نہر پر چل رہی ہے پن چکی
بچپن حیرت اور معصومیت کا زمانہ ہے۔ گھر میں ماں باپ کی شفقت ہو، بہن بھائیوں سے شرارتیں ہوں یا اسکول میں ہم جولیوں کے ساتھ کھیل کود۔ کوئی معمولی کھلونا ہو یا پیڑ پر بیٹھے پرندے کا گیت، پائوں پائوں چلنا سیکھنے سے سائیکل چلانے تک کی مسرت، بارش کا چھینٹا ہو یا گرما کی کسی تپتی ہوئی شام میں اچانک نمودار ہونے والی آندھی اور پھر کچھ وقفے سے امڈتے بادلوں کی ٹھنڈک۔ سرما کی دھوپ ہو یا برسات کی ہریالی، نئی پرانی عمارتوں کا سلسلہ ہو یا کسی سیر گاہ کی وسعت، میلے کی رونق ہو یا مانوس گلی کوچوں کے منظر، بازار میں راہ چلتی آوازیں ہوں یا شام ڈھلے جاگنے والی روشنیاں، شہر میں طرح طرح کی سواریوں کا ہجوم ہو یا کھیت میں آواز پیدا کئے بغیر بڑھنے والی نت نئی فصلیں۔ ہر شے نئی، تازہ اور بھلی معلوم ہوتی ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ خوشی کہ بچپن میں زندگی تاحد نظر پھیلی ہوئی شاہراہ معلوم ہوتی ہے جس پر ہمیں کسی نے بے روک ٹوک دوڑنے کودنے کی اجازت دے رکھی ہو۔
بچپن موت کے خوف سے خالی ہوتا ہے۔ بس دریافت اور احساس کا ایک دائرہ ہے جو مسلسل پھیلتا ہی چلا جاتا ہے۔ حرف کی پہچان سے لفظ کا نشان چیترنے تک، ہر سانس ایک نئے جہان کا دروازہ کھولتی ہے۔ بچپن غریب یا امیر نہیں ہوتا بلکہ بچپن شاید ختم ہی تب ہوتا ہے جب ہم پہلی بار اونچ نیچ، محرومی، نا انصافی اور تشدد سے آشنا ہوتے ہیں۔ زندگی کی یہ بدصورتیاں حیرت کی آنکھ میں دہشت کی خراش پیدا کرتی ہیں، معصومیت کی سبز شاخ سے پھوٹتی نازک پتیاں کچل دیتی ہیں۔ کون ہے جو حیرت کو ہنر کے حصار میں لے کر جہاں تک ممکن ہو، آڑھی ٹیڑھی راہوں پر دور تک چلتا رہے۔ یہ معجزہ صرف فنکار کو نصیب ہوتا ہے کہ علم اور شعور کے باوصف لفظوں، رنگوں اور سروں کے سہارے اپنے حصے کے سانس اس آہستگی سے پورے کرے گویا، ’میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے‘۔ مگر یہ نکتہ تو مجید امجد سے آٹھ صدی قبل بابا فرید نے بھی بیان کر رکھا ہے، ’مت ہوندے ہوئے ایانا / کوئی ایسا بھگت سدائے‘۔
ان دنوں دیس میں جوار بھاٹا چل رہا ہے، بظاہر اجنتا کی سنگی غاروں میں صدیوں پہلے تراشی کسی اپسرا کے خد و خال کی طرح سمندر کا حسن حالِ قرار میں ہے لیکن گہرے پانیوں میں کہیں بہت نیچے اقتدار اور اختیار کا یدھ زوروں پر ہے۔ خبر دینے والوں کی چاندی ہے، کوئی پورب کی کتھا سنا رہا ہے تو کوئی پچھم کی خبر دے رہا ہے۔ ایسے میں کہ لڑائی کا رنگ پل پل بدل رہا ہو، مجھ بے خبر کو گزرے موسموں میں پناہ ملتی ہے۔ آپ کا نیاز مند جو ادھر ادھر سے اٹھائے دو حرف جوڑنے کی جسارت کرتا ہے، اس خاکدان کی تہ میں تین اساتذہ کی کوہ کنی کے آثار ہیں، محمد حسین آزاد، اسماعیل میرٹھی اور حافظ محمود شیرانی۔ ان جوہر تراش بزرگوں نے جدید اردو کی نصابی تعلیم کی عمارت اٹھائی۔ اسماعیل میرٹھی ( 1844۔ 1917 ) کی سادگی فریب نظر ہے۔ بظاہر بچوں کے لئے لکھی نظموں میں بصیرت کے ایسے آبدار موتی ٹانک دیے ہیں کہ وقت کے اتار چڑھائو سے بے نیاز ہیں۔ مثلاً دو مختلف نظموں کے دو مصرعے دیکھئے۔ بظاہر ان میں کسی باہم ربط کی تلاش کارِ لاحاصل ہے لیکن آج کے پاکستان پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک صدی قبل اسماعیل میرٹھی ہمارے کسی ہم عصر سے بہتر جانتے تھے کہ گزشتہ 14 ماہ میں تار عنکبوت سے معلق پاکستان میں اصل مناقشہ کیا ہے۔ ’دال کی فریاد‘ کے عنوان سے لکھی نظم کا پہلا مصرع دیکھئے، ’ایک لڑکی بگھارتی ہے دال‘۔ دال جو کھیت کی سبز بالی سے ہوتے ہوئے چکی کے دو پاٹوں میں پس کر ہزار جتن سے گزرتی ایک کم عمر لڑکی کی ہنڈیا تک پہنچی ہے، اس کا انجام یہ ہے کہ چپاتی کے ایک نوالے میں لپٹ کر ماضی کا قصہ ہو جائے گی۔ یہ ہماری سیاسی قوتوں کی کشمکش، شعلہ بجاں رہنمائوں کے بیانات، قومی اسمبلی کی پرخروش قرارداد اور صاحبان ذی وقار کے اعلانات کا کل احوال ہے۔ اب میرٹھی صاحب کی نظم ’پن چکی‘ کا پہلا مصرع ملاحظہ کیجئے، ’نہر پر چل رہی ہے پن چکی‘۔ مولوی صاحب نے اس نظم میں غضب کے دو مصرعے لکھ دیے ہیں، ’ختم تیرا سفر نہیں ہوتا / نہیں ہوتا مگر نہیں ہوتا‘۔ صاحب! یہ تو ہماری ہیئت مقتدرہ کی استقامت کا بہترین محاکمہ ہے۔ چکی اپنی جگہ موجود اور مستعد رہتی ہے۔ اسے پروا نہیں کہ اس کے پاٹ پر گندم رکھی گئی ہے یا جوار کے دانے، اسے پیسنے اور پیستے رہنے سے غرض ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے کافکا کے ناول Trial کا اجنبی داروغہ کہتا ہے۔ I have come to flog you and flog you I will. (میں تمہیں کوڑے لگانے آیا ہوں اور تمہیں بہرصورت کوڑے لگائوں گا۔)
ہم نے اس زمین پر ایسے بہت سے امتحان دیکھ رکھے ہیں۔ احتیاط سے بیج منتخب کر کے موسم کی مناسبت سے کاشت کیا جاتا ہے، پوری توجہ سے آبیاری کی جاتی ہے۔ کئی بار تو فصل تیار ہونے میں دو برس بھی لگ جاتے ہیں۔ ایسی جانفشانی سے تیار ہونے والی فصل بالآخر چاق و چوبند چکی تک پہنچا دی جاتی ہے۔ دال بگھارنے والی بے خبر لڑکی کا چکی سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ آئی ایم ایف کی شرائط سے بھی لاعلم ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ چینی، گندم، کھاد، ادویات اور دوسری اشیائے خور و نوش کن راستوں سے افغانستان پہنچ کر قریب دوگنا منافع پر فروخت ہو رہی ہیں۔ وہ تو شاید یہ بھی نہیں جانتی کہ حالیہ ہفتوں میں بارش سے صرف پنجاب میں 23 ارب روپے کی گندم تباہ ہو گئی ہے۔ نصف فصل کو جزوی نقصان پہنچا ہے جب کہ تیس ہزار ایکڑ پر گندم کی کھڑی فصل مکمل تباہ ہو گئی ہے۔ ایک موہوم سی امید البتہ باقی ہے کہ شاید دال کی فریاد سننے والی یہ معصوم لڑکی کبھی اسماعیل میرٹھی ہی کا یہ شعر بھی پڑھ لے۔
ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
نائو کاغذ کی کبھی چلتی نہیں