منتخب تحریریں

اوج پر ہے کمالِ بے ہنری

Share

وزیر اعظم عمران خان کی (مخلوط) حکومت کے 16 ماہ ہو چکے ہیں‘ اور اس دوران اس کی کارکردگی کا معاملہ یہ ہے کہ ریٹائرڈ عسکری دانشوروں کے لیے بھی اس کا دفاع مشکل ہو گیا ہے، بعض کے لہجے میں تو تلخی در آئی ہے۔ ‘دنیا نیوز‘ پر کامران شاہد کے ”آن دی فرنٹ‘‘ میں، گزشتہ سال کاجائزہ اور نئے سال میں امکانات اور توقعات پر بات ہورہی تھی۔ مہمان کوئٹہ والے علی احمد کرد، عسکری دانشور جنرل (ر) امجد شعیب، ہمارے رئوف کلاسرا اور ثنا بُچہ تھیں۔ ویسے تو منیر نیازی کی طرح علی احمد کرد نے بھی ”اکتائے ہوئے رہنا‘‘ کو عادت ہی بنا لیا ہے، لیکن گزشتہ شب سرگرانی اور تھی۔ ان کا کہنا تھا، کوئٹہ بدترین سردی کی لپیٹ میں ہے اور آدھے سے زیادہ شہر گیس سے محروم ہے۔ آٹے کا 20کلو کا تھیلا 80 روپے اضافے کے ساتھ 1100 روپے کا ہے۔ بیروزگاری کا امڈتا ہوا طوفان اس کے علاوہ ہے۔ ایسے میں وہ غریب عوام اور پڑھے لکھے بیروزگار نوجوانوںکا ایسا طوفان دیکھ رہے ہیں جس میں محروموں کے حقوق کی بات کرنے والے ان (کرد) جیسے لوگ بھی ”محفوظ‘‘ نہیں رہیں گے۔ جنرل (ر) امجد شعیب حکمرانوں کی نااہلی کو اس مایوس کن کارکردگی کا سبب قرار دے رہے تھے کہ ان کا کوئی پلان ہی نہ تھا۔ کسی ویژن اور پلان سے محروم حکومت سے سالِ نو میں بھی بہتری کی کوئی امید نہیں تھی۔ رئوف کلاسرا اور ثنا بُچہ بعض حساس دائروں میں بھی داخل ہوگئے تھے۔ شہبازشریف نے گزشتہ دنوں کہا تھا ”نیازی حکومت‘‘ کو اسٹیبلشمنٹ کی جو بھرپور تائید اور حمایت حاصل ہے، ہمیں اس کا دس فیصد بھی حاصل ہوتی تو ہم ملک کو کہیں کا کہیں لے جاتے۔ رئوف کلاسرا اور ثنا بُچہ کے خیال میں یہ ”مکمل سپورٹ‘‘ ہی خان کی حکومت کی ناکردگی کا اصل سبب ہے۔ ماضی میں معاملہ مختلف ہوتا تھا؛ چنانچہ سول حکومتوں کو اپنی بقا کی خاطر عوام کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کی فکر ہوتی تھی۔ صورتحال یہ ہے کہ دوست ممالک کی ”غلط فہمیاں‘‘ دور کرنے، اپنی بزنس کمیونٹی کی شکایات رفع کرنے، یہاں تک کہ میڈیا کو مینج کرنے کا کام بھی کسی اور کو کرنا ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، بچے کو انگلی کے سہارے چلنے کی عادت ہوگئی ہے۔ لیکن یہ معاملہ کب تک چلے گا؟
ایک اور ٹاک شو میں جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کا کہنا تھا، موجودہ حکومت کا مسئلہ گورننس ہی نہیں، بے ڈھنگا پن بھی ہے۔ یہ ڈھنگ کا کام بھی بے ڈھنگے طریقے سے کرتے ہیں۔ بزرگ عسکری دانشور بے ڈھنگے پن کے حوالے سے تفصیل میں نہیں گئے؛ اگرچہ اس کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی ڈیڑھ دو ہفتے میں اس کی دوتین بڑی مثالیں موجود تھیں۔ حکومت 26 دسمبر کوآرمی چیف کی مدتِ ملازمت، اس میں توسیع اور دیگر مراعات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 28 نومبر کے فیصلے (حکم) کے خلاف ریویو میں چلی گئی، حالانکہ اس فیصلے کا حکومت نے کھلے دل سے خیر مقدم کیا تھا اور اٹارنی جنرل نے عدالتِ عظمیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مقررہ مدت (6 ماہ) میں اس پر عملدرآمد (مطلوبہ قانون سازی) کی یقین دہانی کرا دی تھی۔ اب 5 ہفتے بعد ریویو پٹیشن میں آرمی چیف کی مدت کے تعین کو آئین کے منافی قرار دیتے وزارتِ قانون کا موقف تھا کہ یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے کہ جب تک چاہیں آرمی چیف کو عہدے پر رکھیں اور جب چاہیں، ہٹا دیں۔ اس ریویو پٹیشن نے بحث مباحثے کا نیا دروازہ کھول دیا تھا۔ ایئر مارشل (ر) شہزاد چودھری قدرے دھیمے لہجے میں، منطق اور استدلال کے ساتھ بات کرتے ہیں۔ ریویو پٹیشن پر ان کے لہجے میں بھی تلخی در آئی تھی۔
آرمی چیف کی مدتِ ملازمت اور دیگر تفصیلات کے حوالے سے مطلوبہ قانون سازی ایک اہم معاملہ تھا۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ یہ مرحلہ اتفاق رائے سے طے ہو جائے۔ خود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی مثبت اشارے موجود تھے‘ لیکن جناب وزیر اعظم کے رفقا کا رویہ اپوزیشن کو چِڑانے والا تھا۔ فرزند لال حویلی کا کہنا تھا: صرف چھ ماہ نہیں، جنرل باجوہ کے لیے پورے 3 سال DONE ہیں۔ (اپنا انگوٹھا دکھاتے ہوئے موصوف نے DONE کا یہ لفظ تین بار بولا)۔ فیصل وائوڈا کا کہنا تھا، ہم اپوزیشن سے تعاون کے لیے رابطہ کیوں کریں، کیا ہم نے ان سے رشتہ لینا ہے؟ وزیر اعظم کے جلسوں میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دینے والے سینیٹر فیصل جاوید پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے سرگرم ارکان کو ”گندے انڈے‘‘ قرار دے رہے تھے، جن کا کام اپنے کرپٹ لیڈروں کے حق میں شور مچانا اور جیلوں میں بند اپنے لوگوں کے پروڈکشن آرڈر کے لیے ہنگامہ اٹھانا ہوتا ہے۔ریویو پٹیشن کے حوالے سے قانون دانوں میں سنجیدہ بحث بھی ہو رہی تھی۔ ”ریویو‘‘ میں کوئی نئی دلیل، کوئی نیا وکیل نہیں ہوتا۔ اس کی سماعت بھی وہی بنچ کرتا ہے جس نے فیصلہ دیا ہوتا ہے۔ اس میں سے چیف جسٹس کھوسہ ریٹائر ہو چکے، اب ریویو میں 2 جج تو وہی ہوں گے، کھوسہ صاحب کی جگہ تیسرا کون ہو گا؟ کیا کھوسہ صاحب کے جانشین، چیف جسٹس گلزار احمد ریویو پٹیشن میں بھی ان کی جگہ تشریف فرما ہوں گے؟
سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی 6 ماہ کی مدت میں سے 5 ماہ باقی ہیں کہ حکومت نے ریویو پٹیشن کے علی الرغم، سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق قانون سازی کا فیصلہ کر لیا اور اس میں بھی وہی بے ڈھنگا پن تھا۔ منگل 31 دسمبر کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں یہ نکتہ نہیں تھا۔ اگلے روز اس کے لیے کابینہ کا ”ہنگامی اجلاس‘‘ بلایا گیا۔ اسی بے ڈھنگے پن کا مظاہرہ نیب آرڈیننس کے حوالے سے بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ منگل24 نومبر کو بھی کابینہ کا اجلاس تھا۔ خود ندیم افضل چن (وزیر اعظم صاحب کے ترجمان) کے مطابق: اجلاس میں اس آرڈیننس پر کوئی بات نہ ہوئی۔ یہ ”آفٹرتھاٹ‘‘ تھا؛ چنانچہ اس کے لیے کابینہ کی منظوری ”سرکولیشن‘‘ (وزراء کے گھروں پر دستخط) کے ذریعے کی گئی جس کے بعد جناب صدر کی منظوری کے ساتھ یہ نافذالعمل ہوگیا۔ آرڈیننس کی خوبیوں، خامیوں پر بحث الگ، اصل مسئلہ اس پراسیس کا تھا‘ جو اختیار کیا گیا۔ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری کے لیے 120 دن تھے (اس میں 120 دن کی توسیع بھی ہوسکتی تھی) کہ اسے اپوزیشن کی مشاورت (اور اس کی تجاویز) کے ساتھ پارلیمنٹ کے اس اجلاس سے منظور کرانے کا فیصلہ ہوا، جسے طلب کرنے میں بھی وہی بے ڈھنگا پن کارفرما تھا۔ بدھ کی سہ پہر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس کی اطلاع، ارکان پارلیمنٹ کو منگل کی شام 5 بجے دی گئی (اس کے لیے کم از کم 48 گھنٹے تو ہوتے) اس عجلت میں موسم کی ناسازگاری کا خیال بھی نہ کیا گیا۔
پارلیمنٹ کے اسی اجلاس میں جمعہ (3 جنوری کو) آرمی ایکٹ میں ترمیم بل کا مسودہ پیش کیا جا رہا ہے (یہ گمان بے وزن نہیں کہ ہنگامی طور پر اس اجلاس کے انعقاد کا بنیادی مقصد، یہی بل تھا) بل کی تفصیل میڈیا میں آچکی۔ جمعرات کی سہ پہر جس وقت یہ سطور قلم بند کی جارہی تھیں، مسلم لیگ(ن) کی طرف سے بل کی حمایت کے فیصلے کی خبر آگئی۔ یہ فیصلہ نون لیگ کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں، لندن سے قیادت کی ہدایات کی روشنی میں کیا گیا۔ مسلم لیگ کے موقف کے مطابق، اس فیصلے کا مقصد فوج اور اس کی قیادت سے متعلق مطلوبہ قانون کو غیر متنازعہ بنانا ہے۔ نومبر کے اواخر میں، جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث تھا، مسلم لیگ(ن) نے اس پر کسی پالیسی بیان سے گریز کیا تھا؛ البتہ میاں نوازشریف نے زرداری دور میں جنرل کیانی کی ایکسٹینشن کی ”اصولی مخالفت‘‘ کی تھی۔ ان کا یہی موقف، ان کے اپنے (تیسرے) دور میں جنرل راحیل شریف کی ”توسیع‘‘ کے حوالے سے بھی تھا۔ تازہ بل پر پیپلز پارٹی کا موقف تادم تحریر سامنے نہیں آیا۔ خیال ہے کہ وہ بھی اسے متنازعہ بنانے سے گریز کرے گی؛ البتہ مولانا صاحب نے گزشتہ دنوں اس موقف کا برملا اظہار کیا تھا کہ اس اہم قومی معاملے کو نئی منتخب اسمبلی پر چھوڑ دیا جائے۔ وہ یہ حق موجودہ ”سلیکٹڈ‘‘ اسمبلی کو دینے پر تیار نہیں تھے۔ بے ڈھنگے پن پر ایک شعر یاد آیا ؎
اوج پر ہے کمالِ بے ہنری

باکمالوں میں گِھر گیا ہوں میں