نام نہاد بڑے شاعر
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میں ایک معمولی شاعر ہوں، مگر بعض لوگ میرا موازنہ میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ سے کرتے ہیں۔ میں آزادی اظہار کا قائل ہوں، انہیں کہنے دیں جو وہ کہتے ہیں، ورنہ ’’من آنم کہ من دانم‘‘ البتہ مجھے تو ان بڑے بڑے شعرا کی ان آرا سے شدید اختلاف ہے جنہوں نے ایسے شعرا کے کلام کو بھی بہت اعلیٰ درجے کا قرار دیا ہے جو مذہبی، معاشرتی، معاشی اور اخلاقیات کے حوالے سے بہت قابل اعتراض ہیں، میں یہ بات کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن کہہ دی کیونکہ میں آزادیٔ اظہار کا قائل ہوں، میں اس ذیل میں بیسیوں شعر کوٹ کر سکتا ہوں مگر میری خوش ذوقی اس کی اجازت نہیں دیتی، ایک طرف ہمارے نقادوں کی یہ اقربا پروری ہے اور دوسری طرف ہمارے عہد کے صف اول کے شعرا کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ حاشا وکلامیں اپنی بات نہیں کر رہا، مثال کے طور پر صرف ایک درویش شاعر کا ذکر کر رہا ہوں، جو پاک ٹی ہائوس کی ایک ٹیبل پر تن تنہا بیٹھے ہوتے تھے اور اس دور کے نام نہاد بڑے بڑے شاعر اور ادیب انہیں مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے عین ان کے سامنے والی میز پر بیٹھے ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ کی عملی تصویر بنے انجمن ستائش باہمی کے موٹو کے مطابق ایک دوسرے کی شان میں رطب اللسان ہوتے تھے۔میں نے ابھی جس درویش شاعر کا ذکر کیا ہے ان کا نام نامی نواب ناطق دہلوی تھا، ویسے تو مجھے ان کا سارے کا سارا کلا م ’’منہ زبانی‘‘ یاد ہے تاہم فی الحال ان کا صرف ایک شعر سنیں۔
ناطقؔ یہ سخن تیرا ہے تریاق پریہا
ذمباق تریہا لَکَ ذمباق تریہا
میں نے یہ شعر ان کی زبانی سنا تو مجھ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو ایک بہت بامعنی اور خوبصورت شعر سن کر طاری ہوتی ہے تاہم تفہیم میں کچھ کمی سی محسوس ہوئی اور وہ بھی اس لئے کہ نواب ناطق کے کلام میں ایک جہان معنی آباد ہوتا تھا۔ چنانچہ ان کے شعر کے مطالب تک مکمل رسائی ہر کسی کیلئے ممکن نہیں تھی۔ چنانچہ میں نے جسارت کلام لیتے ہوئے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ اے دریائے معانی آپ کے اس شعر کا مفہوم تو سمجھ گیا ہوں میں، واللہ ایسا اعلیٰ درجے کا شعر آپ کے علاوہ اور کوئی کہہ نہیں سکتا مگر اپنی کم علمی کی وجہ سے میں اس شعر کے تہہ دار معانی تک نہیں پہنچ سکا۔ کیا آپ از راہ بندہ پروری مجھے اس بحرِ بے کراں کی ایک جھلک دکھانے کا کرم کریں گے۔ میرے اس سوال سے نواب صاحب کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ میں نے ان کے شعر کو شاید بے معنی قرار دیا ہے، جس پر وہ سخت بے مزہ ہوئے اور زندگی میں پہلی دفعہ جلالی انداز میں کہا ’’آپ مجھ سے اس شعر کا مطلب پوچھ رہے ہیں، غالب کے دور میں آپ جیسے جہلا غالب سے بھی ان کے اشعار کا مطلب پوچھا کرتے تھے‘‘۔ میں سخت شرمندہ ہوا اور دل ہی دل میں اپنی اس گستاخی پر اپنے بارے میں بے تحاشا گستاخیاں کیں، اللہ میرا یہ گناہ معاف کرے۔
