معیشت

ہنڈی، حوالہ: کیا بیرون ملک سے پاکستان منتقل ہونے والی رقم میں اضافے کی وجہ غیر قانونی طریقوں کے استعمال میں کمی ہے؟

Share

موجودہ مالی سال کے پہلے مہینے جولائی میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں بھجوائی جانے والی رقوم کسی ایک ماہ میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔

اس شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے آنے والی رقوم میں اس قدر اور اچانک اضافے کی بنیادی وجہ غیر قانونی ذرائع یعنی اور ہنڈی اور حوالہ کے بجائے بینکوں کا بڑھتا استعمال ہے۔

جولائی 2020 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں کر دو اعشاریہ سات ارب ڈالر سے زائد رقوم بھیجی گئیں۔ یہ رقوم جولائی 2019ء کے مقابلے میں 36.5 فیصد اور جون 2020ء کے مقابلے میں 12.2 فیصد بڑھیں۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعلامیے کے مطابق جولائی میں سعودی عرب (821.6 ملین ڈالر)، متحدہ عرب امارات (538.2 ملین ڈالر)، برطانیہ (393.9 ملین ڈالر) اور امریکہ (250.6 ملین ڈالر) سے موصول ہونے والی کارکنوں کی رقوم کا حجم نمایاں تھا۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں رقوم بھیجنے میں یہ ریکارڈ اضافہ اس وقت دیکھنے کی آیا جب پوری دنیا کورونا وائرس اور اس کے اثرات سے شدید متاثر ہے اور دنیا بھر میں معیشتیں سست روی کا شکار ہیں جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ ملازمتوں سے فارغ ہو رہے ہیں۔

بیروزگار ہونے والے ان افراد میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو دنیا کے مختلف حصوں میں مقیم ہیں۔ تاہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ملک بھیجی جانے والی رقوم جنہیں ترسیلات زر بھی کہا جاتا ہے ان میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اس اضافے کے پیچھے دوسری وجوہات کے ساتھ ایک بڑی وجہ بیرون ملک رقوم کا قانونی طریقے یعنی بینکوں اور رجسٹرڈ ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے آنا بھی ہے اور ہنڈی حوالے کے غیر قانونی طریقے سے ان رقوم کو پاکستان بھیجنے کے رجحان میں کمی ہے۔

ڈالر

ہنڈی حوالے کے ذریعے رقم بھیجنے میں کمی کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان میں کرنسی کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق دوسری وجوہات کے علاوہ یہ ایک حقیقت ہے کہ قانون ذرائع سے بیرون ملک سے پاکستان منتقل ہونے والی رقوم میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان نے اس سلسلے میں کہا کہ دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے جب بین الاقوامی پروازیں بند ہو گئیں تو بیرون ملک پاکستانیوں کے پاس قانونی طریقے سے رقوم بھیجنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا جس نے ہنڈی حوالے کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی ۔

ملک بوستان نے بتایا کہ بین الاقوامی پروازوں کی بندش نے بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی نے اس طرح بھی مدد کی کہ کو لوگ پاکستان میں آتے ہوئے اپنے ساتھ غیر ملکی کرنسی لاتے ہیں ان کی آمد و رفت رک جانے کی وجہ سے وہ بھی قانونی ذرائع کے ذریعے رقوم بھیجنے پر مجبور ہوئے۔

معاشی امور کے ماہر اور شرمان سیکورٹیز کے ہیڈ آف بزنس ڈویلپمنٹ فرحان محمود نے بھی قانونی ذرائعِ سے بیرون ملک سے پاکستان رقم منتقلی کے رجحان میں اضافے کی تصدیق کی۔ ان کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دنیا کے بیشتر حصوں میں لگنے والے لاک ڈاؤن اور بین الاقوامی پروازوں کی بندش نے قانونی ذرائع سے پاکستان رقوم منتقلی کے رجحان میں اضافہ پیدا کیا۔

قانونی ذرائع سے رقوم کی منتقل کے رجحان میں اضافے کی دیگر وجوہات

ہنڈی حوالے کے ذریعے بیرون ملک سے پاکستان رقوم منتقلی کے رجحان میں کمی اور بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے ان کے قانونی راستے سے منتقلی کیا صرف کورونا وائرس کی وجہ سے بند ہو جانے والی بین الاقوامی پروازوں کی وجہ سے ہے یا اس ک دوسری وجوہات بھی ہیں۔

