کالم

 بنگلہ دیش میں اردوصحافت وافسانہ نگاری میں کلیدی کردارکا حامل زین العابدین  

Share

“محمد حسن”

برِصغیر جوکہ اردو کا مسکن رہا ہے کبھی فرقہ وارانہ تشددتو کبھی لسانی زیادتیوں کی وجہ سےاس کے ادب کو بار باردھجکا لگا۔۱۹۳۶ میں جب سجاد ظہیر لندن سے واپس بھارت پہنچے تو برِ صغیر میں سب سے بڑی ادبی اور نظریاتی تحریک کا آغازانجمنِ ترقی  پسند مصنفین کے ذریعہ کیا۔ لیکن چند برسوں میں ہی اردو ادب میں مزین ہوتا ہوا گلشن اجڑ کر رہ گیا۔۱۹۴۷ میں اس نظرئیے کے حامی دو سرحدوں میں بنٹ گئے اوریہ نظریہ ماند پڑ نے لگا۔
احمد الیاس اپنی کتاب” بنگلہ دیش میں اردو”میں لکھتے ہیں “بنگلہ دیش میں جس کا اس وقت نام مشرقی بنگال تھا، اردو ادب بغیر کسی نظرئیے کے تخلیق ہورہا تھا۔ مغربی بنگال کے شہر کولکاتا میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے بعد جمیل مظہری، پرویز شاہدی، انور عظیم ، یونس احمر اور نشاط ا لایمان جن دنوں ترقی پسند ادب کے نظرئیے کے تحت ’’ادب برائے زندگی‘‘ کا چراغ جلا رہے تھے، اُن دنوں مشرقی بنگال میں شرف الحسینی شرف اور ڈاکٹر وجا ہت حسین عندلیب شادانی رومانی اور روایتی غزل گوئی کی شمع روشن کئے ہوئے تھے۔ اردو شعر و ادب کے اس ماحول میں اُس وقت انقلاب آیا جب ۱۹۴۷ کی تقسیم کے بعد مہاجر شاعروں اور ادیبوں کی ایک بڑی تعداد مشرقی پاکستان چلی آئی”۔سابق مشرقی پاکستان میں بھارت سے ہجرت کرنے والے اردو ادیب و شعراء جن میں ڈاکٹر سید یوسف حسن، حنیف فوق، عطاء الرحمٰن جمیل، اختر پیامی، نوشاد نوری،صلاح الدین محمد، احمد سعدی، اظہر قادری،عارف ہوشیار پوری، مسعودکلیم ، زین العابدین ،ادیب کاکوی اور احمد الیاس کے ساتھ ساتھ بنگالی نژاداردو شاعر احسن احمد اشک جیسی شخصیت کا نام نمایاں ہے جنہوں نے جدید اور ترقی پسندرجحان کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو ادب میں طبع آزمائی کی۔
بنگلہ دیش کے اصل دھارے میں ایک غلط فہمی عام کی گئی کہ اردو زبان یا اردو داں ۱۹۴۷ میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعدیہاں آ بسے۔ بنگلہ دیش میں اس طرح کے تصورات کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے تاکہ اردو بولنے والوں کو با آسانی پاکستان کے شہری یا پاکستان کے نام سے جوڑکر انہیں بنگلہ دیش میں ان کے جائز حقوق سےمحروم رکھا جاسکے۔بنگلہ دیش کا ادبی حلقہ ہو یا سیاسی حلقہ، اس بات کا خواہاں رہا ہے کہ اس غلط العام کا تسلسل رہے اور کوئی بھی اس بات کی تصحیح نہ کرے۔ بنگالی تاریخ نویسوں میں بھی اس بات کا فقدان پایا جاتارہا ہے کیونکہ وہ ان تمام غلطیوں کی ترمیم کے حق میں نہیں تھے ۔ اسی طرح سماج کے باشعور طبقوں نے اس کمیونٹی کوحقوقِ انسانی سے محروم رکھنے میں کلیدی کردارادا کیا ۔ ان لوگوں کی تردیدی روئیوں کی وجہ سے بنگلہ دیش میں اردو زبان معتوب ہو کر رہ گئی اور اردو داں طبقہ کو حق تلفی کا شکارہونا پڑا۔