کالم

کوریاکی ایک جھلک

Share

منفی آٹھ ڈگری درجہئ حرارت کی سردی میں کیسی شدت اوراذیت ہوتی ہے؟اس حقیقت سے سندھ ساگرکے اردگرداورپنجاب کے میدانوں میں بسنے والے میرے ہم وطن ناآشناہیں۔یہ موسم مگر جنوبی کوریااورخصوصاًسئیول،انچون کے باسیوں کے لئے غیرمعمولی اورغیرمانوس نہیں ہے۔سردیوں میں عموماًدرجہئ حرارت یہاں منفی میں ہی رہتاہے،اس لئے آج کادن دسمبرکے دنوں میں معمول کاروزہے۔حیرت اوررشک میں مبتلاکردینے والی اس دیس میں بے شمارباتیں ہیں۔ان میں سے ایک وطن پرستی کاجذبہ اورلوگوں کی قومی سوچ ہے۔عوام میں وطن پرستی کا جذبہ اس قدرنمایاں ہے کہ اس کاذکرکئے بغیرکوریاکے سفرکی رودادچاہے جتنی بھی بھرپوراورتفصیلی تحریرکردی جائے،ادھوری ہی تصورکی جائے گی۔ہردیگربات”اوری نارا“سے شروع کرتے ہیں۔جس کاترجمہ ”ہمارے ملک میں“کیاجاسکتاہے،جوکثرت استعمال کی وجہ سے کورین قوم کاتکیہ کلام محسوس ہوتاہے۔کوریاکے لوگ عمومی طورپرجب اپنی مادرگیتی کاذکرکرتے ہیں تو”اوری نارا“یعنی ہمارے دیس میں تویوں ہے،یوں ہوسکتاہے۔کوئی بھی اچھی چیزدیکھتے ہیں جوکسی بیرونی ملک کی ساختہ ہوتوپہلاتاثریہ ہوگاکہ یہ توہم بھی بناسکتے ہیں،ایسی مصنوعات توہماراملک بھی پیداکرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔سائنس وٹیکنالوجی کی مصنوعات سے لیکرآٹوموبائل اورہمہ قسم کی مشینری پرکسی سے بھی گفتگوکرکے دیکھ لیں،کورین کی بات کاآغاز ہی چیزکاجائزہ لینے کے بعدغیرملکی ساخت کی حامل شے بارے یہیں سے ہوگاکہ یہ توہماراملک بھی بناسکتاہے۔حالانکہ میں کورین زبان نہیں جانتااس کے باوجودیہ لفظ اتنے تسلسل سے کانوں میں ٹکراتاہے کہ”اوری نارا“قومی تکیہ کلام قراردینے کوجی چاہتاہے۔
ملکوں کے نام کورین زبان میں منفرداورذاتی تخلیق کردہ ہیں۔جیسے امریکہ کوویگوکہتے ہیں۔جی ہاں!وہی ڈالے والاویگو۔برطانیہ عظمیٰ یونگوہے توجاپان ای پون کہلاتاہے۔میرے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث تھی کہ جاپان کے لئے کورین زبان میں جولفظ رائج ہے،اس کامطلب ”نمبر1“ہے۔اس لفظ کے رائج ہونے کے تاریخی اسباب تو شایدیہ ہوں گے کہ گزشتہ صدی کاپہلانصف حصہ کوریازیادہ ترعرصہ جاپان کی نوآبادی رہاہے،حکمران جاپانیوں کے نزدیک یقیناان کی دھرتی ہی دنیامیں پہلے نمبرکاملک تھااس لئے انہوں نے یہ بزورشمشیررائج کروادیاہوگا۔دوسرانظریہ اس بابت یہ ہے کہ قربت اورجغرافیائی مماثلت کے پیش نظرشائدجاپان معاشی ومعاشرتی ماڈل ان کے نزدیک زیادہ قابل تقلیدتھا۔سماجی اورقدرتی حالات بھی جزائرکے مجموعے جاپان اورجزیرہ نماکوریاکے بہت ملتے جلتے ہیں جس کے پیش نظربزرگوں نے جاپان کونمبرون ماڈل قراردے دیاہوگا۔کاروباری تدریس کے مضمون میں تحقیق کے طالب علموں کو(SRF)سیلف ریفرنس کرائٹیریاکے نام سے ایک سبق پڑھایاجاتاہے۔اس سبق کالب لباب یہ ہے کہ محقق اورناظرکی اپنی ذات کاتعلق کس علاقے اورگروہ سے ہے،یہ بات اس کے مشاہدے کولازمی متاثرکرتی ہے۔SRFکوریامیں لوگوں کوجاپان کونمبرون کے نام سے پکارنے میں بھی عیاں ہے اورذاتی طورپرمجھے بھی گردوپیش کے حالات کاجائزہ لیتے ہوئے اس مسئلے کاسامناہے کہ میں بھی ہرچیزکوپاکستان اورجاپان کے تناظرمیں دیکھ رہاہوں۔پاکستان میراملک اورجنم بھومی ہے اورجاپان میں قیام کودودہائیاں گزرنے کوہیں،لہٰذابات کسی بھی نگری،دیس کی ہورہی ہو،ان دونوں کے اثرات جائزہ کاضروری حصہ خودبخودبن جاتے ہیں۔