اس سلسلے میں فرحان محمود نے کہا اس کی دوسری وجوہات بھی ہیں جن میں پاکستان کی جانب سے ہنڈی حوالے کے ذریعے رقوم منتقلی کو روکنا ہے جو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط میں شامل ہے تاکہ پاکستان گرے لسٹ سے نکل سکے۔

ملک بوستان نے اس سلسلے میں بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے متعارف کروائے گیے سخت قوانین بھی ہنڈی حوالے کے کاروبار کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں ۔ اسی طرح فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات کی وجہ سے بھی قانونی ذرائع سے بیرون ملک سے پاکستان رقوم منتقل کرنے کے رجحان میں بھی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

ملک بوستان نے کہا کہ آئے روز قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہنڈی حوالے کا غیر قانونی کاروبار کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن نے بھی اس غیر قانونی کاروبار کو نقصان پہنچایا جس کا فائدہ قانونی طریقے سے رقوم منتقل کے ذرائع کو ہوا ۔

انہوں نے کہا کہ قانونی ذرائع کو وفاقی حکومت اور اسٹیٹ بینک کے “پاکستان ترسیلات زر اقدام” سے بھی ہوا جس میں ٹیلی گراف ٹرانسفر کے ذریعے رقوم کی منتقلی کی فیس دو سو ڈالر سے ایک سو ڈالر اور ڈیجیٹل چینل استمعال کرنے کی حوصلہ افزائی بھی شامل ہے۔

ہنڈی، حوالے کا کاروبار اب کتنا ہو رہا ہے؟

ہنڈی، حوالے کے ذریعے رقوم کی منتقلی کے کاروبار کو حجم کے بارے میں کوئی اعداد وشمار موجود نہیں کہ جس کی بنیاد پر اس غیر قانونی طریقے سے رقوم کی منتقلی کے بارے میں یقین سے کچھ کہا جا سکتا ہو۔

اس سلسلے میں ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سابقہ سیکرٹری جنرل ظفر پراچہ نے کہا کہ اس سلسلے میں صحیح اعداد و شمار تو کسی کے پاس نہیں تاہم کچھ عرصہ قبل قانونی اور غیر قانونی ذرائع سے پاکستان منتقل ہونے والی رقوم کا حجم برابر تھا۔

انھوں نے کہا 2006 کے بعد غیر قانونی ذرائع پر شور اٹھنا شروع ہوا جو حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے اب کافی حد تک کم ہو گیا اور حالیہ مہینوں میں کورونا وائرس اور حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات نے قانونی ذرائع سے رقوم منتقل کرنے کے رجحان کو تقویت بخشی۔

پراچہ نے بتایا اگر کوئی غیر قانونی طریقے سے پاکستان رقم بھیجتا ہے تو ایکسچینج کمپنیوں اور بینکوں میں اس کی تبدیلی کے سلسلے میں ان ذرائع کے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ جہاں سے یہ رقم آئی اور کس چینل سے پہنچی۔

اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا موقف

پاکستان کے مرکزی بینک نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم میں اضافے کے بارے میں اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر کورونا وائرس کے اثرات کے پیش نظر کارکنوں کی ترسیلات ِزر میں یہ اضافہ حوصلہ افزا ہے۔

گذشتہ سال کے اسی مہینے کے مقابلے میں ترسیلات ِزر کی شرح نمو پچھلی دہائی کے دوران عیدالاضحیٰ کے حوالے سے ہونے والے موسمی اضافے سے تقریباً دگنی ہے۔

مرکزی بینک نے کہا کہ اب تک کئی عوامل نے ممکنہ طور پر ترسیلات ِزر میں نمو کو تقویت دی ہے جن میں ایکسچینج ریٹ کے حوالے سے منظم صورت ِحال اور پاکستان ’ریمی ٹنس انی شیے ٹو‘ کے تحت اسٹیٹ بینک اور وفاقی حکومت کے پالیسی اقدامات شامل ہیں۔

ان اقدامات میں ‘ٹیلیگرافک ٹرانسفر (ٹی ٹی) چارجز کی واپسی کی اسکیم ‘تحت اہل ٹرانزیکشنز کے لیے حد کو 200 ڈالر سے کم کرکے 100 ڈالر کرنا، ڈجیٹل چینلز اختیار کرنے کی جانب تیز رفتاری اور ترسیلات ِزر بھیجنے کے باضابطہ چینلز کو فروغ دینے کے لیے مارکیٹنگ شامل ہیں۔