کالم

سماج کاباطن اورگیشا

Share

جاپان کے باطن کوسمجھنابہت مشکل ہے۔یہ تجزیہ جاپان میں ربع صدی اردوپڑھانے والے پروفیسرتبسم کاشمیری کاہے اور میری نظرمیں حرف بہ حرف حقیقت ہے۔پہلے پہل توہرسیاح یہی تاثرلیتاہے کہ جاپانی بہت بھولے ہیں،کسی حدتک یہ بات درست بھی ہے،مگرکبھی کبھی کچھ لوگ بھولے پن کی اداکاری بھی کرتے ہیں۔سب کچھ جاننے کے باوجودظاہریہ کرتے ہیں جیسے ان کوکچھ بھی نہیں پتا۔دسویں باربھی وہی واقعہ سنتے ہوئے اسے یوں ظاہرکرتے ہیں جیسے زندگی میں پہلی مرتبہ ان کی سماعت میں آیاہے۔تنقیدبالکل بھی نہیں کرتے۔آپ کی ہاں میں ہاں ملادیتے ہیں۔مثال کے طورپراگرآپ کہیں کہ آج موسم بہت اچھا ہے تو99%امکان یہی ہے کہ جواب میں یہی کہاجائے گاکہ واقعی آج موسم بہت اچھاہے۔پھرآپ اسی جگہ اسی وقت کسی دوسرے آدمی سے کہہ دیں کہ آج موسم بڑاخراب ہے توپھربھی 99%امکانی جواب یہی آئے گاکہ ہاں!ہاں!!آج موسم واقعی ذراخراب ہے۔اختلاف رائے کے اظہارکایہاں عمومی طورپررواج نہیں ہے۔
میرانیپالی دوست جس کے دیسی کھانوں کے یہاں کئی ریستوران ہیں،اپنے کاروبارکے بارے میں گپ شپ کررہاتھا۔میراموقف یہ تھاکہ ہم دیسی لوگ شکایت بہت کرتے ہیں،کھانے میں یہ کم ہے،وہ زیادہ ہے،یہ مسئلہ ہے،وہ گڑبڑہے،اس سے برعکس جاپانی گاہک اچھے ہیں کہ کوئی شکوہ شکایت نہیں کرتے،چپ کرکے کھاناکھاکرچلے جاتے ہیں۔وشنوسرن نیپالی کاتجزیہ اوراستدلال بالکل الگ تھا۔کہنے لگاکہ بھائی صاحب!ہمارے لوگ پھربھی اچھے ہیں،وہ کھانے میں نقص نکالتے ہیں توہمیں اپنامعیاربہتربنانے میں اورکمی،کوتاہی دورکرنے میں اس سے مددمل جاتی ہے۔جاپانی گاہک کھاناکھاکرمزیدار،مزیدار!!کی صدابلندکرکے چلے جاتے ہیں،چاہے کھانابرااورپھسپھساہی بناہو۔مگردوبارہ پلٹ کرنہیں آتے ہیں۔یہ رجحان ہمارے لئے زیادہ خطرناک ہے۔
بنیادی طورپرجاپانی بڑے شرمیلے ہوتے ہیں۔آپ اس بات سے اندازہ لگالیجئے کہ جاپانی زبان میں جنسی عمل کے لئے کوئی لفظ ہی سرے سے موجودنہیں ہے۔عام گھروں میں میاں اوربیوی کے لئے الگ الگ بسترہوتے ہیں۔ہماری شاعر دوست نیلماناہیددورانی پولیس میں بڑی افسرتھیں۔دوران ملازمت جاپان ٹریننگ کے لئے گئیں تواپنے اس قیام کی یادوں کوانہوں نے پنجابی سفرنامے کی صورت میں محفوظ کردیا”چڑھدے سورج دی دھرتی“بہت ہی خوبصورت سفرنامہ ہے۔عمدہ شاعراورحرفوں سے آشنائی کے سبب اعلیٰ تحریرکی صلاحیت توان کے پاس موجودتھی،اس کے ساتھ ساتھ سیاحوں جیسی متجسس ان کی نظراورروح نے اس سفرنامے کامزہ دوآتشہ کردیا۔ایک باب انہوں نے کیوٹوشہرکی”گیشا“کے متعلق باندھاہے۔مختصراً ذکرمیں مصنفہ نے ”گیشا“کاترجمہ”وحشیا“اورزنِ بازاری“بیان کیاہے۔اصل صورت حال ذرامختلف ہے۔سادہ ترین الفاظ میں بیان کروں تویہ ایسے ہی ہے جیسے طوائف اور پیشہ ور جسم فروش عورت میں فرق ہوتا ہے۔ہمارے ہاں طوائف کا بنیادی ہنرعام طورپراس کی رقص میں مہارت سمجھاجاتاہے۔اسی طرح ”گیشا“عمومی جسم فروش عورتیں نہیں ہوتیں بلکہ جاپانی تہذیب کاایک تاریخی استعارہ ہیں۔روایتی لباس میں ملبوس زبان وبیان پردسترس اورثقافتی نزاکتوں سے مکمل آشنائی رکھنے والی یہ خواتین انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ ہوتی ہیں۔