میں نے اپنے کالم کے آغاز میںعرض کی تھی کہ جن شعرا کا کلام غبی قسم کے نقادوں نے ہمیں ازبر کرا دیا ہے اور ان شعرا کوبانس پر چڑھا رکھا ہے جن کے اشعار ذومعنی ہیں اورفسادِ خلق کے خوف کی وجہ سے وہ ایسی باتیں براہ راست نہیں کہتے جو نہ صرف مشرقی اقدار کے منافی ہیں بلکہ کسی بھی انسان کی زبان سے ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ مثلاً ایک شعر ہے ؎
دو ہی لمحے زندگی میں مجھ پر گزرے ہیں کٹھن
اک ترے آنے سے پہلے اک تیرے جانے کے بعد
اب دیکھیں اگر شاعر کے خیالات پاکیزہ ہوتے تو وہ اس طرح کی گول مول بات کبھی نہ کرتا، مگر سمجھنے والے تو سمجھ جاتے ہیں کہ محبوب کے آنے سے پہلے کے لمحے ان سوچوں کی وجہ سے کٹھن تھے کہ اللہ جانے کیا ہوگا اور اس کے جانے کے بعد یہ سوچ کٹھن تھی کہ پھیرا ضائع ہی گیا۔ اسی نوعیت کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں۔؎
ہم طالبِ شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
شاعر نے یہاں ’’ننگ‘‘ کا لفظ شعر کو ذومعنی بنانے کیلئے کہا ہے مگر قاری اتنا کم فہم نہیں ہے کہ اس نے ’’ننگ دھڑنگ‘‘ کا لفظ نہ سنا ہو۔ایک اور مشہور شعر سنیں، میں نے جب کبھی یہ شعر سنا اپنا ماتھا پیٹ لیا کہ جن لوگوں کو شعرا اپنا مرشدمانتے ہیں ان کا کردار ایسا ہوتا ہے۔چلیں اب شعر بھی سن لیں۔ ؎
داورِ حشر میرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
یعنی آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کے تعلقات کچھ پردہ نشین بیبیوں سے بھی رہے ہیں، آپ قوم کو یہ سبق سکھانا چاہتے ہیں کہ اپنی کرتوتیں فخر سے بیان کریں، میں نے موصوف کا پورا کلام نہیں سنا، ممکن ہے کہ شعر میں ان پردہ نشینوں کے نام بھی گنوائے ہوئے ہوں۔میں اس سلسلے کو دراز نہیں کرنا چاہتا مگر کیا کروں، دو شعر اور یاد آ رہے ہیں۔ ؎
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
بظاہر اس شعر میں محبوب سے گلہ ہے کہ تم سنی سنائی باتوں میں آگئے، اس سے بہتر تھا کہ تم براہ راست مجھے بتاتے کہ لوگ میرے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ بہت معذرت کے ساتھ، محبوب بہت شرم و حیا والا ہے، اس نے دید لحاظ کی وجہ سے شاعر کویہ بتانا مناسب نہیں سمجھا تھا کہ لوگوں میں تمہاری ریپوٹیشن اچھی نہیں ہے۔ بجائے اس کے کہ شاعر اس کا شکریہ ادا کرتا کہ اس نے موصوف کی شخصیت کے حوالے سے جو سروے کیا تھا وہ اسے نہیں بتایا کہ وہ سن کر پریشان ہوگا بلکہ الٹا اسے طعنہ دے رہا ہے کہ تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔
قارئین سے معذرت کہ میں نے آپ کا وقت ضائع کیا کیونکہ آپ مشہور اشعار اور ان کے خالق کے حوالے سے نقادوں کا وہ رٹا رٹایا سبق بھول ہی نہیں سکتے جو ان کی عظمت کے حوالے سے آپ کے ذہن نشین کیا گیا ہے۔ چنانچہ میں باقی اشعار آپ کو نہیں سنائوں گا کہ میں بھی اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