بلاؤز پر لگائی گئی ’چھوٹی سی ڈیوائس‘ جو چھاتی کے کینسر کا پتا لگانے میں مدد دے سکتی ہے
کیا آپ نے کبھی تصور کیا تھا کہ چھاتی کے کینسر کی تشحیص اپنے بلاؤز پر ایک الٹرا ساؤنڈ ڈیوائس پہن کر بھی کی جا سکتی ہے اور اس آسان اور بغیر تکلیف دہ آلے سے آپ کے چھاتی میں بروقت ٹیومر کی موجودگی کا پتہ لگ سکتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اس آلے کی مدد سے جب یہ تشخیصی عمل جاری ہو گا تو اس دوران آپ آرام سے چائے پی رہے ہوں گے!
ترکی کے سائنسدان ڈاکٹر جانان دادیورین نے میساچوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی میڈیا لیب میں اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایسی ہی ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔
انھوں نے یہ آلہ اپنی خالہ کی یاد میں تیار کیا ہے جو چھاتی کے کینسر کے باعث موت کے منھ میں چلی گئی تھیں۔
یہ آلہ ان خواتین کے لیے مددگار ثابت ہو سکتا ہے جنھیں چھاتی کے کینسر کے زیادہ خطرے کی وجہ سے بار بار ’میموگرام‘ کروانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔
ایسی خواتین اس ڈیوائس کے ذریعے دو میموگرام کے درمیان بھی چھاتی کے کینسر کی موجودگی پر نگاہ رکھ سکتی ہیں۔
یاد رہے کہ میموگرام چھاتی کے کینسر کا پتہ لگانے کا سب سے عام طریقہ ہے۔ اس میں چھاتی کے ایکس ریز کے ذریعے اندر بننے والی گانٹھوں کا پتہ لگایا جاتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سال 2020 میں 23 لاکھ خواتین میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی اور چھ لاکھ 85 ہزار اس مرض سے جان کی بازی ہار گئیں۔ چھاتی کا کینسر خواتین کی موت کی دوسری بڑی وجہ ہے۔
امریکی کینسر سوسائٹی کا کہنا ہے کہ اگر چھاتی کے کینسر کا جلد پتہ چل جائے اور اس کے پھیلاؤ کو بروقت محدود کر دیا جائے تو زندگیاں بچانے کی شرح بہت حد تک بڑھ سکتی ہے۔
ڈاکٹر ڈیڈیورین کا کہنا ہے کہ ان کا آلہ بقا کی شرح کو بڑھانے میں مدد کر سکتا ہے کیونکہ جن خواتین کی دیر سے تشخیص ہوتی ہے ان کے زندہ رہنے کی شرح صرف 22 فیصد ہے۔
یہ ڈیوائس کام کیسے کرتی ہے؟
ایم آئی ٹی میں میٹریل سائنسدان اور انجینیئر جانان دادیورین کو یہ ڈیوائس بنانے کا خیال اس وقت آیا جب وہ ہسپتال میں اپنی خالہ کے پاس بیٹھی تھیں۔
ان کی خالہ ان کے پاس اپنا معمول کا چیک اپ کرواتی تھیں۔ پھر ایک دن پتہ چلا کہ وہ تیزی سے بڑھتے ہوئے چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہیں اور یہ معلوم ہونے کے فقط چھ ماہ بعد ان کی موت واقع ہو گئی۔
ڈاکٹرجانان دادیورین کی ڈیوائس میں شہد کی مکھی کی شکل کے چھ سلاٹس ہیں جن میں ایک چھوٹا الٹرا ساؤنڈ کیمرہ منسلک کیا جا سکتا ہے۔
اس کیمرے کو مختلف سلاٹس میں رکھ کر چھاتی کا ہر طرف سے معائنہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے استعمال کے لیے الٹراساؤنڈ جیل استعمال کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
ڈاکٹر جانان دادیورین کا کہنا ہے کہ یہ 0.3 سینٹی میٹر تک کی چھوٹی گانٹھوں (lumps) کا بھی پتہ لگا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ شروع میں چھاتی میں بننے والی گانٹھوں کا سائز تقریباً ایک جیسا ہے۔
’اس کا مطلب ہے کہ یہ کسی بھی قسم کی غیر معمولی چیز کا پتہ لگانے میں بہت درست ہے۔‘
میمو گرام کیا ہے؟
میموگرام چھاتی کے کینسر کا پتہ لگانے کا سب سے عام طریقہ ہے۔ اس میں چھاتی کے ایکس ریز کے ذریعے اندر بننے والی گانٹھوں کا پتہ لگایا جاتا ہے۔
ریڈیوگرافر چھاتیوں کو ایک ایک کر کے مشین پر دو فلیٹ پلیٹوں کے درمیان رکھتا ہے۔
یہ پلیٹیں چند لمحوں کے لیے سینوں کو دباتی ہیں۔ اس کی وجہ سے خواتین ہلکا سا دباؤ اور بے چینی بھی محسوس کر سکتی ہیں۔ کچھ خواتین کو یہ عمل تکلیف دہ لگتا ہے لیکن یہ عمل بہت جلد مکمل ہو جاتا ہے۔
