سید مودودیؒ، چند کھٹی میٹھی اور مسکراتی یادیں
(گزشتہ سے پیوستہ)
میں نے اس دوران گاہے گاہے 5/A ذیلدار پارک جانا شروع کردیا جہاں مولانا کی رہائش تھی اور وہیں ہفتہ وار فکری نشست ہوتی تھی،جس میں مولانا سوالوں کے جواب بھی دیتے تھے، ان کی گفتگو بھی ان کی تحریر کی طرح مدلل، مؤثر اور مہذب ہوتی تھی، درمیان درمیان میں وہ خوش طبعی کا مظاہرہ بھی کرتے تھے بلکہ خوش مزاجی اور خوش کلامی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔ جب جماعت کی قیادت کو ایوب خان کی جیلوں سے رہائی ملی تو 5اے ذیلدار پارک میں پنجابی کے ایک شاعر حکومت کے مذموم عزائم اور جماعت کی ثابت قدمی کے حوالے سے ایک نظم سنا رہے تھے جس کے ایک مصرعہ کا مطلب تھا کہ حکومت کھیر بنانا چاہتی تھی مگر اس کی بجائے دلیہ بن گیا۔ نعیم صدیقی مولانا کےبرابر میں بیٹھے تھے، انہوں نے مولانا سے پوچھا آپ کو پنجابی سمجھ آتی ہے؟ مولانا نے جواب دیا ’’پنجابی سمجھ آئے نہ آئے، مولوی ہوں یہ کھیر خوب سمجھتا ہوں‘‘۔ مولانا کی خوش طبعی اور جملے بازی کے حوالے سے بہت سی باتیں یاد آ رہی ہیں۔ ایک دفعہ رانا نذر الرحمٰن نے مولانا کی طرف آنا تھا مگر وہ لیٹ ہوگئے اور اپنی تاخیر کی وجہ یہ بتائی کہ انار کلی میں ایک جلسہ ہو رہا تھا منتظمین نے مجھے دیکھا تو اسٹیج پربٹھا دیا۔ میرے ایک طرف رانا اللہ داد اور دوسری رانا رانا خدا داد تھے، میں درمیان میں تھا۔ یہ سن کر مولانا کے چہرے پر شرارت آمیز مسکراہٹ ابھری اور کہا ’’اس کا مطلب ہے آپ دو رانوں کے درمیان تھے‘‘۔
جیل میں جماعت کی دوسری قیادت کے علاوہ مولانا باقر خان بھی موجود تھے۔ ایک دن صبح ناشتے کے وقت مولانا باقر خان کچھ اداس نظر آئے، مولانا نے انہیں مخاطب کیا اور کہا ’’مولانا آپ بہت اداس لگ رہے ہیں، باقر خانی تو یاد نہیں آ رہی؟‘‘ میں یہ چند واقعات بیان کرنے کے حوالے سے قطعاً معذرت خواہ نہیں ہوں کیونکہ میں مولانا کی شخصیت کا یہ پہلو ان ’’مولانائوں‘‘ کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے بیان کر رہا ہوں جو مجلس میں بیٹھے ہوتے تو خود کو منبرپر جلوہ افروز محسوس کرتے۔ کچھ سنجیدہ باتیں بیان کرنے سے قبل دو مزید خوش بیانیاں یاد آتی ہیں۔ وہ سنائے بغیر میرا ہاضمہ خراب ہو جائے گا۔ ایک بار مولانا جماعت کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ کار میں جا رہے تھے، راستے میں ایک صاحب نے کار رکوائی اور کھیتوں کی طرف چلے گئے۔ واپس آئے تو مولانا نے پوچھا ’’ کوئی پانی وانی کا انتظام بھی تھا کہ نہیں؟‘‘ان صاحب نے جواب دیا ’’نہیں حضرت، مٹی کے ڈھیلوں سے کام چلا لیا‘‘۔ اس پر مولانا کی رگ ظرافت پھڑکی اور کہا ’’گویا آپ ڈرائی کلیننگ کرکے آ رہے ہیں‘‘۔
