’وعدہ معاف گواہ نہیں بنوں گا‘: عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ کیس سے ملک ریاض کا کیا تعلق ہے؟
’ملک ریاض وعدہ معاف گواہ نہیں بنے گا۔‘
پاکستان میں ریئل سٹیٹ کاروبار سے جڑی کاروباری شخصیت ملک ریاض کی جانب سے گزشتہ روز سوشل میڈیا پر سامنے آنے والا یہ بیان اس اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے کہ گزشتہ چند دنوں کے اندر ان کی جانب سے دوسری بار عوامی سطح پر مبہم الفاظ میں ایک ایسے معاملے پر رائے کا اظہار کیا گیا جو ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ بحریہ ٹاون کے مالک اور پاکسان کے پراپرٹی ٹائیکون القادر ٹرسٹ کیس میں اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں جس میں سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف رہنما عمران خان اور اُن کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام ہے کہ انھوں نے بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے سینکڑوں کنال پر محیط اراضی اُس 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض حاصل کی، جس کی شناخت برطانیہ کے حکام نے کی تھی اور یہ رقم پاکستان کو واپس کر دی تھی۔
اس کیس میں عمران خان، بشری بی بی، ملک ریاض، احمد علی ریاض و دیگر کو ملزم قرار دیا گیا ہے۔ رواں برس نو جنوری کو احتساب عدالت نے ملک ریاض اور اُن کے بیٹے احمد علی ریاض سمیت کیس کے پانچ دیگر شریک ملزمان کو مقدمے کی تفتیش میں شامل نہ ہونے پر اشتہاری قرار دیتے ہوئے پاکستان میں موجود اُن کی جائیدادیں منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
پاکستان میں ملک ریاض سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے ساتھ ساتھ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے روابط کے لیے جانے جاتے ہیں اور اُن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہر مشکل سے نکلنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں تاہم انھوں نے گذشتہ شب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام نے ان کی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے دفاتر پر چھاپہ مارا ہے اور یہ سب کچھ ان پر ’دباؤ ڈالنے‘ اور ’وعدہ معاف گواہ‘ نہ بننے کے نتیجے میں کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’ملک ریاض وعدہ معاف گواہ نہیں بنے گا۔ راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن کے دفاتر پر سرکاری مشینری نے بغیر کسی قانونی اختیار کے چھاپے مارے ہیں۔ کسی بھی سیاسی اقتدار کی جدوجہد میں فریق نہ بننے کے اپنے عوامی اعلان کے بعد، مجھے کھلی توڑ پھوڑ اور ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے اپنی ٹویٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ ’یہ چھاپے گھنٹوں تک جاری رہے، دفاتر میں توڑ پھوڑ کی گئی اور دفاتر میں تعینات سکیورٹی اور عملے کو ہراساں کیا گیا۔ چھاپہ مار ٹیم پانچ ہزار سے زائد اہم پراجیکٹ فائلیں، دفتری ریکارڈ، 23کمپیوٹر، نیٹ ورک ڈیٹا، محکمانہ نقدی وغیرہ اور نو گاڑیاں اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔‘
انھوں نے بیان میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ چھاپے ریاستی اداروں کی جانب سے ’سیاسی ایجنڈے کے تحت بحریہ ٹاؤن پر دباؤ ڈالنے کے لیے مارے جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ وہ ’کٹھ پتلی نہیں بنیں گے‘ اور وزیر اعظم پاکستان، وزیراعلیٰ پنجاب، وزارت داخلہ، نیب اور ایف آئی اے کے سربراہان سے بحریہ ٹاؤن کے عملے کو فوری طور پر رہا کرنے اور بحریہ ٹاؤن کے دفاتر سے تمام دستاویزات اور ضبط شدہ سامان واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔
