منتخب تحریریں

وزیراعلیٰ کے ساتھ ایک دن

Share

وزیراعلیٰ پنجاب انتہائی منصف مزاج ہیں اگر انہوں نے کامران خان جیسے بڑے نام کے ساتھ انٹرویو کا وقت طے کرکے اپنا خیال بدل لیا تھا تو بالکل یہی کام میرے جیسے چھوٹے صحافی کے ساتھ بھی ہو چکا ہے، اسی لئے تو مجھے یقین ہے کہ وہ پرانے بادشاہوں کی طرح انصاف پسند ہیں، جو سلوک کامران خان کے ساتھ ہوا وہی میرے ساتھ بھی ہوا تھا۔

ابھی یہ نئے نئے وزیراعلیٰ بنے تھے، دو ملاقاتیں بھی ہوئیں، سوالات بھی بھیجے گئے، بتایا گیا کہ تیاری ہو رہی ہے مگر پھر لمبی چپ اور اب اس معاملے کو دو سال گزر گئے ہیں اس لئے اب میں نے فرضی طور پر تخیل کے اندر ہی وزیراعلیٰ کے ساتھ ایک دن گزارنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اگر حقیقتاً موقع نہیں بھی ملتا تو قارئین کو کم از کم تمثیلی انداز میں ہی پوری تصویر پیش کی جائے۔ آئیے اب وزیراعلیٰ کے ساتھ ایک دن گزارتے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب سے ملنے انکی سرکاری رہائش گاہ 7کلب روڈ لاہور پہنچے، ان کے پی ایس او پردیسی نے استقبال کیا۔ وزیراعلیٰ کمرے سے باہر آکر ملے، میں نے انہیں جھک کر احترام سے ہاتھ ملایا (ہر ایک سے جھک کر ملنے کا درس میرے ابا جان مرحوم کا ہے)

میزبان۔ آپ کا اخلاق اتنا اچھا ہے پھر آپ صحافیوں کو انٹرویو کیوں نہیں دیتے، صحافی دراصل وہ پوچھنا چاہتے ہیں جو عوام کے ذہنوں میں ہوتا ہے؟

وزیراعلیٰ۔ میں منتخب وزیراعلیٰ ہوں، میں خود عوام کے ذہنوں کو پڑھ سکتا ہوں، صحافی اپنے سوالوں میں زہر ڈال دیتے ہیں جس سے میں بچتا ہوں۔

میزبان۔ مجھے نواز شریف سے لیکر منظور وٹو تک سب وزرائے اعلیٰ سے انٹرویو کا موقع ملا۔ وزیراعلیٰ کے طور پر آپ کا فرض ہے کہ حکومتی پالیسی کی تشریح کے لئے انٹرویو دیں۔

وزیراعلیٰ۔ میں کام پر یقین رکھتا ہوں شوبازی پر نہیں، کام خود بولتا ہے، انٹرویوز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

میزبان۔ ایک عام آدمی اور وزیراعلیٰ کے معمولات میں کتنا فرق ہے؟

وزیراعلیٰ۔ وزیراعلیٰ معمولی نہیں ہوتا، میں ریلیکس رہتا ہوں نہ کسی پر بوجھ ڈالتا ہوں نہ کسی کا بوجھ اٹھاتا ہوں۔

میزبان۔ کتنے گھنٹے کام کرتے ہیں اور کتنا آرام؟

وزیراعلیٰ۔ آرام کا تو موقع نہیں ملتا البتہ فیملی کے ساتھ دو اڑھائی گھنٹے گورنر ہائوس لاہور میں واک اور سوئمنگ کے لئے وقت نکالتا ہوں تاکہ مزید کام کے لئے ذہن کو فریش کر سکوں۔

میزبان۔ آپ کی اتحادی مسلم لیگ ق کی لیڈر شپ کے خلاف دھڑا دھڑ نیب کے مقدمات بن رہے ہیں، آپ کا ردِعمل کیا ہے؟

