کالم

چیری بلاسم

Share

انقلاب اور رومان کے شاعر فیض احمدفیض ؔنے کسی کے بام پر آنے کوموسمِ بہار کی آمد کا اعلان قرار دیا ہے۔جبکہ جاپان میں چیری بلاسم کے درخت پرپھولوں کا کھلناموسمِ گل کی دلیل مانا جاتا ہے۔سفید اور گلابی رنگ کا یہ ننھاسا پھول جوپاکیزگی اور طہارت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اس ملک کا قومی پھول ہونے کا اعزازرکھتا ہے۔چیری کے درخت سارا سال بے برگ و ثمر، ٹنڈ منڈکھڑے رہتے ہیں،بہار کے موسم میں چنددن کے لئے ان پر پھول کھلتے ہیں۔ہر ضلع میں موسم کے اعتبار سے چیری کی شاخیں الگ الگ وقت پر پھول اٹھاتی ہیں۔آج کل ان پھولوں کے جوبن کی رُت ہے۔ان پھولوں کو دیکھنا ایک باقاعدہ تہوار ہے۔شاخوں کے پھول اٹھانے کے ساتھ ہی ان کے دیدار کا تیوہار شروع ہوجاتا ہے،جسے مقامی زبان میں ”ہنامی“ کہتے ہیں۔جس کا لفظی مطلب ”پھول تکنا“ہے۔اسے جاپانی سماج میں سب سے نمایاں تہوارکہاجائے تویہ مبالغہ نہیں ہوگا۔اگرچہ کیلنڈر میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔
قارئین کے ذہن میں یہ بھی سوال ابھرسکتا ہے کہ بھلاجاپان کے قومی پھول،جسے مقامی زبان میں ”ساکورا“کہتے ہیں،کاپاکستان کے ساتھ کیا تعلق بنتاہے؟دلچسپ بات یہ ہے کہ تاریخی اعتبار سے چیری کے پیڑاور اس کے پھول کی ابتداء اسلام آباد سے کچھ ہی دورکوہ ہمالیہ کے سلسلے سے منسوب کی جاتی ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ یہ شجرہندوستان کے علاوہ یورپ،سائبیریا،امریکہ،کینیڈاسمیت چین، کوریااور جاپان تک پھیل گیا۔جاپانی اپنے فنِ باغبابی کے حوالے سے پورے عالم میں مشہورہیں۔انہوں نے چیری کی ایسی اقسام ایجاد کر لیں جن میں پھل نہیں لگتامگرپھو ل زیادہ آتے ہیں۔آج کل یہ نمائشی اقسام ہی زیادہ مقبول ہیں،جن پر فقط پھول اگتے ہیں اور برگ وثمرسے بے نیازی کے باوجودپھول اٹھانے پر چیری کا پیڑجنت کا شجر محسوس ہوتاہے۔
چیری کے پھول کو جاپان کی روح کہا جاتاہے،یہ ان ثقافتی و سماجی علامات میں سے ایک ہے،جسے اس ملک کا چہرہ شمار کیا جاتا ہے،جیسے بلٹ ٹرین، سبزچائے، جدیدالیکٹرونکس، ابلے ہوئے چاولوں پرکچی مچھلی کی تہہ،جسے”سوشی“کہاجاتاہے،فیوجی کا پہاڑ،کورنش بجا لاتے ہوئے فرشی سلام،گھرکے داخلی دروازے پرجوتے اتارنے کی روایت وغیرہ۔ چیری بلاسم کے درخت عموماً دریاؤ ں، ندی، نالوں کے اطراف اور پارکوں کے علاوہ بدھ مت اورشنتو مذہب کی قدیم عبادت گاہوں سے ملحقہ باغات کا بھی ضروری حصہ سمجھے جاتے ہیں۔ایک ایسی ہی عبادت گاہ کے باغ میں شام ڈھلے میں چیری کے پھول دیکھ رہا تھاتو ایک بدھ بھکشوسے ملاقات ہو گئی۔