پاکستان

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس: ’عدالت سرینا عیسیٰ کے بیان سے مطمئن مگر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے کرنا ہے‘

Share

پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران وفاق کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ اپنی جائیداد سے متعلق بیان عدالت کے سامنے ریکارڈ کروا دیا ہے۔

سرینا عیسیٰ کا بیان سننے کے بعد سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کے سربراہ نے کہا ہے کہ عدالت اس حوالے سے ان کے بیان اور جائیداد کی خریداری کے ذرائع سے بھی مطمئن ہے تاہم اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے ہی کرنا ہے۔

بینچ نے جمعرات کو درخواست گزار یعنی جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو عدالت کے سامنے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروانے کی اجازت دی تھی۔

سماعت کے آغاز پر بینچ کے سربراہ نے جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ درخواست گزار جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ عدالت کے لیے قابل احترام ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اپنا بیان مختصر رکھیں اور اپنے الفاظ کا چناؤ اچھا کریں جس سے کسی کی تضیحک کا پہلو نہ نکلے اور وہ عدالتی ڈیکورم کا خیال رکھیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ان درخواستوں میں فریق نہیں ہیں اور بینچ کے ارکان بیان ریکارڈ ہونے کے بعد اس کا جائزہ لیں گے۔

سرینا عیسیٰ نے بیان ریکارڈ کروانے کا موقع دینے پر عدالت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ عدالت کی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گی۔

سکائپ پر اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے انھوں نے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ اُنھوں نے جج کے دفتر کا غلط استعمال کیا تو وہ عدالت کو بتانا چاہتی ہیں کہ جب ان کے شوہر وکیل تھے تو انھیں پانچ برس کا پاکستانی ویزا دیا گیا اور جنوری سنہ 2020 میں اُنھیں صرف ایک سال کا ویزا جاری کیا گیا ہے۔

سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ کراچی میں امریکن سکول میں ملازمت کرتی رہی ہیں اور ان کے وکیل ان کے ٹیکس گوشوارے جمع کرواتے رہے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ وہ کراچی کی رہائشی ہیں لیکن ان کا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا اور اس ضمن میں جب ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا گیا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے سے متعلق ایف بی آر کو دو خط بھی لکھے گئے۔

جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ ہسپانوی شہریت رکھتی ہیں اور خود ان کے پاس بھی ہسپانوی پاسپورٹ ہے.

سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے بارے میں ایسا کیس بنایا گیا جیسے وہ کسی جرم کی ماسٹر مائنڈ ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اُنھوں نے پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی اور اس خریداری کے ان کے پاسپورٹ کو بطور دستاویز قبول کیا گیا تھا۔

اُنھوں نے کہا کہ انھوں نے کراچی میں کلفٹن بلاک چار میں بھی جائیداد خریدی جو کچھ عرصے کے بعد فروخت کر دی گئی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ان کی زرعی اراضی ان کے نام پر ہے اور اس اراضی سے ان کے خاوند کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ یہ زرعی زمین انھیں اپنے والد کی طرف سے ملی ہے اور یہ ضلع جیکب آباد میں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ ڈیرہ مراد جمالی بلوچستان میں بھی زرعی زمین ہے اور زرعی اراضی کی دیکھ بھال ان کے والد کیا کرتے تھے۔ سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے وکیل نے اُنھیں بتایا تھا کہ زرعی اراضی ٹیکس کے نفاذ کے قابل نہیں ہے۔

سپریم کورٹ
بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ان کے پاس دو فورم ہیں ایک یہ کہ یہ معاملہ ایف بی آر میں بھیجا جائے اور دوسرا سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے

سرینا عیسیٰ کے مطابق انھوں نے اپنے وکیل کے مشورے سے فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوایا تھا۔ بیان کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے فارن کرنسی اکاؤنٹ کا ریکارڈ بھی دکھایا اور کہا کہ انھیں یہ ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اُنھوں نے کہا کہ سنہ 2003 سے سنہ 2013 تک اس اکاؤنٹ سے رقم لندن بھجوائی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ جس اکاؤنٹ سے پیسہ باہر گیا وہ ان کے نام پر ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ایک نجی بینک سٹینڈرڈ چارٹرڈ کے فارن کرنسی اکاؤنٹس میں سات لاکھ برطانوی پاؤنڈ کی رقم ٹرانسفر کی گئی اور جس اکاؤنٹ میں رقم ٹرانسفر کی گئی وہ بھی ان کے نام پر ہے۔

