کر کے انسانیت نوازی اور حب الوطنی کی اعلی مثال قائم کر دی۔
کاش حیات بلوچ کو گھسیٹ کر اور باندھ کر گولیاں مارنے کا یہی واقعہ سرینگر کی کسی سڑک پر یا مغربی یروشلم کی کسی چیک پوسٹ پر پیش آتا تو میں اس بہیمانگی کا مرثیہ لکھ لکھ کر کاغذ سے خون ٹپکا دیتا، انسانی حقوق کی پامالی کا ماتم کرتے کرتے میرا قلم غش کھا کر گر پڑتا۔ میں چیخ چیخ کر گلا بٹھا لیتا کہ کہاں ہے عالمِ اسلام؟ انسانی حقوق کے علم بردار کہاں سو رہے ہیں؟
مگر غلطی حیات بلوچ کی بھی ہے۔ وہ غلط مقام پر درست لوگوں کے ہاتھوں مارا گیا۔ لہذا مجھے چھوڑ کوئی بھی محبِ وطن قلم کار چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا۔
میں تو سندھ کے سرکردہ دانشور اور لکھاری تاج جویو سے بھی اظہارِ یکجہتی کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ ان کے بیٹے سارنگ جویو کو اس کے گھر کا دروازہ توڑ کر اس کے بچوں کے سامنے تشدد کرتے ہوئے مبینہ جبری اغوا کر لیا گیا اور بلاوارنٹ گھر تلپٹ کر دیا گیا۔
اس واقعہ کے دو روز بعد ریاستِ پاکستان نے تاج جویو کی ادبی و ثقافتی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہِ حسن کارکردگی عطا کرنے کا اعلان کیا، مگر جویو صاحب نے احتجاجاً یہ تمغہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
میں دراصل یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ صدارتی تمغہِ حسن کارکردگی دراصل ان بازیگروں کو ملنا چاہیے جو اتنی صفائی سے بندہ غائب کرتے ہیں کہ خود ریاست ٹاپتی رہ جاتی ہے کہ کدھر سے آیا کدھر گیا وہ۔ مگر میں یہ سب نہیں لکھ سکتا کیونکہ اس سے میرا ملک مُنی کی طرح بدنام ہو جائے گا اور میں اس بدنامی میں حصہ دار نہیں بننا چاہتا۔
کاش جویو صاحب کا بیٹا اور دیگر سینکڑوں بیٹے مصر، ایران یا وسطی ایشیا کے کسی ملک میں غائب ہو جاتے تو مجھے ان ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی کا بلاجھجھک ماتم کرنے میں کتنی آسانی ہو جاتی۔
29 جولائی کو پشاور کی ایک بھری سیشن عدالت میں توہینِ مذہب کے ایک ملزم طاہر احمد نسیم کو کسی خالد نامی شخص نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
مگر مبینہ قاتل خالد کو حراست میں لینے والے پولیس اہلکاروں نے ’غازی خالد‘ کے ساتھ فخریہ سیلفیاں کھینچیں اور مسلم لیگ نواز کے رکنِ قومی اسمبلی عمران علی شاہ نے اسمبلی سیشن کے دوران خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ایک خصوصی صدارتی حکم نامے کے ذریعے غازی ملزم کو معافی دی جائے یا پھر خیبر پختونخوا کی حکومت ملزم کی جانب سے مقتول کے لواحقین کو خوں بہا ادا کرے ورنہ وہ اپنی جائداد بیچ کر یہ خوں بہا ادا کرنے کو تیار ہیں۔
عمران علی شاہ ایم این اے کوئی عام آدمی نہیں بلکہ اس ادارے کے رکن ہیں جو 22 کروڑ پاکستانیوں کے جان و مال اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرتا ہے۔ مگر چونکہ یہ ایک نازک معاملہ ہے لہذا میں اس پر غیر ضروری تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔
کاش مقتول طاہر احمد نسیم کوئی انڈین مسلمان ہوتا جسے کسی جے پور کی بھری عدالت میں کوئی بجرنگی قاتل شیام داس دن دہاڑے قتل کر دیتا اور پولیس اہلکار اسے ہار پہنا کر اس کے ساتھ سیلفی کھنچواتے اور اگلے ہی دن لوک سبھا میں شیوسینا کا کوئی کرشنا ہیگڑے ایم ایل اے بجرنگی قاتل شیام داس کو اپنا ہیرو گھوشت کر کے اس کے مقدمے کے تمام اخراجات برداشت کرنے کا اعلان کرتا۔
اس کے بعد میں نے انڈین سیکولر ازم، ہندو تنگ نظری اور مسلمان دشمنی کے خلاف اور دو قومی نظریے کی حمایت میں اور ہندو توا کو کوستے ہوئے وہ وہ لائنیں لکھنی اور بولنی تھیں کہ متعصب تنگ نظر سماج وادیوں کو منھ چھپانے کی جگہ نہ ملتی۔
ہم صحافی، سیاستداں، شاعر، منصف اور دانشور تو آج بھی اپنا قلم و دہن انسانیت کے لیے دان کرنے کو تیار ہیں مگر مرنے والے یا غائب ہونے والے بھی تو ہمارا کچھ خیال کریں۔