تاریخ کے کسی موڑپربھی ان کامفلس اورعام لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ہمیشہ سے گیشااشرافیہ کے مردوں کواپنے الفاظ اورحرکات وسکنات سے لبھاتی آئی ہیں اوربیش بہاانعامات پاتی آئی ہیں۔ان خواتین کی تربیت کے لئے باقاعدہ سکول ہواکرتے تھے۔وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اب تووہ پورانظام ہی بدل ساگیاہے،جہاں ان گیشاؤں کی تربیت ہوتی تھی،مگر کہیں کہیں راکھ کے ڈھیر میں اب بھی چنگاریاں باقی ہیں۔بنیادی طورپر”گیشا“روایتی فنکارخواتین ہیں جوپرفارمنگ آرٹ سے منورنجن کااہتمام کرتی ہیں۔رقص وموسیقی پردسترس کے علاوہ انہیں گفتگوکے فن پرمہارت سکھائی جاتی ہے۔یہ خواتین آج کل انتہائی امیرلوگوں کی دعوتوں کاحصہ بنتی ہیں اورکہیں کہیں اسٹیج پربھی نظرآتی ہیں،اپنے بھاری بھرکم میک اپ اورروایتی جاپانی لباس کے ساتھ،مگریہ خواتین جسم فروشی نہیں کرتی ہیں۔
صرف یہ بیان کردیناکافی ہوگاکہ گیشاکالفظی ترجمہ فنکار شخص ہے اورپہلاگیشامردتھاجوچارصدیاں پہلے گزرا۔پہلی خاتون گیشاکوئی تین صدیاں پہلے گزری تھی۔آپ کوحیرت ہوگی کہ چار،پانچ سالہ تربیتی کورس کے دوران گیشاکوکوئی سازبجانے اورگانے کے علاوہ کیلی گرافی اور آرائش گل کی بھی تربیت دی جاتی ہے۔زوال کاشکاراس شعبے سے منسلک خواتین کی تعدادکاتخمینہ ایک سے پانچ ہزارتک کا ہے،یادرہے کہ آج سے ٹھیک ایک صدی پہلے ان کی تعدادایک لاکھ سے زیادہ جاپان میں موجودتھی۔ان دنوں گیشائیں توفقط مہنگے میکدوں،مخصوص ریستورانوں اورہزاردوہزارڈالرمیں چائے پلانے والے چند خصوصی چائے خانوں میں ہی پائی جاتی ہیں۔
ہم جاپانی سماج کے باطن،ان کی اصل روح اور ثقافتی وانسانی اظہاریوں کاتذکرہ کررہے ہیں۔جاپانی اپنے جذبات کے اظہارکے معاملے میں چونکہ کسربیانی سے کام لیتے ہیں اس لئے ان کے باطن کوسمجھنااوربھی مشکل ہوتاہے۔ایک دوسرے کوچھوتے بالکل بھی نہیں ہیں۔ویسے توزمانہ قدیم سے بہت ساری سلطنتوں میں قانون اوراصول تھاکہ بادشاہ سلامت کوچھوناممنوع ہے مگریہاں عام عوام بھی یہی طرزاپنائے ہوئے ہیں۔میرے ایک برازیلی دوست سے اس کے جاپانی استادنے یہ شکوہ کیاکہ آپ لوگ توبہت زیادہ ایک دوسرے کوچھوتے ہیں۔ہاتھ ملانے کاتوجاپان میں کروناوباسے پہلے بھی رواج نہ تھا،کورنش بجالاتے فرشی سلام ہی یہاں زمانہئ قدیم سے رائج ہیں۔مگربعض اوقات یہ صورت حال تکلیف دہ محسوس ہوتی ہے۔میں نے ایک اسپتال میں یہ دلخراش منظردیکھاکہ ایک دس بارہ سال کی بچی کی والدہ کاانتقال ہوگیا،اس کی دادی،والداورچنددیگراقربابھی وہاں موجودتھے،بچی رورہی تھی،مگرتمام لوگ اسے رونے اورآوازنکالنے سے منع کررہے تھے،وہ کسی عزیزسے لپٹنے کی کوشش کرتی تواسے پرسہ دینے کی بجائے خودسے الگ کرکے،صبراورحوصلہ کرنے کی تلقین کررہے تھے۔اپنے جذبات کے اظہار سے منع کررہے تھے۔مجھے یہ منظرذراسنگ دلانہ لگامگرہرخطے کے لوگوں کے اپنے رسم ورواج اور زندگی گزارنے کے الگ الگ ڈھنگ ہوتے ہیں۔انہیں اچھی اوربری ثقافتی اقدارمیں تقسیم کرناشایدمناسب نہیں ہوگا۔رسم رواج اورانداززیست اچھے اوربرے نہیں ہوتے،بس ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔اس عالم ِ رنگ وبوکی ثقافتی رنگارنگی ہی اس کاحسن ہے۔سماجی تنوع ہماری دنیاکومزید خوبصورت بناتاہے۔جاپانی معاشرے کے گردتنی پراسراریت کی چادرسے اس سماج اورثقافت کاحسن مزیددوبالاہوجاتاہے۔