نیب حکام کی جانب سے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے دفتر پر چھاپے مارنے کی کارروائی سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل 26 مئی کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر ایک ذومعنی ٹویٹ کرتے ہوئے ملک ریاض نے لکھا تھا کہ انھیں ’سیاسی مقاصد کے لیے دباؤ‘ کا سامنا ہے وہ کسی صورت نہیں جھکیں گے۔‘
ملک ریاض کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں موجود نہیں ہیں اور ملک سے باہر ہیں۔
’نہ صرف میرا کاروبار تباہ کیا جا رہا ہے بلکہ پاکستان میں رئیل سٹیٹ سیکٹر کو بھی برباد کیا جا رہا ہے‘
ملک ریاض نے پہلے ایکس پر پوسٹ کیے گئے اپنے پیغام میں لکھا تھا کہ ’میری ساری زندگی، اللہ نے ہمیشہ میری رہنمائی کی ہے کہ میں اپنے اصول پر قائم رہوں، میں کسی بھی معاملے میں سیاسی فریق نہ بنوں، اب ایک سال سے زیادہ عرصے سے مجھ پر سمجھوتا کرنے کے لیے بہت دباؤ ہے، لیکن میں کبھی کسی کو اجازت نہیں دوں گا کہ وہ مجھے سیاسی مقاصد کے لیے پیادے کے طور پر استعمال کرے۔‘
انھوں نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ ’پاکستان میں جدید ترین پراجیکٹس متعارف کروانے پر مجھے اور میرے کاروبار کو ہمیشہ نشانہ بنایا گیا۔ 1996 سے آج تک ملک کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی سزا بھگت رہا ہوں، میں نے ماضی میں اس طرح کے دباؤ کا پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ سامنا کیا ہے، آج بھی، ذاتی حیثیت میں، میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ’اوور مائی ڈیڈ باڈی۔‘
ملک ریاض کا کہنا تھا کہ ’اپنی بیمار حالت اور پریشانی کے باوجود، میں اللہ کی مدد سے اس مصیبت کا سامنا کرنے کے لیے ثابت قدم ہوں، روزانہ مالیاتی کاروباری نقصان برداشت کر رہا ہوں اور پوری طرح دیوار سے دھکیلا دیا جا رہا ہوں، لیکن کسی دباؤ کے ہتھکنڈوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گا، اللہ عزت کے ساتھ اس مشکل دور میں میری رہنمائی اور مدد کرے گا۔‘
ملک ریاض نے اپنے پیغام میں یہ واضح نہیں کیا کہ کون اُن پر دباؤ ڈال رہا ہے اور کس سمجھوتے کے لیے انھیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
تاہم بی بی سی نے اس متعلق مزید جاننے کے لیے جب ان سے رابطہ کیا گیا تو بتایا گیا کہ اس سے متعلق مؤقف ترجمان بحریہ ٹاؤن کی جانب سے دیا جائے گا۔
ترجمان بحریہ ٹاؤن نے بی بی سی کے سوالوں پر مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ وہ (ملک ریاض) اپنے وکیل کے مشورے کے بغیر کسی سوال کا جواب دینا مناسب نہیں سجھتے۔
تاہم مزید کہا گیا کہ ان کے ایکس پر بیان کی ’وضاحت کی ضرورت نہیں‘ ہے۔ ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ موجودہ حالات میں ’نہ صرف میرا کاروبار تباہ کیا جا رہا ہے بلکہ پاکستان میں رئیل اسٹیٹ اور ڈویلمپنٹ سیکٹر کو بھی برباد کیا جا رہا ہے۔‘
پی ٹی آئی ملک ریاض کی حمایت کیوں کر رہی ہے؟
بی بی سی نے جب ملک ریاض کے بیان پر پی ٹی آئی کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا تو ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں اپنا تفصیلی بیان جاری کر چکے ہیں جس کے مطابق پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ’دو سال قبل حکومت کی تبدیلی کے ذریعے عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کے بعد سے ملک ایک آدمی کی بدترین آمریت کے دور کا سامنا کر رہا ہے۔‘
انھوں نے القادر ٹرسٹ کیس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اسی جبر کے تحت پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس سمیت تقریباً 203 جھوٹے، بوگس اور سیاسی مقاصد پر مبنی مقدمات قائم کیے گئے۔‘