ویسے تو اس بھکشو کامیرے ساتھ گفتگوکرنے کا بنیادی مقصداپنی انگریزی زبان کی پریکٹس کرنا محسوس ہورہاتھا،مگر میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس سے استفسار کیا کہ عبادت گاہ کے باہر جوتے اتارنا توسمجھ میں آتا ہے،لیکن اہلِ جاپان گھر میں داخل ہونے سے پہلے جوتے کیوں اتارتے ہیں؟نوجوان بدھ بھکشو کا جواب تھا کہ ایک پہلو تو صفائی کا ہے،آدمی سارا دن پتہ نہیں کہاں کہاں جوتے لے کر پھرتا ہے،ان کے ساتھ مختلف طرح کے مغلظات اور جراثیم بھی لگ جاتے ہیں،پھر انہی جوتوں کے ساتھ گھر کے اندرگھومناحفظانِ صحت کے اصولوں کے منافی بات ہے۔دوسری وجہ اس نے بڑی عجیب بتائی،جوتے گھر کے باہر اتارنے کا مقصدباہر کی سوچوں اور مسائل کو گھر سے باہررکھنا ہوتا ہے۔یہ ایک علامتی بات ہے۔ کہ اب میں ایک آشرم میں داخل ہورہا ہوں۔جنوبی امریکہ کے ملک چلی کے دارُلحکومت سنتیاگوکے مندرکا پنڈت میرا دوست سندھی برہمن روی کیولانی ہے،اس بابت ہندومذہبی نظریات کے پیش نظراس کا کہنا ہے کہ گھر کے اندر چمڑے کا پھرنا منحوس ہوتا ہے۔وجہ اس کی یہ بتاتاہے کہ کسی مردہ جانور کی جلد سے ہی عموماًجوتا تیار کیا جاتا ہے۔جوتے اتار کر گھروں اور معبدوں میں داخل ہونے کی قدیم روایت ایشیاء کے تمام مذاہب میں ملتی ہے مگربدھ بھکشوکی پیش کردہ منطق بالکل مختلف ہے۔
چیری بلا سم کے گلا بی اور سفید رنگ میں ملبو س پھو لو ں کو ان کی پا کیزگی کے سبب جا پا ن کی روح کہا جا تا ہے، مگر میرے خیا ل میں ان سے عقیدت کی وجہ شا ید خو بصو رتی سے زیادہ ان کی زندگی کا اختصا ر بھی ہے، جو کہ عمو ما ًدو،چا ر دن ہی ہو تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب پھو لو ں پر جو بن آتا ہے تو لو گ چٹا ئیاں لیکر با غو ں اور دریا ؤ ں کے کنا رے ان درختوں کے قریب بیٹھ جا تے ہیں۔ کھا نے، شرا ب اور مو سیقی سے دل بہلا تے ہیں۔ کہیں کسی فیکٹری کے اہلکا ر منڈلی جما ئے بیٹھے ہیں تو کسی جگہ طا لب علمو ں کی ٹو لی گپ شپ لڑا نے میں مشغو ل ہے۔ کسی پھو لو ں سے لدے درخت کے نیچے محلے کے بو ڑھے، بو ڑھیا ں محفل سجا ئے ہو ئے ہیں تو کہیں کسی دفتر کا سٹا ف جشن بہا راں منا رہا ہے۔ چند دنوں کے لیے تو یہ پھو ل جہا ں جہا ں کھلتے ہیں، اس شہر میں زندگی کا نظا م الاوقا ت ہی بدل کر رکھ دیتے ہیں چیری بلا سم تلے بیٹھے ہنستے مسکراتے خوشگوار چہروں کو دیکھ کر بعض اوقا ت لگتا ہے کہ چند دن کے لیے ہی سہی، چیری کے پھول مزاج بھی بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ علا مہ اقبا ل ؒنے اپنی شا عری میں نرگس کے ہزاروں سا ل تک جو بے نو ر رہنے کا تذکرہ کیا تھا، وہ سا را سا ل چیری کے درخت کی بے نو ری پر صا دق آتا ہے، البتہ دو، چا ر دن کے لیے ہی سہی، چیری بلا سم کے پیڑ کی شا خیں جب پھو ل اٹھا تی ہیں تو وا قعی چمن میں دیدہ ور پیدا کر جا تی ہیں۔