اُنھوں نے سنہ 2016 لے کر اب تک برطانیہ میں ٹیکس گوشواروں کا ریکارڈ بھی دکھایا۔ سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے زیادہ ٹیکس دینے پر ٹیکس ریفنڈ کیا جبکہ اس کے برعکس جب وہ پاکستان میں ایف بی آر سے ریکارڈ لینے گئی تو اُنھیں کئی گھنٹے انتظار کرایا گیا اور محض ریکارڈ لینے کے لیے ایک شخص سے دوسرے شخص کے پاس بھیجا جاتا رہا۔

درخواست گزار کی اہلیہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ سنہ 2018 کے مالیاتی گوشواروں میں لندن کی جائیداد کے بارے میں بتا چکی ہیں جس پر عدالت نے ان سے سنہ 2018 میں مالیاتی گوشواروں کا ریکارڈ بند لفافے میں طلب کر لیا۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ ان کے پاس دو فورم ہیں ایک یہ کہ یہ معاملہ ایف بی آر میں بھیجا جائے اور دوسرا سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے۔ اُنھوں نے درخواست گزار کی اہلیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس سوالوں کے مضبوط جواب ہیں۔

اس پر سرینا عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ ایک جج کی شریکِ حیات ہیں اور انھوں نے جو جواب دیا وہ قانون کا تقاضا ہے۔ بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عدالت اس حوالے سے ان کے بیان اور جائیداد کی خریداری کے ذرائع کے حوالے سے بھی مطمئن ہیں تاہم اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے ہی کرنا ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران درخواست گزار یعنی جسٹس قاضی فائز عیسی نے عدالت کی طرف سے ان کی اہلیہ کی لندن میں جائیداد کے معاملات فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھیجنے کی تجویز کی مخالفت کی تھی اور اُنھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کی اہلیہ ایف بی آر جانے کے بجائے رکنی بینچ کے سامنے اس معاملے کو رکھنا چاہتی ہیں اور اپنا بیان ریکارڈ کروانا چاہتی ہیں۔

وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے وزیر اعظم اور صدر مملکت سے مشاورت کے بعد اس معاملے کو ایف بی آر میں بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

فروغ نسیم کے دلائل

وفاق کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسی کیس میں جمعرات کو سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی جج کے خلاف آنے والی درخواست یا ریفرنس پر فوجداری اور دیوانی حقوق کا فیصلہ نہیں کرتی بلکہ جوڈیشل کونسل فیکٹ فائینڈنگ فورم ہے جو اپنی سفارشات مرتب کرتی ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ریفرنس سے متعلق بدنیتی ثابت ہونے ہر اس بارے میں فائینڈنگ دینے پر کونسل کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے کیونکہ کونسل کے سامنے تمام فریق ایک جیسے ہوتے ہیں۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ پر ’چیک‘ موجود ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔

بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا عدالت اور کونسل کے بدنیتی کے تعین کے نتائج ایک جیسے ہوں گے جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کونسل بدنیتی پر آبزرویشن دے سکتی ہے جبکہ عدالت کو بدنیتی پر فائنڈنگ دینے کا اختیار ہے۔

جسٹس مقبول باقر نے وفاق کے وکیل سے سوال کیا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل صدر مملکت کے کنڈکٹ کا جائزہ لے سکتی ہے جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ کونسل کسی کے کنڈکٹ کا بھی جائزہ لے سکتی ہے کیونکہ کونسل کے پاس یہ اختیار ہے۔

بینچ میں شامل ایک اور جج جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا عدالت عظمیٰ کے بدنیتی کے معاملے کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ ہے۔ وفاق کے وکیل نے اس کے جواب میں کہا کہ عدالت عظمیٰ کے راستے میں بدنیتی کا جائزہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

سپریم کورٹ

اُنھوں نے کہا کہ صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری کیے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس میں تین نکات شامل کیے گئے۔ اُنھوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے ریفرنس کا جائزہ لے کر الزام کے تین نکات نکالے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ عدلیہ کو شوکاز نوٹس کے مواد کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ اُنھوں نے اپنے دلائل کے دوران آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق مقدمے کا حوالہ کیوں دیا جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آرمی چیف کا مقدمہ درخواست واپس لینے کی استدعا کے باوجود بھی چلایا گیا۔

اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کا حکم پاس نہیں کیا لیکن آرمی چیف کا مقدمہ چلایا گیا۔

بینچ کے سربراہ نے سوال کیا کہ کیا ریفرنس کالعدم ہو جائے تو پھر بھی اظہارِ وجوہ کا نوٹس اپنی جگہ زندہ رہے گا تو وفاق کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کی بصیرت کے مطابق یہی دلیل ہے کہ ریفرنس کے بعد بھی ایسا نوٹس ختم نہیں ہوتا۔

اُنھوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اس نوٹس کا تحریری جواب دے کر جوڈیشل کونسل کے سامنے سرنڈر کیا۔

عدالت کے سوال پر وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کسی بھی صدارتی ریفرنس پر صدر مملکت کی رائے کا جائزہ لے سکتی ہے تاہم صدر مملکت کی رائے کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہوتی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اعتراض یہ ہے کہ ریفرنس میں قانونی نقائص اور بدنیتی ہے۔ اس پر وفاق کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ قانون کہتا ہے کہ کم معیار کے ساتھ بھی کام چلایا جا سکتا ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج کے ساتھ کم معیار کے ساتھ کام چلایا جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ جج کو ہٹانے کی کارروائی میں شواہد کا معیار دیوانی مقدمات جیسا نہیں ہونا چاہیے بلکہ جج کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی کے لیے ٹھوس شواہد ہونے چاہییں۔

بینچ کے سربراہ نے وفاق کے وکیل کو تنبیہ کی کہ وہ ایسی مثال دیتے ہوے احتیاط کریں کیونکہ عدالت یہاں آئینی معاملے کا جائزہ لے رہی ہے۔

وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ جج کے خلاف کارروائی کے لیے شواہد کا معیار کیا ہو یہ کونسل پر چھوڑ دینا چاہیے۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ریفرنس میں محض دستاویزات لف نہیں ہونی چاہییں بلکہ ریفرنس کے ساتھ الزام ثابت کرنے کے ٹھوس شواہد بھی ہوں۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ شواہد اگر تسلیم شدہ ہوں تو حقائق کا ایشو نہیں ہوتا۔

اُنھوں نے کہا کہ کسی مقدمے میں شواہد تسلیم نہ کیے جائیں تو بات اور ہے۔

’آپ کہہ رہے ہیں میری جاسوسی ہو سکتی ہے‘

فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کسی دباؤ کے تحت کوئی مواد لیا جائے تو عدالت قبول نہیں کرتی۔ بینچ میں موجود جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکیل سے استفسار کیا کہ اس مقدمے کا مواد، دستاویزات کیسے اکھٹی ہوئیں جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ تشدد کے بغیر حاصل مواد قابل قبول دستاویز ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ برطانیہ میں جاسوسی اور چھپ کر تصویر بنانے کو قابل قبول شواہد قرار دیا گیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کہہ رہے ہیں میری جاسوسی ہو سکتی ہے، میں گالف کلب جاتا ہوں میری تصاویر لی جاتی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ تو ایسے ہی ہو گا جمہوریت سے فاشزم کی طرف بڑھا جائے‘۔

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ وہ فاشزم کی بات نہیں کر رہے بلکہ یہاں بات شواہد جمع کرنے کی ہو رہی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس سے کوئی غرض نہیں کہ پبلک ڈومین میں جائیدادیں پڑی ہیں یا نہیں۔

انھوں نے سوال اٹھایا کہ ان جائیدادوں کو ڈھونڈنے کے اختیارات کہاں سے لیے گئے۔ اُنھوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کس طرح سے پتا چلا کہ لندن میں جائیدادیں ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ ’آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں، یہ آؤ جائیدادیں ڈھونڈیں کا اختیار کہاں سے حاصل کیا گیا جبکہ پاکستان میں ایف بی آر، نادرا، ایف آئی اے جیسے دیگر ادارے موجود ہیں‘۔

فروغ

اُنھوں نے کہا کہ آئین آزادانہ نقل و حرکت، وقار، ذاتی عزت و تکریم کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