تاہم میموگرام کروانا مہنگا بھی ہے اور بہت سے ممالک میں یہ ٹیسٹ سرکاری صحت کے نظام کے تحت نہیں آتا مطلب اس کو پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکس سے کروانا پڑتا ہے۔
کچھ خواتین کو درد کیوں محسوس ہوتا ہے؟
ہیلن یول ایک کنسلٹنٹ ریڈیوگرافر ہیں اور برطانیہ میں ریڈیوگرافرز کی مشاورتی سوسائٹی کی رکن ہیں۔ ان کے مطابق ’ہر عورت کی چھاتی مختلف ہوتی ہے اور ان میں غدود اور چربی کی مقدار بھی مختلف ہوتی ہے۔‘
جن خواتین میں غدود کے ٹشوز زیادہ ہوتے ہیں وہ میموگرام کے دوران فربہ چھاتیوں والی خواتین کی نسبت زیادہ تکلیف کا سامنا کر سکتی ہیں۔
ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی (HRT) کی وجہ سے چھاتی حساس بھی ہو سکتی ہے۔
ہیلن یول کا کہنا ہے کہ خواتین میموگرام کروانے کے تجربے کے بارے جو کچھ سوچتی ہیں اس سے بھی بہت فرق پڑتا ہے۔
میموگرام کے دوران تکلیف سے بچنے کے کچھ آسان طریقے ہیں۔
مثال کے طور پر ایسی خواتین اس وقت میموگرام نہ کروائیں اگر ماہواری آنے میں ایک ہفتہ باقی ہے یا میموگرام سے پہلے پیراسیٹامول کھا سکتے ہیں۔
یہ آلہ کس کے لیے ہے؟
تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چھاتی کا کینسر ایک میموگرام سے دوسرے کے درمیان بن سکتا ہے۔ اسے وقفہ کا کینسر کہا جاتا ہے۔ اس قسم کا کینسر چھاتی کے کینسر کے کل کیسز کا 20 سے 30 فیصد بنتا ہے۔
ایم آئی ٹی کی ٹیم کا کہنا ہے کہ اس دوران جو رسولیاں بنتی ہیں وہ معمول کے چیک اپ کے دوران پائے جانے والی گانٹھوں سے زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔
ایسی صورت حال میں یہ ڈیوائس ابتدائی طور پر ان خواتین کو دی جا سکتی ہے جنھیں بریسٹ کینسر ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس سے انھیں گانٹھوں کا پتہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے جو دو میموگرام یا خود معائنہ کے درمیان بن سکتے ہیں۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ اگر یہ آلہ کسی غیر معمولی چیز کا پتہ لگاتا ہے تو پھر بھی میموگرام کروانا ضروری ہو گا۔
’یومیہ استعمال سے ڈیوائس کی قیمت ایک کپ کافی سے بھی کم‘
چھاتی کے کینسر کی تشخیص کے لیے اس ڈیوائس کو بنانے کے لیے ایم آئی ٹی کی ماہر ٹیم کوساڑھے چھ سال کا عرصہ لگا۔
اسے رواں سال اگست میں امریکہ میں ’پیٹنٹ‘ ملا تھا اور اس وقت سے اسے انسانوں پر آزمایا جا رہا ہے۔
اس ایک ڈیوائس کی قیمت ایک ہزار امریکی ڈالر کے قریب ہو گی تاہم اس کے بنانے والوں کو یقین ہے کہ بڑے پیمانے پر پیداوار کے بعد اس کی قیمت میں لازمی کمی آئے گی تاہم ایسا ہونے میں چار سے پانچ سال لگ سکتے ہیں۔
تحقیقی ٹیم کے مطابق ’اگر آپ ہر روز اس کی مدد سے سکین کرتے ہیں تو اس کی قیمت ایک کپ کافی سے بھی کم ہو گی۔‘
چاندی کا استر
تحقیق سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں چھاتی کے کینسر کی وجہ سے اموات کی زیادہ شرح کی وجہ کینسر کا دیر سے پتہ لگانا اور صحت کی اچھی سہولیات کا فقدان ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق زیادہ آمدنی والے ممالک میں متاثرہ حواتین کی پانچ سالہ زندہ رہنے کی شرح 90 فیصد سے زیادہ ہے، جبکہ انڈیا میں یہ شرح 66 فیصد اور جنوبی افریقہ میں صرف 40 فیصد ہے۔
یہ آلہ جسم کے دیگر حصوں کو سکین کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب ڈاکٹر ڈیڈیورین پچھلے سال حاملہ تھیں تو انھوں نے اسے اپنے بچے کو سکین کرنے کے لیے استعمال کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میری خالہ صرف 49 سال کی تھیں۔ انھوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ وہ اس طرح اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ اگر انھوں نے بھی ایسی چولی پہنی ہوتی توشاید وہ ابھی ہمارے ساتھ ہوتیں۔‘