وزیراعلیٰ۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے مگر ساتھ ہی چودھریوں کو بھی وزیراعلیٰ بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، میں ان کا پسندیدہ وزیراعلیٰ ہوں اب اگر وہ بھی کوشش کریں گے تو پھر مقدمات تو نکلیں گے۔ دوسرا چودھری میرے سرپرست ہیں، میرے لئے دعائیں کرواتے ہیں، مجھے تبلیغی جماعت کے بزرگ کے پاس بھی لیکر گئے تھے اور میرے لئے خصوصی دعا کروائی تھی۔

میزبان۔ الزام ہے کہ علیم خان ہو، سبطین خان ہو یا چودھری ہوں جو بھی وزارتِ اعلیٰ کی طرف دیکھتا ہے اس پر نیب کے مقدمات بن جاتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟

وزیراعلیٰ۔ میں تو سیدھا سادا بندہ ہوں مگر میرے ارد گرد روحانی ہالہ ہے جو کوئی بھی میرے عہدے کی طرف لالچی نگاہ سے دیکھتا ہے اسے بددعا لگ جاتی ہے اور پھر نیب اس کے پیچھے لگ جاتی ہے۔

میزبان۔ الزام ہے کہ آپ افسروں کو ٹک کر کام نہیں کرنے دیتے، افسروں کی ایک عہدہ پر اوسط میعاد 3سے 4ماہ ہے ایسا کیوں؟

وزیراعلیٰ۔ تبادلہ کوئی بری چیز نہیں ہوتا، حرکت میں برکت ہوتی ہے۔ بیوروکریٹ تبادلے اور تقرری پر ہی چلتا ہے، اسے اسی چکر ہی میں رکھنا چاہئے وگرنہ یہ حکومت کو تنگ کریں گے۔

(اسی دوران لنچ ٹائم ہو گیا تونسہ سے آئے ہوئے باورچی نے بلوچی ڈشز بنائی ہوئی تھیں، کھانا بہت مزیدار تھا)

میزبان۔ آپ تو شغل بھی نہیں فرماتے پھر شراب کا لائسنس کیوں جاری کردیا؟

وزیراعلیٰ۔ یہ معاملہ مجھ سے بالا ہی بالا ہوا ہے، شوگر کی سبسڈی پر مجھے حقائق بتائے بغیر منظوری لے لی گئی۔ باردانہ اور گندم اسکینڈل کے حوالے سے بھی ایسا ہوا۔ میرا دامن بےداغ ہے، قصور وار کابینہ کے لوگ اور سیکرٹری ہیں میں نہیں…

میزبان۔ آپ کے پاس الہ دین کا چراغ ہے یا کیا جادو ہے، کئی آئی جی بدلے، کئی چیف سیکرٹری آئے اور کئی گئے آپ وہیں کے وہیں ہیں۔

وزیراعلیٰ۔ مجھے روحانی دعائیں حاصل ہیں، میں سازشی نہیں ہوں، سازشی خود ہی سازش کرتے ہیں اور پھر خود ہی پکڑے جاتے ہیں، اس لئے میں وہیں کا وہیں ہوں۔

میزبان۔ خانِ اعظم کو آپکی کون سی ادا پسند ہے؟

وزیراعلیٰ۔ میری خاموشی اور عاجزی۔

میزبان۔ آپ کا بڑا کارنامہ۔

وزیراعلیٰ۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ۔

میزبان۔ حسن میں کیا پسند ہے؟

وزیراعلیٰ۔ میں قدرتی حسن کا قائل ہوں، مجھے خانِ اعظم کے چہرے پر جو حسن اور وجاہت نظر آتی ہے وہ اور کہیں نظر نہیں آتی۔

میزبان۔ شاعر کونسا اچھا لگتا ہے؟

وزیراعلیٰ۔ شاکر شجاع آبادی اور علامہ اقبال کیونکہ خانِ اعظم کو بھی اقبال پسند ہے، جو خان کی پسند وہی میری پسند۔

میزبان۔ پسندیدہ ایکٹریس۔

وزیراعلیٰ۔ خان سے پوچھ کر بتائوں گا۔

میزبان۔ بہت بہت شکریہ۔