رؤف حسن نے کہا کہ ملک ریاض کا جاری کردہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ ’عمران خان کے خلاف الزامات لگانے کے لیے نہ صرف سیاست دان بلکہ ججز، صحافی، وکلا، تاجر اور تاجر اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کمزور ہوتی ہوئی ہائبرڈ حکومت کو آکسیجن فراہم کرنے کے لیے یہ ایک معمول بن گیا ہے کہ ہر کسی کو دھونس اور جبر کے ذریعے ماننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
رؤف حسن نے گذشتہ روز جاری اپنے بیان میں کہا تھا کہ دنیا میں جبر کا کوئی بھی نظام زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا، کیونکہ اس کا ٹوٹنا لازم ہے چاہے کوئی اس کو بچانے کی کتنی ہی کوشش کرے، حکومت کے اندر واضح دراڑیں اس کے آنے والے خاتمے کی علامت ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل سابق صدر عارف علوی نے بھی ملک ریاض کی ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’پریشر کُکر کسی بھی دن پھٹ جائے گا اور اُن لوگوں کو جن کا اقتدار پر جھوٹا، غاصبانہ اور ظالمانہ قبضہ ہے، جُھلسا کر رکھ دے گا۔‘
سابق صدر کا مزید کہنا تھا کہ ’بھاگنے والے راہ فرار اختیار کریں گے، وہ جنھوں نے بیرون ملک راستے ہموار کیے ہوئے ہیں اور ہمارا لوٹا ہوا مال و دولت سب باہر رکھا ہوا ہے۔ ہم وفادار پاکستانی جنھوں نے اپنے ملک میں جینے اور مرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے، ہم بھی دیکھیں گے کہ کہاں جایئں گے۔ اللہ ایسے لوگوں پر دنیا بھی تنگ کرتا ہے۔‘
حکومت کا ملک ریاض پر ’جوابی وار‘
ملک ریاض کی جانب سے ’سیاسی مقاصد کے لیے دباؤ سے متعلق بیان پر ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ ملک ریاض پر کوئی دباؤ ہے، وہ ایک مقدمے میں ملزم ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ 190 ملین پاؤنڈ کے کیس میں بیرون ملک بیٹھ کر بات نہیں ہو سکتی اور گذشتہ ڈیڑھ، دو برس سے اس مقدمے کا آپ (ملک ریاض) حصہ ہی نہیں ہیں، آپ مفرور اور اشتہاری قرار دیے جا چکے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’جب آپ مقدمے کی کارروائی کا حصہ ہی نہیں تو آپ پر کس بات کا دباؤ۔۔۔ آپ کو چاہیے تھا کہ آپ عدالت میں آ کر پیش ہوتے اور کہتے میرے ہاتھ صاف ہیں، یہ ثبوت ہیں اور میں بے گناہ ہوں۔‘
وزیر اطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے کیونکہ نہ وہ خود پیش ہوئے نہ خاندان کا کوئی فرد پیش ہوا اور نہ ہی دیگر شریک ملزمان پیش ہوئے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ ’دباؤ تو اُس پر ڈالا جاتا ہے جو مقدمے کی کارروائی کا حصہ ہوتا ہے۔‘ انھوں نے ملک ریاض پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر وہ وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے دباؤ ڈالنے کا کہہ رہے ہیں تو وہ تو عدالت میں پیش ہی نہیں ہوئے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’190 ملین پاؤنڈ کا کیس پاکستان میں کرپشن کے بڑے مقدمات میں سے ایک ہے اور اس پر عدالت نے کہا کہ اس معاملے پر بے ضابطگیاں تھیں۔ اس مقدمے کا ٹرائل چلنا ہے مگر کیونکہ ملک ریاض کے پاس پیسہ ہے، اثر و رسوخ ہے اس لیے مقدمے کو چلنے نہیں دیا جا رہا۔‘
عطا اللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ ’میں تو یہ کہوں گا کہ دباؤ ملک ریاض کی جانب سے ڈالا جا رہا ہے۔ ‘