ان میں چند بنگا لی نژاددانشور غیر معمولی کردار کے حامل ہیں۔ان میں اسد چودھری (شاعر)، کمال لوہانی(ادیب و صحافی)، ڈاکٹر سی آر ابرار(پروفیسر و حقوقِ انسانی کے کارکن)،عطا ء الصمد(مدیر)،بدر الدین عمر(سیاسی رہنما و ادیب )، مفید الحق(ادیب)، بشیر الہلال( ادیب)،فرہاد مظہر (ادیب )،پرو فیسر سیراج السلام چودھری(امیریٹاس پروفیسر)، جسٹس محمد حبیب الرحمن( چیف جسٹس)،امیر الکبیر چودھری (جسٹس)،شاہ دین ملک (ایڈویکٹ)،سلطانہ نہار (ایڈویکٹ)، سلیم اللہ(ایڈ ویکٹ)، روح القدوس بابو(جسٹس)، حسن عارف( ایڈویکٹ و سابق اٹارنی جنرل)،عدیل الرحمن خان(ایڈ ووکٹ و حقوقِ انسانی کے کارکن) ، فریدہ اختر(حقوقِ نسواں کی کارکن)، فردوس عظیم(پروفیسرو حقوقِ نسواں کی کارکن)، نیاز زمان(ادیب و محقق)، تصنیم صدیقی( پروفیسرو حقوقِ انسانی کی کارکن)، سومیہ خیر (پروفیسر و انسانی حقوق کی کارکن)، طالیہ رحمن (ترقیاتی کارکن)،فیض الحکیم (بائیں بازوں کے سیاسی رہنما)،پروفیسر ہارون الرشید ( ڈائیریکٹر جنرل، بنگلہ اکیڈیمی)،پروفیسر شمس الزمان خان (صدر بنگلہ اکیڈیمی)، حبیب اللہ شیرازی (شاعر و ڈائیریکٹر جنرل، بنگلہ اکیڈیمی )، ہری پد دتا (ادیب)،سمدر گپت (شاعر)،زاہد الحق (شاعر)، شفیع الرحمن (دستاویزی فلم ساز)اور طارق مسعود (دستاویزی فلم ساز)وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں جنہوں نے اردو زبان کی بقاء اور اردو داں کی حقوق کی بالا دستی کے لئے خاطر خواہ تعاون فراہم کئے۔          
۱۹۷۱میں جنگِ آزادی کے دوران اردو بولنے والوں کے قتل عام، جبر و ظلم سمیت ان کے مکان ودکا ن اور کاروباروجائیداد پر قبضہ کرنے کے بعداس کمیونٹی کےپاس واحد آپشن بچا کہ وہ اس ملک کو چھوڑ کر ہجرت کرجائیں۔اس وقت سابق مشرقی پاکستان سے کثیر تعدادمیں اردو ادیبوں، صحافیوں اور شعراء نے پاکستان کا رخ کیا۔ ۱۹۴۷کے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران قتل عام سمیت جبر و ظلم کو جس طرح اردو افسانوں میں محفوظ کئے گئے ہیں ٹھیک اسی طرح ۱۹۷۱ کے المناک واقعات کونظر انداز کئے گئے۔ ان واقعات کے بارے میں اردو افسانوں میں اُس قسم کا ردعمل نہیں پایا گیا جیسا کہ ۱۹۴۷ کے واقعات پر اردوافسانے موجود ہیں۔پاکستان میں انتظار حسین، ابراہیم جلیس، مسعود مفتی، ام عمارہ اوردیگر افسانہ نگاروں نےاس انسانی المیےکے حوالے سے چند متحرک تحریریں پیش کیں لیکن بنگلہ دیش میں مقیم اردو افسانہ نگاروں میں وہ جرات کہاں کہ وہ اس المناک واقعات کوقلم بند کریں کیونکہ بنگلہ دیش کے مجموعی حالات کے پیشِ نظروہ اپنی ذاتی بقاء کے جہد میں مصروف تھے۔ پاکستان جو کہ اردو داں مصنفوں کے لئے محفوظ ملک سمجھا جاتا ہے، میں ان المناک واقعات کودر گذر کیا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ جب ادب میں کسی چیز پر خامشی یا پابندیاں ہوں تو اس موضوع کو اجاگر کرنے کے لئے مجموعی اقدام کا سہارا لیا جاتا ہے ۔ایسے ہی کچھ حالات پاکستان میں بھی رہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر بشیر منصور نے ایک منتخب مجموعہ “زمین ظالم ہے”ترتیب دیا۔ ۱۹۷۱  کے بعد لکھے گئےاردوافسانوں میں انتظار حسین، رضیہ فصیح احمد، ابراہیم جلیس، مسعود مفتی، رشید امجد، فرخندہ لودھی، جمیل عثمان ، شہزاد منظر، اے حمید، اختر جمال، مسعود اشعر، آغا سہیل، ام عمارہ، احمد زین الدین اور غلام محمد وغیرہ کے افسانےاس مجموعہ میں شامل ہیں۔
