منتخب تحریریں

مانسہرہ کا طالب علم

Share

آنکھوں سے لہو ٹپکنا، میرے اور آپ کے لیے ایک محاورہ ہے مگر مانسہرہ کے دس سالہ طالب علم کے لیے ایک واقعہ ہے۔ یہ واقعہ نہیں، حادثہ ہے جو ایک معصوم جان پر، نہیں معلوم کتنی دفعہ بیت گیا۔ وہ بار بار جس اذیت سے گزرا، وہ لہو بن کر اس کی آنکھوں سے رواں ہو گئی۔ اس بچے کی تصویر ان گنت لوگوں نے دیکھی ہو گی۔ معاشرہ زندہ ہوتا تو سراپا احتجاج بن جاتا۔ لہو نہ سہی، اس کی آنکھوں سے آنسو ضرور ٹپکتا۔ مگر افسوس کہ یہ سانحہ گروہی تصادم کے بھینٹ چڑھ کر، اہلِ مدرسہ اور لبرل طبقات میں مناظرے کا موضوع بن گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ہر بار ایسا کیوں ہوتا ہے؟
یہ حادثہ دینی مدرسے کے ایک طالب علم کے ساتھ پیش آیا۔ اپنے ہی استاد کے ہاتھوں اس کی روح اور جسم دونوں کو نوچا گیا۔ خبر آئی اور مجرم کو برا بھلا کہا گیا تو بعض اہلِ مذہب نے اسے مدرسے پر حملہ قرار دیا۔ لبرل طبقے کو الزام دیا کہ ایک منفرد واقعے کو عمومی حادثہ بنا کر پیش کرنا اس کا پرانا وتیرہ ہے۔ اس طرح کا واقعہ جب جدید تعلیم کے کسی ادارے میں پیش آتا ہے تو اسے عمومی رنگ دے کر جدید تعلیم کو مطعون نہیں کیا جاتا۔
یہ الزام کچھ ایسا بے بنیاد بھی نہیں۔ گروہوں میں منقسم معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ کسی نظامِ اقدار پر متفق نہیں ہوتا۔ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں تشکیک میں مبتلا رہتے ہیں۔ اعتماد کا فقدان ہوتا ہے۔ مانسہرہ کا واقعہ بھی اسی کا اظہار ہے۔ ایسا واقعہ جس پر سب کو تڑپ اٹھنا چاہیے تھا، کوئی اثر چھوڑے بغیر گزر گیا۔ سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیا ہم مل کر کسی نظامِ اقدار پر اتفاق نہیںکر سکتے؟
نظامِ اقدار کا فرق تو یقیناً ہے۔ اس فرق کے باوجود، بہت سی اقدار ایسی ہیں جن پر سب کا اتفاق ہے۔ مثال کے طور پر بچوں کا جنسی استحصال۔ یہ مذہبی لوگوں کے ہاں ناقابلِ قبول ہے اور لبرل طبقے کے ہاں بھی۔ ضروری ہے کہ اسے کسی ایک طبقے کا مسئلہ بنائے بغیر، ایسے ہی واقعے پر ایک ساتھ احتجاج ہو۔ اہلِ مدرسہ میں یقیناً کوئی ایسا بے حس نہیں ہو گا جو اس کا دفاع کرے۔
کسی ایک طبقے کے نام اس جرم کا انتساب بھی درست نہیں، جب بچوں کا جنسی استحصال ایک معاشرتی مسئلہ ہو۔ گزشتہ دنوں میں بہت سے ایسے واقعات سامنے آئے جن میں کئی لوگ اس مجرمانہ سرگرمی میں ملوث پائے گئے۔ ایسے بھی ہے جنہوں نے اسے کاروبار بنا رکھا ہے۔ ان میں سے کسی کا تعلق مدرسے سے نہیں ہے۔ قصور کے واقعے کا ذمہ دار بھی کسی مدرسے کا فارغ التحصیل نہیں تھا۔
سوال اٹھ سکتا ہے کہ پھر ایسے واقعات کے لیے زیادہ تر مدارس ہی کیوں مطعون ہوتے ہیں؟ میرا احساس ہے کہ اس سوال کی بنیاد بھی ایک مفروضے پر ہے۔ ہمارے سامنے کوئی ایسا سائنسی تجزیہ موجود نہیں جو اس کی تائید کرتا ہو کہ ایسے واقعات مدارس میں زیادہ ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے اس کا تعلق ہاسٹل کے تصور پر مبنی نظامِ تعلیم سے ہے۔ یہ واقعات ان اداروں میں زیادہ ہوتے ہیں جہاں ہمہ وقتی طالب علم ہوتے ہیں۔ یہ ادارے دینی ہو سکتے ہیں اور غیر دینی بھی۔ یہ زیادہ تر وہ ادارے ہیں جہاں کم عمر بچے داخل کیے جاتے ہیں۔
کئی سال پہلے لاہور کے ایک انگریزی ہفت روزے میں، برطانیہ کے ایک ہم جنس پرست گروہ کے بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ یہ پاکستانیوں کا گروہ تھا۔ اس کا بانی لاہور کے ایک جدید ترین تعلیمی ادارے کا فارغ التحصیل تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ پہلی بار اپنے کالج کے ہاسٹل میں، ان تجربات سے گزرا جب وہ آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اس لیے میرا کہنا یہ ہے کہ اس باب میں مدرسے کو کوئی امتیاز حاصل نہیں۔
مدرسے میں ہونے والا واقعہ اگر زیادہ نمایاں ہوتا ہے تو اس کی وجہ ہے۔ مذہب معاشرے میں اخلاق کا استعارہ ہے۔ ایک سیکولر آدمی کی نفسیات بھی یہی کہتی ہے۔ جب مذہبی لوگ کسی اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہوتے ہیں تو اس پر زیادہ واویلا ہوتا ہے اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مذہبی لوگوں کو اس کا برا نہیں منانا چاہیے۔ یہ دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ مسیحی معاشرے میں اگر کوئی پادری یا کلیسا کا نمائندہ کسی ایسے شنیع فعل کا ارتکاب کرے تو سماجی سطح پر اسے سخت باز پرس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے کوئی مذہبی آدمی یہ استدلال پیش نہیں کر سکتا کہ دوسرے بھی تو ایسا کرتے ہیں۔