آپ ذرا اندازہ لگائیں کہاں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایسی جید عالم شخصیت ایک بہت بڑی اسلامی تنظیم کے سربراہ جس کی بازگشت عرب ملکوں میں بھی سنائی دیتی تھی اور کہاں حضرت جوش ملیح آبادی، یعنی ضدین مگر مولانا کی ان سے پرانی دوستی تھی۔ ان دنوں کی یہ روا داری اور عقائد اور طرز زندگی کے واضح اختلاف کے باوجود باہمی تعلق ’’ایں خیال است و محال است و جنوں‘‘ کی ذیل میں آتا ہے۔ ایک بار مولانا کے گردے میں پتھری کی موجودگی کا پتہ چلا۔ جوش، مولانا کی عیادت کو آئے اور کہا ’’تمہیں ایک بات کا پتہ ہے؟‘‘ مولانا نے پوچھا ’’کیا؟‘‘جوش نے کہا ’’یہی کہ اللہ تمہیں اندر سے سنگسار کر رہا ہے‘‘۔ مجھے پتہ ہے کہ میری بہت سی باتیں آج کے کشیدہ نظریات اور عقائد کے ماحول میں بہت سے دوستوں کو گراں گزریں گی، مگر گزرتی ہیں تو گزریں میں نے آپ کو ایک پوری شخصیت سے ملانا تھا، اپنے جیسے کسی ادھورے شخص سے نہیں۔ اس حوالےسے ایک بلا کا جملہ رہ چلا تھا، جسے صرف انجوائے کیا جا سکتا ہے، اسے طعنے کی شکل نہیں دی جاسکتی۔1953ء ختم نبوت کی تحریک میں فوجی عدالت سے مولانا مودودی اور مولانا عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت سنائی گئی۔ ایک ستم ظریف نے اس پر تبصرہ کیا ’’مولانا نیازی کو سزائے موت اس لئے سنائی گئی کہ انہوں نے تحریک میں حصہ کیوں لیا؟ اور مولانا کو اس لئے کہ انہوں نے تحریک میں حصہ کیوں نہیں لیا‘‘۔
ان ہلکی پھلکی باتوں کو اب خدا حافظ کہتے ہوئے مولانا کےبارے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک بڑے عالم دین اور ایک بڑی تحریک کے بانی ہونے کے علاوہ ایک صاحبِ طرز لکھاری تھے۔ آپ سنجیدہ سے سنجیدہ موضوع پر ان کی کوئی تحریر پڑھیں، آپ کو کہیں بھی اکتاہٹ کا احساس نہیں ہوگا۔ یہی لگے گا کہ آپ ایک عظیم ادب پارہ پڑھ رہے ہیں۔ مولانا سے میرا ایک تعلق یہ بھی ہے کہ مرحوم و مغفور ہمارے گھر تشریف لائے تھے اور میری ایک ہمشیرہ کا نکاح پڑھایا تھا۔ مجھے اس بات کا شدید دکھ ہے کہ ان کے بہت بڑے جنازے کے بعد انہیں منصورہ میں دفن کیا جانا چاہئے تھا مگر جماعت کے قائدین اور مولانا کے اہل خانہ کے درمیان اس مسئلے پر اختلاف کے باعث انہیں مولانا کی رہائش گاہ کے لان میں دفن کیا گیا۔اہل خانہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ زندگی میں بھی وہ جماعت اور منصورہ سے وابستہ رہے، وفات کے بعد بھی یہی صورت حال باقی رہے۔ میں اب ذہنی طور پر جماعت اسلامی سے بہت دور جا چکا ہوں مگر مولانا کے علم اور ان کی شخصیت کے حصار سے ابھی تک نہیں نکل سکا۔