بنگلہ دیش کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد اس وقت اردو مصنفوں میں چند ایک نےاس ملک میں مستقل آشیانہ بسانے کا فیصلہ کیا جن میں صحافی وا فسانہ نگار زین العابدین کا نام قابلِ ذکر ہے ۔زین العابدین۱۵ جنوری ۱۹۳۷ میں بھارت کے اتر پردیش کے الہ آباد میں  پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام محمد مصطفےاور والدہ کا نام زیتون بیگم تھا۔وہ چار بہن بھائیوں میں منجھلےتھے۔ ان کے والدریلوے میں ملازم تھے ۔ برِ صغیر کو جب دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تو اس وقت برطانوی حکومت نے اپنے ملازموں کو یہ اختیار دیا کہ وہ جس حصے میں چاہیں اپنا آشیانہ بنا سکتے ہیں۔ اسی کے پیشِ نظر ان کے والد نے مشرقی پاکستان کو منتخب کیا اور۱۹۴۸ میں سابق مشرقی پاکستان کا شمالی شہر سید پور چلے آئے۔ رنگپور ڈیویژن کے تحت نلفاماری ضلع کاشہر سید پورریلوے کے حوالے سےایک تاریخی شہر ہے۔ ۱۸۷۰ میں اس شہر میں ملک کا پہلا ریلوے ورکشاپ قائم کیا گیا۔اس کے علاوہ تاریخی یا ثقافتی یادگاروں میں شہر کے اسلام باغ میں چینی مسجد(۱۸۶۳)،سید پور ریلوے اسٹیشن کے قریب مرتضیٰ انسٹی ٹیوٹ(۱۸۸۲)، اور عیسائی برادری کے لئے گرجا گھر (۱۸۹۳)کی تعمیرات قابلِ ذکر ہیں۔اگر ہم شہر کےتاریخی و ثقافتی عمارتوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ شہر ادب و ثقافت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اردو بولنے والی کمیونٹی موجودہ بنگلہ دیش کی مٹی میں تقریباً دو سو سال سے مقیم ہے۔زین العابدین اسی شہر میں اپنا لڑکپن گذارا اورقائد اعظم اسکول سے۱۹۵۱ میں ثانوی امتحان مکمل کیا۔بعد ازاں تعلیم کے سلسلے میں وہ ڈھاکہ چلے آئے۔ انہوں نے۱۹۵۳ میں ڈھاکہ کے تاریخی تعلیمی ادارہ ڈھاکہ کالج سے اعلیٰ ثانوی اور۱۹۵۶ میں اسی ادارے سےگریجویشن کیا۔انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبئہ اردو سے ماسٹر ڈگری حاصل کی۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اپنے طالب علمی کے دوران ہی مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی جانب سےاردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو پاکستان کی سرکاری زبان کی حیثیت سے تسلیم کی تحریک یعنی لسانی تحریک عروج پر تھی۔ زین العابدین کو کم سنی ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق رہاہے اور وہ ترقی پسندنظرئیے سے متاثر تھے جس کی وجہ سےبنگالیوں کی تحرک میں انہوں نےبراہِ راست حصہ لیا۔ اردو بولنے والوں میں ان کی شخصیت ایک مثالی شخصیت ہے ۔ بنگلہ کو سرکاری زبان کی حمایت میں  ڈھاکہ میں رات کے وقت دیوار پر پوسٹرچسپا کرتے ہوئے پولیس کے ہاتھوں گرفتارہوئے اورانہیں چند دن جیل میں کاٹنے پڑے۔اس بات کی خبر زین العابدین نے کبھی بھی کسی کوہونے نہیں  دی۔ایک روز ڈھاکہ قومی پریس کلب میں راقم الحروف ان کے ساتھ بیٹھے مختلف موضوعات پر گفتگو کررہے تھے کہ انہوں نے لسانی تحریک اور جیل کے حوالے سے اس تاریخی بات کا ذکر کیا۔جب میں نے ان سے پوچھا کہ ان باتوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے کہا کہ ان باتوں سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔
زین العابدین تنوع کردار کے حامل تھے۔ وہ یکساں طور پر افسانہ نگار، صحافی ، ڈرامہ نگار،کھیل سمیت مختلف سماجی و ثقافتی تنظیموں کےساتھ جڑے تھے۔انہوں نے سابق مشرقی پاکستان کی بہت ساری جمہوری تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔نیز وہ ساٹھ کی دہائی میں ڈھاکہ کے second divisionفٹ بال لیگ میں اسلامیہ فٹ بال ٹیم کی طرف سے بہت ہی نمایاں کھیل کا مظاہرہ کیا۔علاوہ ازیں صحافی کی حیثیت سے اردو روزنامہ پاسبان، ادبی ہفتہ وار سب رنگ اور انگریزی روزنامہ دی مارننگ نیوز میں کام کیا۔انہوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز۱۹۶۰ میں مشہورروسی ڈرامہ اور افسانہ نگارانتون چیخوف اورمعروف فرانسیسی افسانہ نگار گائے ڈی مائوپاسنٹ کے افسانوں کا اردو میں ترجمے سے کیا۔لیکن افسانہ نگاری میں ایک اہم مقام حاصل کئے۔ ان گنت افسانوں کا خالق زین العابدین کی کہانیاں ہندوستان اور پاکستان کے کئی نامور اردو ادبی رسائل میں شائع ہوئیں جیسے افکار، ادبِ لطیف، فنون اور روشنائی وغیرہ۔ان کی مشہور کہانیوں میں  ٹوکری،سات بھائی چمپا، دھنک اور دھوپ،  ٹکاسو کے پھول،تیرگی کے دھاگے، نورا، روشنیوں کا شہر،  سائے ، سورج کا رنگ کالا، خیالوں کی دیواریں،گوالا، بڑا بھیک منگا اور رکھوال وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
۱۹۷۱ میں اردو بولنے والوں پر ہونے والے مظالم سے وہ بیحد دل برداشتہ ہوئےکیونکہ انہیں ذاتی طور پربھی نقصان کا سامناتھا۔ اسی وجہ سے وہ عام طور پر لوگوں سے ملنے ملانے سے گریز کرتے۔حتیٰ کہ ان کے قریبی دوستوں میں اسد چودھری اور کمال لوہانی تھے لیکن وہ ان لوگوں سے بھی دوری بنائے رکھتے تھے۔ڈھاکہ میں کسی بھی پروگرم میں شرکت نہیں کرتے۔بیحد اصرار کے بعد اگرکسی پروگرام میں شرکت بھی کرتے تو پیچھے کی صف میں بیٹھنے کو ترجیح دیتے۔  لیکن جب کراچی سے شائع ہونےوالے سہہ ماہی ادبی رسالہ “روشنائی” کےمدیر احمد زین الدین جو ان کے دیرینہ دوستوں میں سے تھے، ۲۰۱۱ میں ڈھاکہ آئے اور بنگلہ-اردو ساہتیہ فاؤنڈیشن نے ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا تو زین العابدین نےپہلی مرتبہ کی طرح احمد زین الدین پر کلیدی مقالہ پیش کرنے کے لئے اپنا عندیہ دیا۔ ڈھاکہ میں منعقدہ یہ واحد پروگرام ہے جس میں انہوں نے مکمل طور پر شرکت کی اوراپنا مقالہ بھی پیش کیا ۔