فروغ نسیم نے جواب دیا کہ صحافی کی طرف سے معلومات آ گئیں تو اس کی حقیقت کا پتا چلایا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ صحافی نے کوئی آرٹیکل نہیں لکھا جس کا وہ ذریعہ چھپائے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا ان کی تشویش یہ ہے کہ شواہد کی تلاش کیسے کی گئی۔ اُنھوں نے کہا کہ ’یہ کوئی نہیں کہتا کہ جج جوابدہ نہیں ہے۔ جج چاہتا ہے کہ میری پرائیویسی بھی ہو اور میری عزت کا خیال بھی رکھا جائے‘۔

بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ضیا المصطفی نامی شخص کے پاس اختیار نہیں تھا کہ وہ جج کی جائیداد تلاش کرنے کے لیے نجی جاسوس کی خدمات حاصل کرے۔ اُنھوں نے کہا کہ شکایت کنندہ کی درخواست میں صرف ایک جائیداد کا ذکر تھا۔

’تمام کارروائی کے بعد ڈوگر کو لا کر کھڑا کر دیا گیا‘

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت کی منظوری کے بغیر کسی جج کے خلاف مواد اکٹھا نہیں ہو سکتا۔

وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ برطانیہ نے تمام جائیدادوں کی تفصیل ڈال دی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جج نے بھی تسلیم کیا کہ برطانیہ کی جائیداد ویب سائٹ پر موجود ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ برطانیہ کی جائیداد کی درست معلومات کے لیے لینڈ رجسٹری کی ویب سائٹ استعمال کی جاتی ہے اور ویب سائٹ سے معلومات لینے سے سکریسی کے حق کا اطلاق نہیں ہوتا۔

بینچ میں موجود جسٹس سجاد علی شاہ نے وفاق کے وکیل سے سوال کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کا درست نام ہمیں معلوم نہیں حکومت کو اہلیہ کے درست نام کا کیسے پتہ چلا۔

اُنھوں نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت کے پاس اختیار کدھر سے آیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت نے شکایت کنندہ وحید ڈوگر سے پوچھا کہ وہ معلومات کہاں سے لے کر آئے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اٹھایا کہ وحید ڈوگر کو کیسے پتا چلا یہ جائیدادیں گوشواروں میں ظاہر نہیں کی گئیں۔

فروغ نسیم ان سوالوں کے جواب نہ دے سکے اور محض اس جواب پر ہی اکتفا کیا کہ اُنھیں نہیں معلوم کہ وحید ڈوگر کو یہ معلومات کہاں سے ملیں۔ اُنھوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 184 تین کے تحت کسی بھی مقدمے میں عدالت معلومات کا ذریعہ نہیں پوچھتی۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ جج کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ عوام کی نظروں میں ہے۔ اُنھوں نے وفاق کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی ناک کے نیچے ضلعی عدلیہ میں کیا ہوتا ہے آپ کو علم نہیں۔

اُنھوں نے اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس شریف آدمی کا ماضی اچھا نہیں تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس کے خلاف حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی اور پھر عدالت عظمیٰ کو ہی اس پر کاروائی کرنا پڑی۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ احتساب کے نام پر اس ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں بھی لکھیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ ’تمام کارروائی کے بعد ڈوگر کو لا کر کھڑا کر دیا گیا‘۔

جسٹس مقبول باقر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنی تفصیلات اتنی آسانی سے نہیں لے سکتے جبکہ ایک جج کی تفصیلات وحید ڈوگر کے پاس کیسے آئیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ ’ایشو یہ ہے کب حکومت نے جج کی اہلیہ سے گوشوارے مانگے؟ اس پر وفاق کے وکیل نے کہا کہ اُنھوں نے کسی سے گوشوارے نہیں منگوائے بلکہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ نے یہ معاملہ ایف بی آر کو بھیجا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال اٹھایا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو وفاقی حکومت کا درجہ کیسے مل گیا۔ اُنھوں نے کہا کہ کس حیثیت میں اے آر یو نے ایف بی آر سے ٹیکس سے متعلق سوال کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اے آر یو کسی شہری کو قانون کے بغیر کیسے چھو سکتا ہے۔

’ہم سچ سننا پسند نہیں کرتے‘

وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ جائیداد کی معلومات اوپن سورس سے آئی ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ خود برطانیہ کہتا ہے جائیداد کی معلومات اوپن ہے تو پھر ہم سکریسی کا دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ جو معلومات عوام کی دسترس میں ہو وہ خفیہ نہیں ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ جج کی اہلیہ کی طرف سے کسی قسم کی منی ٹریل نہیں دی گئی۔