ہمارے اہلِ مدرسہ کو اس طرح کے اخلاقی معاملات میں جتنا حساس ہونا چاہیے، بد قسمتی سے اس کا مظاہرہ نہیں ہوتا۔ مانسہرہ میں ہونے والے اس واقعے کا سب سے پہلے مدرسے کے ذمہ داران کو نوٹس لینا چاہیے تھا۔ اس کا تعلق مدرسوں کے جس وفاق سے تھا، اسے فوراً متحرک ہونا چاہیے تھا۔ فوری طور پر مدرسے کی رکنیت معطل کر کے، مہتمم اور استاد کے خلاف تفتیش کرنی چاہیے تھی۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی وفاق نے اس نوعیت کا کوئی قدم اٹھایا ہے۔
گروہوں میں منقسم معاشروں میں یہ بھی ہوتا ہے کہ لوگ کسی خارجی دباؤ کے خلاف فوراً دفاعی مورچہ سنبھال لیتے ہیں اور خود احتسابی کو ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ خارج سے اٹھنے والے شور کو اپنی بقا کے لیے خطرہ قراردیتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ ان کی بقا کا انحصار ان کی اخلاقی ساکھ پر ہے۔ اہلِ مدرسہ کوجتنی فکر دوسروں کے دین و ایمان کی رہتی ہے، اتنی فکر اگر اپنی ساکھ کی ہو تو کوئی خارج سے انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
یہ معاملہ کچھ اہلِ مدرسہ کے ساتھ خاص نہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو دوسروں کے اصلاح کی زیادہ فکر رہتی ہے۔ کالم نگار قلم اٹھاتا ہے تو سارے جہاں کی برائیاں تلاش کرکے لے آتا ہے۔ اگر کہیں اس کی نظر نہیں پڑتی تو خود اس کا اپنا وجود ہے۔ ٹی وی پہ بیٹھا ہوا تجزیہ کار زبان کھولتا ہے تو خود کو نظر انداز کرتا ہے۔ اس کا منصب اگرچہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ سیاست و معیشت کا دیانت دارانہ تجزیہ لوگوں کے سامنے رکھے لیکن یہی منصب متقاضی ہے کہ وہ اپنا احتساب بھی کرتا رہے۔
اس وقت مانسہرہ کا جو واقعہ سامنے ہے، اس کا تعلق ایک مدرسے سے ہے، اس لیے لازم ہے کہ اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے خود اہلِ مدرسہ قائدانہ کردار ادا کریں۔ اس کے ساتھ معاشرہ اور حکومت بھی اپنی اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ حکومت بار بار مدرسوں میں اصلاحات کا ذکر کرتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اساتذہ کی تربیت کو اس ضمن میں ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ اساتذہ کو جہاں تدریس کے شعبے میں فنی تربیت کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں ان کے لیے اخلاقی تربیت بھی اشد ضروری ہے۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ دینی اخلاق تو دور کی بات، ان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بنیادی سماجی اخلاقیات سے بھی واقف نہیں بلکہ ان کی فطرت ہی مسخ ہو چکی۔
حکومت کو اس رجحان کو بھی دیکھنا ہے کہ کیوں والدین اپنے چھ سات سال کے بچوں کو محض دو وقت کی روٹی کی ضمانت پر ایسے ظالموں کے سپرد کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں؟ کیا اس ظلم کی بنیاد مفلسی نہیں؟ جو لوگ ان مدارس کو وسائل فراہم کرتے ہیں، انہیں بھی سوچنا ہو گا کہ کیا ان مدارس پر کوئی سماجی دباؤ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ان بچوں کو قوم کی امانت سمجھ کر ان کا تحفظ کریں؟
جس نے بھی اس بچے کی تصویر دیکھی ہے، وہ ان سوالات کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس کی شخصیت تو برباد ہو گئی۔ اب وہ کبھی ایک نارمل انسان کی زندگی نہیں گزار سکے گا۔ اس کی آنکھوں سے ٹپکنے والے لہو تو ہم نے دیکھ لیا لیکن اس کی روح پر لگے زخم کبھی مندمل نہیں ہوں گے۔ ان سے لہو ٹپکتا رہے گا، جب تک وہ زندہ رہے گا۔ اس سے بڑھ کر بے حسی نہیں ہو سکتی کہ اس حادثے کو طبقاتی مفادات کی بھینٹ چڑھا کر، دو طبقات کے مابین مناظرے کا موضوع بنا دیا جائے۔ جو معاشرہ اپنے بچوں کی حفاظت نہیں کر سکتا اور انہیں گروہی تقسیم کی نذر کر دیتا ہے، وہ دراصل اپنے ہاتھوں سے اپنے موت کے پروانے پر دستخط کر دیتا ہے۔