شفاف قیادت اور نچلی سطح پر اتفاقیہ ناانصافی
ہم بندگان خاکی آمریت کو دار و گیر، عقوبت خانوں، قتل و غارت، اداروں کی بے توقیری، ناجائز رسوخ کی دراز دستی اور عوام کی بے دست و پائی جیسے حوالوں سے جانتے ہیں۔ آمریت میں انسانوں کا تخلیقی اور پیداواری امکان مفلوج ہو جاتا ہے۔ اس سے بڑی نا انصافی یہ کہ بہترین انسانوں کی نادرہ روزگار صلاحیتیں علم، تخلیق اور تعمیر کی بجائے آمریت کی سنگین دیوار سے لڑائی میں ضائع ہو جاتی ہیں۔ بیسویں صدی کا پہلا نصف چار فاتر العقل افراد کے ہاتھوں میں بے پناہ سیاسی طاقت کے نتیجے میں ناقابل تصور تباہی سے عبارت ہے۔ اٹلی کا مسولینی 28 اپریل 1945 کو قتل کر کے میلان کے چوک میں الٹا لٹکا دیا گیا۔ جرمنی کے ہٹلر نے 30 اپریل 1945 کو برلن میں خودکشی کر لی۔ جاپان کے جنرل ٹوجو کو 23 دسمبر 1948 کو پھانسی دی گئی۔ اس قبیلے کا چوتھا رکن جوزف اسٹالن عالمی جنگ میں فتح کے سبب کئی برس مزید زندہ رہا اور 5مارچ 1953 کو ماسکو میں طبعی موت مرا۔ اپنے تیس سالہ اقتدار کے دوران اسٹالن کروڑوں انسانوں کی موت کا ذمہ دار تھا۔ یالٹا کانفرنس میں اسٹالن نے خود چرچل کو بتایا کہ اجتماعی زراعت کے تجربے ( 1927۔ 1931 ) میں ایک کروڑ اموات واقع ہوئی تھیں۔ دہشت اور تطہیر کے برسوں ( 1934۔ 1938 ) میں مرنے والوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ تھی لیکن کسی میں آواز اٹھانے کی جرات نہیں تھی۔ اسٹالن کی موت کے بعد پولٹ بیورو میں اقتدار کی داخلی کشمکش تین برس تک جاری رہی۔ بالآخر خروشیف نے کلی اقتدار حاصل کر لیا اور کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگرس میں 25 فروری 1956 کو ایک خفیہ تقریر میں پہلی بار اسٹالن کے عہد میں ظلم و ستم اور شخصیت پرستی کا اعلیٰ ترین سطح پر اعتراف کیا۔ یہ ’خفیہ‘ تقریر مغربی ممالک میں پہنچی تو امریکہ اور یورپ میں اشتراکیت کے حامی سوویت نظام کا دفاع کرنے کے قابل نہ رہے۔ حقیقت یہ تھی کہ اسٹالن کے مظالم کا ذکر کر کے خروشیف اشتراکی نظام کی مذمت نہیں کر رہا تھا۔ وہ تو صرف اسٹالن کے مقابلے میں اپنا صاف ستھرا تاثر قائم کرنا چاہتا تھا۔
اس تقریر میں خروشیف نے بار بار دعویٰ کیا کہ اسٹالن دراصل مزدور طبقے اور کمیونزم کی حتمی فتح کے لئے جدوجہد کر رہا تھا۔ گویا سوویت عوام اور بالشیوک پارٹی پر عذاب بن کے اترنے والا اسٹالن صاف ضمیر کے ساتھ یہ سب اقدامات کر رہا تھا۔ یہ الگ بات کہ کے جی بی کی پیشرو تنظیم NKVD کے تین سربراہ، جو ماسکو مقدمات، تطہیر اور عہد دہشت کے مرکزی کردار تھے، یکے بعد دیگرے ایک جیسے انجام سے دوچار ہوئے۔ جولائی 1934 میں NKVD کا سربراہ بننے والا Yagoda 15 مارچ 1938 کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ اس کے جانشین Yezhov کو 4 فروری 1940 کو فائرنگ اسکواڈ نے قتل کیا اور اس کا جانشین Beria 23 دسمبر 1953 کو سزائے موت کا مستحق ٹھہرا۔ یہ کیسی حب الوطنی تھی کہ ملکی مفاد کے اعلیٰ ترین محافظ یکے بعد دیگرے اپنے ہی قائم کردہ بندوبست کا شکار ہو رہے تھے۔ خروشیف کا موقف تھا کہ کامریڈ اسٹالن تو ایک سچے کمیونسٹ تھے البتہ ان کے ماتحت نچلی سطح پر ظلم و تادیب میں ملوث تھے۔ جب یہ خبر باہر نکلی تو برٹولٹ بریخت نے لکھا کہ’ ’اسٹالن ازم سے مکمل نجات کے لئے عوام کی اجتماعی فراست کو بروئے کار لا کر پارٹی کو ازسرنو منظم کرنا چاہئے‘‘۔ جرمنی کے معروف کمیونسٹ شاعر Johannes Becherنے لکھا کہ’ ’اسٹالن کے اقتدار میں رونما ہونے والے انسانی المیے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس خونچکاں عہد کے دھبے اسی صورت میں دھل سکتے ہیں جب اس کی تحقیق کرنے والے اس خوفناک استبداد کی حقیقی نوعیت بیان کرنے کی استعداد رکھتے ہوں۔ جنہوں نے اس جبر و تشدد کا سامنا کیا ہو اور اس کی مزاحمت کر رکھی ہو۔‘‘ اس میں دقت یہ تھی کہ 1953تک اشتراکی تحریک کے حقیقی رہنما مارے جا چکے تھے۔ 1934 کی سترہویں کانگرس کے 1966 ارکان میں سے 1200 کے قریب سزائے موت پا چکے تھے۔ ماسکو مقدمات کی تین طوفانی لہروں، وسیع پیمانے پر گلاگ کے برفانی جہنم میں قید سیاسی مخالفین، پارٹی اور فوج کے سرکردہ ترین رہنمائو ں کے قتل کے بعد کوئی بچا ہی نہیں تھا جو یہ لہو آلود حکایت بیان کر سکتا۔ 1956 میں جو لوگ زندہ بچ رہنے والے یا تو خود ان جرائم میں شریک تھے یا انہوں نے برسہا برس ریاستی جھوٹ کی تائید کی تھی اور نسل در نسل رائے عامہ کی دروغ آمیز ذہن سازی کے معمار تھے۔ آمریت کی غلیظ بدرو سے گزرنے والی قوم میں کسی فرد کا دامن بے داغ نہیں رہتا۔ آمریت اجتماعی اور انفرادی سطح پر ضمیر کی سچائی کو مسخ کرنے کی مشق ہے۔
آج کے پاکستان میں ہم اسی المیے سے دوچار ہیں۔ کوئی آئینی یا ریاستی ادارہ گزشتہ دہائیوں کے اجتماعی جرائم سے بری الذمہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ہم نے دستور کے بخیے اس بری طرح ادھیڑے ہیں کہ عمرانی معاہدے کی رفو گری ممکن نہیں رہی۔ عشرہ در عشرہ آمریت، آمرانہ قوتوں کے تابع سیاست، اختیار اور انفرادی جرائم میں گٹھ جوڑ اور نسل در نسل ریاکاری پر مبنی ذہن سازی سے قوم کی توانائی اس بری طرح مجروح ہوئی ہے کہ ہم بھی خروشیف کی طرح منمنا رہے ہیں کہ ’میں نے تو کچھ غلط نہیں کیا البتہ نچلی سطح پر ممکن ہے کہ کسی پرجوش اہلکار سے کچھ نا انصافی ہوئی ہو‘۔ اس اتفاقیہ نا انصافی کا نتیجہ ہے کہ قوم ان گنت ٹکڑوں میں بٹ چکی ہے۔ ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ رائے عامہ ملک کو درپیش آئینی، سیاسی اور تمدنی مسائل کے حل کے لئے ان بالشتیوں کے سحر میں مبتلا ہے جو گزرے ہوئے کل کی غلطیوں کے اقبالی مجرم ہیں۔ ہماری قوم ذہنی بالشتیا پن کا شکار ہو چکی ہے۔ ہم سیاسی سازش اور معاشی قبضہ گیری کے نتیجے میں اس یونانی المیے کا شکار ہیں جو ہر عہد کے خروشیف کو پیش آتا ہے۔