 بنگلہ دیش جو اردو زبان کے لئے ایک اجنبی ملک بن کر رہ گیا ۔یہاں اردو داں یا اردو زبان ایک حلقہ تک محدودہو کر رہ گئی ۔ اس لئے جب بھی زین العابدین کوئی افسانہ مکمل کرتے تو اسے اپنے دیرینہ ادبی دوست نوشاد نوری، احمد الیاس اور شمیم زمانوی کو سنانے محمد پور چلے آتے۔ اسی دفتر میں بنگلہ دیش کے تقریباً تمام ادباء و شعراء کی آمد و رفت تھی۔ وہ اپنا افسانہ سناتے۔نوشاد نوری، احمد الیاس اور شمیم زمانوی سے ان لوگوں کی تخلیقا ت سنتے۔سماج، سیاست، ادب اور بین الاقوامی موضوعات پر گفتتگو بلکہ مباحثے ہوتے۔ کبھی کبھی احمد الیاس جب ان کے افسانے پر یہ کہہ کر تبصرہ کرتے کہ ِاس افسانہ میں وہ معیار نہیں جو ٹوکری والے زین کے افسانہ میں تھا۔ یہ سن کرزین العابدین بگڑ جاتےاور غصہ سے اپنا مستقل ٹھکانہ ڈھاکہ قومی پریس کلب لوٹ جاتے۔ پھر دوسرے ہی ہفتہ افسانہ کے نوک پلک درست کر کےپریس کلب کے پوریوں کے ساتھ واپس اسے سنانے چلے آتے ۔  
قیامِ بنگلہ دیش کے بعد زین العابدین نے کراچی سے شائع ہونے والے اردوروزنامہ” جنگ” کے نامہ نگار کی حیثیت سے تادمِ مرگ نمائندگی کی۔لیکن ان کے موت کے بعد اس خبار نے ان کی شخصیت کے ساتھ کوئی وفاداری نہیں نبھائی حتیٰ کہ ان کی موت کی خبر تک اس اخبار میں شائع نہیں کی۔ ڈھاکہ میں انہوں نےایسٹرن نیوز ایجنسی (ENA)، ہفتہ وارانگریزی اخبار “ہولی ڈے”،انگریزی روزنامہ ” دی سن” اور “بنگلہ دیش ٹائمس” سمیت دیگرانگریزی اخبارات میں بھی کام کئے۔چونکہ وہ بنگلہ دیش میں سیاسی میدان کے مرشد اور عوام الناس کے رہنماعبد الحمیدخان بھاشانی کی نظرئیے سے متاثر تھے اس لئے

ان خباروں میں کام کرنے کے دوران وہ کبھی کبھی ان سے ملاقات کی غرض سے ڈھاکہ کے عنقریب شہر ٹنگائیل چلے جاتے ۔مولانا بھاشانی کی مہمان نوازی سے وہ بہت متاثر تھے ۱۹۷۶ میں جب مولانا بھاشانی اس دنیا سے کوچ کر گئے توان کے حوالے سےمنعقدہ ایک پروگرام کی رپورٹنگ کے سلسلے میں “بنگلہ دیش ٹائمس” کی طرف سے زین العابدین آخری مرتبہ ٹنگائیل گئے۔وہاں سے واپسی پرانگریزی میں ایک مضمونThe Host is No Moreلکھا۔اس مضمون کو آج بھی بنگلہ دیش کے صحافی حلقوں میں معرکتہ الآراء مضمون کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔سنیما اردوہفتہ وار “چترالی” کے ساتھ بھی ان کی وابستگی رہی۔ جس کی وجہ سے وہ ڈھاکہ فلم انڈسٹری میں مشہورتھے۔انہوں نے ڈرامہ نگاری میں بھی طبع آزمائی کی۔ ڈھاکہ کے بہت سے سارے فلم پروڈیوسروں نے ان کے لکھے اسکرپٹ پر اپنی فلمیں بنائیں ان میں چکوری،چھوٹے صاحب، اناڑی اور ڈنگ شن وغیرہ قابلِ ذکرہیں۔انہوں نے خود ڈھاکہ میں ایک فلم” جنتا اکسپریس” پروڈیوس کی تھی۔ ان کی عظیم تصانیف میں بنگلہ زبان کا اہم مصنف اختر الزمان الیاس کاشاہکار ناول “خواب نامہ” کااردو ترجمہ ہے۔ اس بنگلہ ناول میں تقسیم سے پہلے مشرقی بنگال کی دیہی معاشی اور سماجی زندگی کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اس ترجمہ کے مکمل ہونے کے بعد زین العابدین نے اسے کراچی کے مشہور ادبی شخصیت اور اپنے دیرینہ دوست آصف فرخی کے ذریعہ  کراچی کے کسی پبلشر کے حوالے کیا تھا لیکن اب زین العابدین کے چھوٹے بھائی سراج الدین کا قیاص ہے کہ اس کتاب کے سلسلے میں ان کے بڑے بھائی کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے کیونکہ اب وہ پبلشر اس کتاب کے لاپتہ ہونے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔ وہ پبلشر خود بھی اسےشائع نہیں کرنا چاہتے اور کسی کے حوالے بھی کرنے کے خواہاں نہیں ہیں۔ اُس پبلشر کےبے حس فیصلہ نے زین العابدین کا شاہکارادبی تخلیقات کوتقریباً موت کے گھاٹ اتاردیا ہےجو ادب میں ایک ادیب و مترجم کےساتھ نا انصافی ہے۔ لیکن متعلقہ سبھوں کو امید ہے کہ پبلشر پھر سے ایک بار اس موضوع پر نظر ثانی کرینگے اور زین العابدین کی اس ا دبی خدمات کو قارئین کے سامنے پیش کرنےمیں دستِ تعاون دراز کرینگے۔  

زین العابدین سے میری ملاقات الفلاح بنگلہ دیش میں ہوئی ۔ یہ این جی اوبنگلہ دیش میں اردوداں باالخصوص کیمپ میں مقیم لوگوں کی سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ترقی کے لئے کام کرتا ہے۔احمد الیاس اس دفترکے روح رواں ہیں جہاں راقم الحروف احمد الیاس کے معاون کی حیثیت سے بر سرِ روزگار تھے۔جب بھی زین انکل ہمارے دفتر آتے ہملوگ مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے۔ دریں اثنامیں ہمیشہ ان سے ایک سوال کیا کرتاتھاکہ”انکل آپ نےشادی کیوں نہیں کی”۔ حسب عادت اک روز جب میں نےیہ سوال ان سے پوچھا تو ان کے سینے میں چھپائے۳۰سالہ غم و آلام میں ایک ہلچل سی مچی۔ انہوں نے میراہاتھ تھامے مجھے دفتر سے نکالا ۔ ایک رکشہ پکڑا اور محمدپور کےتاج محل روڈ لے گئے۔ پھر ایسا معلوم ہوا کہ زین انکل اپنا افسانہ سنا رہے ہیں۔ انہوں نےہاتھ کے اشارے سے ایک کھنڈر سا پلاٹ دکھایا اور بتا یا کہ اپنی جوانی کی آمدنی کے خطیر رقم سےیہ پلاٹ خریدا، مکان کی تعمیری کام  کا آغاز کیا۔ایک منزلہ تیارہوچکی تھی ،دوسرے منزلہ کا کام تیزی کے ساتھ رواں تھا۔مکان مکمل ہی ہونے والا تھا کہ۱۹۷۱ میں قیامت برپا ہوگئی۔ ایک خواب ریزہ ریزہ ہوگیا۔ زین انکل جب یہ بات کررہے تھے اور اپنی انگلیوں سے اس خستہ حال عمارت دیکھا رہے تھےاور اپنی خواب کی تفصیل بتا رہے تھے تو ان کی آنکھیں سرخ و نم اور ہاتھ اور ہونٹوں پر تھر تھراہٹ سی تھی۔ انہوں نے واضح طور پر بتایا کہ یہ گھر مکمل ہوتے ہی شادی کے بارے میں خاندان والے غور و خوض کررہے تھے کیونکہ وہ ایک کئیریر صحافی تھے،کافی اچھی آمدنی تھی اور سماج میں ان کا ایک مقام بھی تھا۔ لیکن اس سانحہ نے جس طرح ہزاروں اردو بولنے والوں کا بسے بسائے گھر اجاڑ دئیے اسی طرح زین العابدین کے ساتھ بھی ہوا۔ اس مکان پرایک مقامی شخص نے قبضہ کر لیاتھا نیز نوکری ختم ہوگئی تھی۔