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر ’آمریت‘ کے الزام پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ’اگر ایک سیاسی جماعت کو پراپرٹی ٹائیکون کی ترجمانی کی ضرورت پڑ گئی ہے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کرپشن کے معاملے میں ان کی ملی بھگت تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ ملک ریاض سمجھتے ہیں کہ انھیں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا اب وہ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر اس قوم کے لوٹے پیسے پر وضاحتیں دے رہی ہے اور یہ سیاسی جماعت ان کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے۔
القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض کا مبینہ کردار کیا ہے؟
القادر ٹرسٹ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو ملک ریاض کی کمپنی بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔
پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کی جو 190ملین پاؤنڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔‘
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نے مارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔
جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔
جون 2022 میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔
اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط موجود تھے۔
قومی احتساب بیورو نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر سینکڑوں کنال اراضی سے متعلق انکوائری کو باقاعدہ تحقیقات میں تبدیل کیا ہے۔
نیب کے حکام اس سے قبل اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور برطانیہ سے موصول ہونے والے جرائم کی رقم کی وصولی کے عمل کی انکوائری کر رہا تھا۔
190 ملین پاؤنڈ یعنی القادر ٹرسٹ کیس سے متعلق قومی احتساب بیورو کی پراسیکوشن ٹیم کے مطابق اب تک اس مقدمے میں 30 گواہان کے بیانات ریکارڈ ہو چکے ہیں جبکہ 21 گواہان پر جرح کا عمل بھی مکمل ہو چکا ہے۔
اس مقدمے میں پراسیکوشن کے گواہان کی تعداد 56 ہے تاہم پراسیکوشن کی ٹیم اس میں گواہان کی تعداد کم کرنے کے بارے میں سوچ بچار کر رہی ہے۔ نیب کی پراسیکوشن ٹیم کے مطابق بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور ان کے بیٹا علی ریاض، پی ٹی آئی رہنما شہزاد اکبر اور زلفی بخاری اس مقدمے میں اشتہاری ہیں جس کی وجہ سے ان کا معاملہ عمران خان والے کیس سے الگ کر دیا گیا ہے۔
پراسیکوشن ٹیم کے مطابق جب اشتہاری قرار دیے گئے ملزمان ملک واپس اگر خود کو عدالت کے سامنے پیش نہیں کرتے اور عدالت ان کا اشتہاری قرار دیے جانے کا سٹیٹس ختم نہیں کرتی اس وقت تک ان کے خلاف اس ریفرنس میں کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔
پراسیکوشن ٹیم کے مطابق ان ملزمان کے سرنڈر کرنے کے بعد ہی اس ریفرنس میں عدالتی کارروائی کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کی ہائی کورٹ میں القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانتوں کی درخواستوں کی سماعت کے دوران نیب کے وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے 190 ملین پاؤنڈ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں متعقلہ حکام کو حقائق نوٹس میں لائی بغیر جمع کروائے گئے ہیں۔
عدالت نے اس مقدمے میں دونوں ملزمان کی ضمانت منظور کر لی تاہم عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس عدالت میں یہ مقدمہ چل رہا ہے وہ عدالتی ریمارکس سے متاثر نہیں ہو گی۔ احتساب عدالت میں اس مقدمے کی سماعت جس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے اس بارے میں عمران خان نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے متعلقہ عدالت میں درخواست دی ہے جس میں اس مقدمے کی عدالتی کارروائی کو معمول کے مطابق چلانے کی استدعا کی ہے جس پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے۔