وفاق کے وکیل نے دلائل دیتے ہویے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنا فیصلے کیوجہ سے کچھ حلقے خوش نہیں ہیں۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی اپیل میں جسٹس قاضی فائز عیسی کو ہٹانے کی بات کی گئی۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ ’کیا فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے سے آسمان گر پڑا اور اگر نظرِ ثانی کی اپیل اگر مسترد ہو جائے گی تو کون سا آسمان گر پڑے گا`۔

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ ’ہماری نفسیات یہ بن چکی ہے ہم سچ سننا پسند نہیں کرتے‘۔ اُنھوں نے کہا کہ اپنا کام بھی آزادی سے کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ ریفرنس کو بدنیتی پر مبنی قرار دینا درست نہیں۔

’قانون سے باہر کام ہوگا تو حکومت کی بدنیتی نظر آئے گی‘

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بدنیتی میں پس پردہ مقصد ہونا چاہیے اور پس پردہ ایسا مقصد جو قانون سے باہر ہو اُنھوں نے کہا کہ حکومت کی بدنیتی نظر آئے گی جب قانون سے باہر کام ہو گا۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے کچھ الماری میں پڑا تھا جس کے استعمال کرنے کا انتظار تھا۔ وفاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ وحید ڈوگر کی شکایت میں تین ججز کے خلاف الزام تھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ دلیل درست نہیں کہ ریفرنس کی منظوری کابینہ سے لینا ضروری تھی کیونکہ آرٹیکل 209 میں وفاقی حکومت کا ذکر نہیں ہے۔

بینچ کے سربراہ نے کہا کہ دلیل دی گئی یہ معاملہ کابینہ میں جانا چاہیے تھا جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جج کی تقرری کا جائزہ کابینہ نہیں لیتی بلکہ اس کا طریقہ کار ہی مختلف ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس ریفرنس کی تیاری میں سیکرٹری قانون سے لے کر اوپر تک سب نے اپنا مائنڈ اپلائی کیا۔

سماعت کے دوران درخواست گزار جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل روسٹرم پر آئے اور انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اُنھوں نے عدالت کا حکم اپنے موکل تک پہنچا دیا تھا اور ان کے موکل کی اہلیہ الزامات کے حوالے سے جواب دیں گی۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کے موکل کی اہلیہ کا جواب زیادہ طویل نہیں ہو گا۔ بینچ کے سربراہ نے استفسار کیا کہ کیا ان کے موکل کی اہلیہ صرف جائیداد کے حوالے سے جواب دیں گی جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا جواب دیں گی۔

’قانون کے نقص پر کسی عمل کو جرم نہیں کہہ سکتے‘

وفاق کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ قانون کے مطابق ہنڈی حوالہ سے پیسہ باہر جانا جرم ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ سٹیٹ بنک کے سرکلر کے ذریعے ہنڈی یا حوالہ کے ذریعے پیسہ باہر جانے کو منی لانڈرنگ قرار دیا گیا۔

بینچ میں موجود جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ منی لانڈرنگ کا جرم تسلسل جرم کب ہوا۔ اُنھوں نے کہا کہ برطانیہ اور پاکستان کی ’منی لانڈرنگ رجیم‘ میں بہت فرق ہے۔

بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ منی لانڈرنگ 2010 میں جرم تھا ہی نہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے قانون اجازت دیتے ہیں کہ کرنسی کو تبدیل کروائیں، فارن اکاؤنٹس کے ذریعے باہر بھجوائیں۔

فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں جن میں منی لانڈرنگ کو 1998 سے جرم کہا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں ہنڈی حوالہ قوانین کی صحیح وضاحت نہیں کرپائے جس پر بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ قانون کے نقص پر کسی عمل کو جرم تو نہیں کہہ سکتے۔

جمعرات کو ہونے والی آٹھ گھنٹے طویل سماعت کے دوران وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔خیال رہے کہ صدر، وزیر اعظم اور دیگر فریقین کے وکلا نے فروغ نسیم کے دلائل کو ہی اپنا موقف قرار دیا ہے۔

دلائل کی تکمیل پر عدالت نے ان سے دریافت کیا کہ وہ تحریری گذارشات کب دیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ اس میں چار سے پانچ دن کا وقت لگے گا۔

فروغ نسیم کے دلائل اور جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے بیان کی تکمیل کے بعد سماعت 19 جون تک کے لی ملتوی کر دی گئی ہے۔