خاندان کے تمام لوگ پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔انہیں خودزندگی بچانے کے لئے صحافی دوستوں کی مدد سے قومی پریس کلب میں پناہ لینا پڑا۔ اسی دوران وہ ساری زندگی اس مکان کی واپسی کے مطمنی بنگلہ دیش میں عدالتوں کا چکر کاٹتے رہےاور اپنی زندگی اسی تگ و دومیں ضائع کردی۔۳۵سال کی مستقل کوششوں کے بعد انہیں گھر تو نہیں ملا لیکن بنگلہ دیش سپریم کورٹ کے سنئیر ایڈویکٹ ایم آئی فاروقی جن کی پیدائش بہار کے پٹنہ شہرمیں ہوئی اور وہ ان کے دیرینہ دوستوں میں سے ہیں، نے عدالتی معاملات میں ہر لحاظ سے تعاون کیا۔ جس کی وجہ سے انہیں گھر کے کاغذات واپس ملےاور وہ اسے فروخت کرنے پرمجبور ہوئے۔ لیکن وہ کسی طرح ایک مستقل رہائش کےحامل نہ بن سکے۔وہ ذہنی طور پر عدم تحفظ کاشکار تھے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ ڈھاکہ قومی پریس کلب کو ہی جان کی تحفظ کے لئے خاطر خواہ ٹھکانہ سمجھتے اور اپنی زندگی کے بیشتر حصہ اسی جگہہ گذار دیا۔واضح رہے کہ قومی پریس کلب کے بانیوں میں زین العابدین کانام سرِ فہرست ہے۔لسانی تحریک کے حوالے سے ان کی خدمات کے بارے میں جب صحافیوں کو پتہ چلا تو لسانی تحریک کے ۶۲ سال بعدقومی پریس کلب کی جانب سے۲۰ فروری ۲۰۱۴ میں ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں استقبالیہ دیا گیا ۔
 ۸۰ سال کی عمر میں ڈھاکہ میں جب وہ بیحد بیمار ہوئے تو ان کے صحافی دوستوں نے انہیں ہسپتال میں داخلہ کروایا لیکن ان کی زندگی نے ان سے وفا نہیں کی او ر اسی طرح ۹ مارچ ۲۰۱۷ میں انہوں نے بنگو بندھو شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی میں آخری سانس لی۔وہ بنگلہ دیش میں اردو بولنے والوں میں واحدشخص ہیں جن کی قبرڈھاکہ کےشہید دانشوروں کے قبرستان میں ہے۔اس قبرستان میں مدفون ہونے کے لئے حکومتِ بنگلہ دیش کی متعلقہ حکام سے خصوصی اجازت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے لئےتہران ریڈیوکے نمائندہ بنگلہ دیش صحافی عبد الرحمن خان(مرحوم)کی کوشش قابلِ ستائش ہے۔ عبد الرحمن خان نے راقم الحروف سے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے انتھک کوشش کی کہ زین العابدین کی موت پروزیر اعظم، صدرمملکت یا وزیر اطلاعت و مواصلات سے تعزیتی پیغام ذرائع ابلاغ میں شائع کئے جائیں لیکن حکومت کی تردیدی روئیوں اور چند صحافیوں کی بے حسی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا۔جس کاانہیں بیحد ملال تھا۔ واضح رہے کہ زین العابدین بنگلہ دیش میں واحد شخصیت ہیں جن کے کطبہ پر پتہ ۳۰، قومی پریس کلب، ڈھاکہ درج ہے۔جو شائد بنگلہ دیش میں کسی اور کونصیب ہو۔
 بنگلہ دیش میں اردو صحافت و افسانہ نگاری میں کلیدی کردار کا حامل زین العابدین جو کہ ایک گھر کے متلاشی تھے،کو کبھی اپنا گھر کاپتہ نہیں ملا۔

امسال ان کی وفات کی چھٹیں برسی ہے۔ ہم اس موقع پر اس عظیم جیالے کو زبر دست خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