فیچرز

کورونا وائرس: درخت میں قرنطینہ یا ٹوٹی ہوئی گاڑی میں سیلف آئسولیشن

Share

کورونا وائرس سے متاثرہ افراد یا ان سے رابطے میں آنے والوں کو قرنطینہ یا تنہائی میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دلچسپ طریقوں سے اپنے آپ کو دوسروں سے الگ تھلگ رکھے ہوئے ہیں۔

کچھ لوگ اپنی مرضی سے تنہائی میں رہ رہے ہیں تو کچھ بوجہ مجبوری کی بنا پر۔

اتر پردیش کے ہاپور ضلع کے رہائشی موکول تیاگی نے گھر سے بہت دور جنگل میں اپنا آشیانہ بنا لیا ہے اور وہ بھی ایک درخت پر۔

جب سے لاک ڈاؤن شروع ہوا ہے موکول تیاگی یہیں رہ رہے ہیں۔ ان کا کھانا پینا اور سونا سب کچھ یہیں ہے۔ موکول تیاگی کے ساتھ ان کا ایک بیٹا بھی ہے اور ایک دوسرے درخت پر اس نے بھی اپنا چھوٹا سا گھر بنا رکھا ہے۔

موکول تیاگی کہتے ہیں: ‘لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب کچھ بند ہے۔ کورٹ کچہری بھی بند ہے۔ میں ایک وکیل ہوں، اب میرے پاس کوئی کام نہیں۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ فطرت کی آغوش میں رہا جائے۔ پھر ہم نے یہاں درخت پر لکڑی سے ایک مکان نما چیز بنائی۔‘

وہ پوچھتے ہیں: ’یہاں سے اور زیادہ سماجی دوری کہاں قائم رکھی جاسکتی ہے؟ گھر سے کھانے پینے کی چیزین آتی ہیں۔ جبکہ میں دن رات یہیں رہتا ہوں۔ میں مذہبی کتابیں پڑھ رہا ہوں اور صاف و تازہ ہوا لے رہا ہوں۔‘

25 مارچ کے بعد سے سارے انڈیا میں 21 دنوں کا لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا جس میں اب تین مئی تک توسیع کر دی گئی ہے۔ ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سماجی دوری کی پابندی کریں۔

اگرچہ بہت ساری جگہوں پر سماجی دوری کو نظر انداز کیا جا رہا ہے لیکن موکول تیاگی جیسے لوگ اسے دلچسپ انداز میں نبھا بھی رہے ہیں۔

موکول تیاگی کہتے ہیں کہ انھوں نے درخت پر بنے مکان پر پہنچنے کے لیے سیڑھی بھی بنائی ہے۔ جب دل چاہتا ہے نیچے آجاتے ہیں لیکن اپنے باغیچے سے باہر نہیں جاتے۔

موکول تیاگی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس ٹری ہاؤس کو خود اپنے بیٹے کے ساتھ بنایا ہے اور اسے بنانے میں دو دن لگے۔ وہ کہتے ہیں: ‘ابھی یہاں رہنا اچھا لگ رہا ہے۔ میں گاؤں کا رہنے والا ہوں لیکن قدرت کی ایسی صحبت میں شاید ہی کبھی ملی ہو اور نہ ہی کبھی اس کا ایسا تجربہ کیا ہے۔’

कोरोना वायरस क्वारंटाइन

گھر جانے سے قاصر مزدور سڑکوں پر ہیں

موکول تیاگی تو اپنی خواہش کے مطابق تنہائی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مجبور ہیں لیکن دلچسپ انداز میں ‘قرنطینہ’ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔

کانپور میں رہنے والے ہزاروں مزدور اور بیلدار جو اپنے گھر نہیں جاسکے وہ انہی دکانوں کے باہر تنہائی کی زندگی گزار رہے ہیں جہاں وہ کام کرتے تھے۔

کانپور کا علاقہ مول گنج وہاں کا بڑا تھوک بازار ہے۔ یہاں ایسے مزدوروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو سماجی فاصلے کی پیروی کرتے ہوئے وہیں مقیم ہیں۔

ایسے ہی ایک مزدور رگھوور پال کا کہنا ہے کہ ‘بند کی وجہ سے اپنے گھر نہیں جا سکا۔ اب یہیں رہتے ہیں۔ مالکان کھانے پینے کا انتظام کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ ساتھ رہتے ہیں لیکن ہم فاصلہ قائم رکھتے ہیں اور بات چیت کرتے بھی ہیں تو دور دور سے۔’

کئی ایسے مزدور بھی بھی ہیں جو باہر کے ہیں اور اچانک لاک ڈاؤن کے بعد وہاں پھنس گئے۔ ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں ان حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔

اعظم گڑھ کے سوجیت بھی انھی لوگوں میں شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا: ‘ہوٹل میں کام کیا کرتا تھا۔ ہوٹل بند ہو گیا۔ اور بہت سے لوگ ہیں۔ وہ سڑکوں پر چادر بچھا کر رہ رہے ہیں۔ یہاں کھانے پینے کا انتظام کیا گیا ہے۔ کوئی نہ کوئی کچھ دے ہی جاتا ہے۔’

कोरोना वायरस क्वारंटाइन

ٹوٹی ہوئی وین میں گھر بنایا

دوسری جانب ہمیر پور کے کلو کو جب گاؤں کے لوگوں نے گاؤں میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی تو وہ کانپور ہی رہ گئے۔ وہ کانپور میں مزدوری کرتے تھے۔ اس کے ساتھ لوگ پہلے ہی گاؤں جاچکے تھے لیکن وہ نہیں جاسکے تھے۔

انھوں نے کانپور کے نوبستا میں ایک پرانی اور ٹوٹی ہوئی وین میں اپنا گھر بنا لیا ہے۔

کلو کا کہنا ہے کہ ‘لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد کام ملنا بند ہو گیا۔ گاؤں جانا تھا تو ہم نے کرایے کا مکان بھی چھوڑ دیا لیکن گاؤں والوں نے اعتراض کیا۔ پھر ہم یہیں واپس آ گئے۔ یہاں یہ خالی گاڑی نظر آئی۔ میں نے اسے اپنا گھر بنا لیا۔ کسی نے بھی منع نہیں کیا۔’

یہاں رہتے ہوئے 15 دن ہوگئے ہیں۔ ہم یہاں اکیلے رہتے ہیں۔ ہم نے کچھ کھانا پینا رکھا ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پولیس اہلکار بھی کچھ دے دیتے ہیں اور کچھ دوسرے لوگ کھانا تقسیم کرنے بھی آتے ہیں۔’

کلو نے جس وین میں اپنا گھر بنا رکھا ہے وہ گیراج کے باہر کھڑی ہے۔ اس کی حالت کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس میں انجن جیسی کوئی چیز نہیں ہے صرف ڈھانچہ باقی بچا ہے۔

اس ٹوٹے پھوٹے ڈھانچے نے کلو کو پناہ دے رکھی ہے۔ آس پاس کے لوگ کچھ ضروری ساما دے دیتے ہیں۔ لہذا ان کو کسی بھی قسم کی پریشانی نہیں ہے۔

لیکن کلونے کہا: ‘مجھے اپنے گاؤں اور اپنے گھر کی یاد آتی ہے۔ اس چھوٹے سی جگہ پر دن گزارنا کسی قید خانے میں زندگی گزارنے جیسا ہے۔’

تاہم ان کا کہنا ہے کہ جب تک لاک ڈاؤن ختم نہیں ہوتا وہ وہیں رہیں گے۔