انسان جن بستیوں سے گزرتاہے،جن راستوں پرچلتاہے،وہ انسان کی سوچ اورشخصیت پرانمٹ نقوش چھوڑجاتے ہیں۔میری نظرمیں مقامات انسانوں کوبدل کررکھ دیتے ہیں اورانسان مقامات کوہمیشہ کے لئے تبدیل کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔عرض کرنے کامقصدیہ ہے کہ ہرملک اورتہذیب اس بات کی حق دارہے کہ اس کااسی کے مخصوص حالات میں انفرادیت کے ساتھ مشاہدہ اورتجزیہ کیاجائے۔مگربشری کمزوریوں سے بھی مفر ممکن نہیں ہے۔اپنی نظرکے زاویے میں بیان کرچکاہوں،جن کی بنیادپرہی غالباًمجھے کوریا کے سائن بورڈ،سڑکیں،پل،عمارتیں اورانفراسٹرکچرکے خدوخال سے لے کررہن سہن کی چھوٹی چھوٹی ناقابل غوراشیاء تک حیرت انگیزحدتک جاپان سے مماثلت رکھتی یاپھرمشترکہ نظرآتی ہیں۔چہرہ مہرہ توجاپان والوں سے ملتاجلتاہے ہی،ملنے جلنے کے طورطریقے بھی شدیدمماثل ہیں۔رکوع کی حالت میں ہی دونوں سلام کرتے ہیں۔البتہ کورین لوگوں کی نیم بازآنکھیں مجھے جاپانیوں کی نسبت قدرے زیادہ کھلی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔جاپانی توبالکل بھی ہاتھ نہیں ملاتے البتہ کورین ہاتھ ملاتے بھی نظرآتے ہیں۔مقامی دوست لی البتہ بتارہاتھاکہ کوریامیں بھی ہاتھ ملانابدعت ہی خیال کیاجاتاہے۔
اپنے جذبات کے اظہارکے سلسلے میں کورین لوگ جاپانیوں کی نسبت زیادہ کھلے ڈھلے ہیں۔اپنی پسنداورناپسندکااظہاریہ لوگ پاکستانیوں کی طرح باآسانی الفاظ کی صورت میں کردیتے ہیں،جبکہ جاپانیوں کے باطن کوسمجھناتوبے حدمشکل ہے۔کورین جلدی کھل جانے اور دوست بنالینے کی صلاحیت رکھنے والے ہیں،اپنی پسنداورناپسندکااظہارصاف اورواشگاف الفاظ میں کردیتے ہیں، جاپانی تواس بابت بعض اوقات قابل رحم دکھائی دیتے ہیں،ان پرترس آنے لگتاہے،کہ اتنی تکلیف میں ہیں،اورشدت جذبات کے باوجوداظہاراس طرح کررہے ہیں جیسے انتہائی معمولی سی بات ہے۔ان کااکثراوقات الفاظ کاچناؤشکایت اورمستردکرنے کاایساہوتاہے کہ توصیف وتوثیق کاشک گزرنے لگتاہے۔کوریامیں آکردیکھاکہ وہ اپنی اصل رائے بیان کرنے سے نہیں ٹھٹکتے چاہے وہ آپ سے یکسرمختلف ہی کیوں نہ ہو۔لوگوں کے تاثرات چہروں سے پڑھے جاسکتے ہیں۔یہ اقدارہم پاکستانیوں سے مشترک ہیں۔جبکہ برطانیہ میں لوگ اپنے بچوں کوشروع سے گھروں میں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ چہرے پرکوئی تاثرات نہیں ہونے چاہئیں،یعنی ایسامنہ اورچہرے کے تاثرات کہ جسے بیک وقت جنازے اورشادی میں جانے کے لئے مناسب قراردیاجاسکے۔
ایک لاکھ کلومیٹرکے مختصرسے جزیرہ نماپرسواپانچ کروڑنفوس پرمشتمل یہ قوم دنیاکی بارہویں بڑی معیشت کیسے بن گئی؟جبکہ قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابرہیں،گیس،تیل،معدنیات سمیت قدرتی وسیلہ شمارہونے والی کوئی دھات اس ملک سے نہیں نکلتی ہے۔میری نظرمیں اس خیرہ کن ترقی کی وجہ محنتی قوم اورموثرحکومتی نظام ہے۔معاشی پالیسیوں کاتسلسل بھی ایک اہم وجہ ہے کہ یہاں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں مگرمعاشی پالیسی ریاست کی مستقل خیال کی جاتی ہے۔کرنسی یہاں وان کہلاتی ہے جوآجکل ایک روپے کے چھ آتے ہیں۔اس تذکرے کامقصدیہ باورکرواناہے کہ کرنسی کانرخ ملک کی معیشت اوراس کی ترقی کارخ طے نہیں کیاکرتا۔