ترقی یافتہ ممالک کاماڈل کیا ہے؟
دنیا کے بارے میں تو اندازہ لگانا مشکل ہے، البتہ پاکستان میں اگر کوئی سروے ہو جس میں پوچھا جائےکہ لوگ ایک دوسرے سے سب سے زیادہ سوال کیا کرتے ہیں تو ’ہور کی حال اے‘ کے بعد دوسرا سوال ہوگاکہ ’پاکستان کا کیا بنے گا‘! یہی سوال بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی پوچھتے ہیں، اور ساتھ ہی ایک ضمنی سوال بھی داغ دیتے ہیں کہ پاکستان کا نظام کب اور کیسے ٹھیک ہوگا ، نیز اِس نظام کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے۔ یہ سوالات پوچھنے والوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو ملک (برطانیہ نہیں ، پاکستان ) میں اسلامی نظام کے داعی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام نافذ ہوجائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کچھ سال پہلے ایسے ہی ایک صاحب نے ایک کالم نگار کو نہایت پُر سوز قسم کا خط لکھا جس میں انہوں نے رونا رویا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا جہاں شرعی نظام نافذ ہونا تھا، انہوں نے کئی برس تک انتظار کیا کہ کاش وہ اسلامی نظام آ جائے، مگر جب بالکل مایوس ہو گئے تو بالآخر برطانیہ ہجرت کر لی۔ ممکن ہے یہ ’پنچ لائن‘ پڑھ کر آپ حیران ہوئے ہوں کہ برطانیہ میں کون سی شریعت نافذ ہے جو موصوف وہاں نقل مکانی کر گئے، مگر اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں، یہی ہمارا عمومی رویہ ہے، اردو زبان میں اِس کے لیے منافقت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے! خیر ، اصل سوال وہی ہے کہ ہم ستتر برسوں میں ایسا نظام وضع کیوں نہیں کر سکے جس کا قصیدہ ہم اِن ممالک کے سفر کے بعد بیان کرتے ہیں!
لندن میں رہنے والوں کی آدھی زندگی گاڑی کی پارکنگ تلاش کرنے میں گزر جاتی ہے مگر وہاں کوئی چوں نہیں کرتا۔ کیوں؟ اِس لیے کہ انہیں علم ہے کہ اگر انہوں نے گاڑی غلط جگہ کھڑی کی تو نہ صرف بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا بلکہ بار بار یہ بیہودہ حرکت کرنے کی پاداش میں اُن کا لائسنس بھی منسوخ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح کھانے پینے کے کاروبار پر بھی بے حد سختی ہے، ریستوران ہوں یا کیفے، ایسی تمام جگہوں پر غیر علانیہ چھاپے مارے جاتے ہیں کہ کھانے پینے کی جو اشیا فروخت کی جا رہی ہیں وہ خالص ہیں یا نہیں، صفائی ستھرائی کا معیار کیسا ہے، کوئی ایسی چیز تو نہیں بیچی جا رہی جس کی ممانعت ہے۔ تمام جگہوں پر علانیہ لکھا ہوتا ہے کہ جو چیز ہم فروخت کر رہے ہیں اُس میں فلاں فلاں اجزا شامل ہیں، اگر آپ کو کسی چیز سے الرجی ہے تو از راہِ مہربانی مطلع فرما دیجیے۔ گھروں کی تعمیر کے حوالے سے بھی کسی کی جرات نہیں کہ ایک انچ بھی آگے پیچھے ہو جائے، اگر قانون کہتا ہے کہ گھر کا بیرونی روغن مخصوص رنگ کا ہو گا تو وہی رنگ استعمال ہو گا، ورنہ بھاری جرمانے کے لیے تیار رہیں۔ ناجائز تعمیرات اور تجاوزات کا کوئی تصور ہی نہیں۔ مثالیں تو بے شمار دی جاسکتی ہیں لیکن اصل سوال وہی ہے کہ اِن قوانین کا اطلاق کیسے ممکن بنایا جائے!
بظاہر یہ کام آسان لگتے ہیں، میرے جیسا کوئی ارسطو کہہ سکتا ہے کہ حکومت کوچاہیے کہ جو شخص بھی اِس قسم کے غیر قانونی کاموں کا مرتکب پایا جائے اُس کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے، ریستوران کو سر بَمُہر کر دیا جائے اور ناجائز تجاوزات کو روند کر رکھ دیا جائے انگریزی میں اِسے کہتے ہیں ’Easier said than done‘۔ لیکن کہیں سے شروعات تو بہرحال کرنی پڑیں گی اور اُس کے لیے ترقی یافتہ ممالک کا ماڈل ہی سامنے رکھنا پڑے گا۔ اِس ماڈل کی تین خصوصیات ہیں۔ پہلی، ہر بات کو قانون کی عملداری سے مشروط کر دیا جائے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ شہری کو یہ علم ہو کہ اگر اُس نے کسی قانون کی پابندی نہ کی تو اُ س کی پاداش میں کیا کیا نقصان ہو سکتا ہے، اِس کی بہترین مثال ’نان فائلر‘ کی ہے۔ حالیہ چند برسوں میں اُن لوگوں کے لیے ٹیکس کی شرح دو سے تین گنا تک بڑھا دی گئی ہے جو اپنے گوشوارے جمع نہیں کرواتے۔ یہی کلیہ دیگر جگہوں پر بھی آزمایا جا سکتا ہے۔ مثلاً ٹریفک کی مسلسل خلاف ورزیاں کرنے پر جرمانے کی شرح اتنی بڑھا دی جائے کہ گاڑی فروخت کرتے وقت جب یہ جرمانے ادا کرنے پڑیں تو بندے کے چودہ طبق روشن ہو جائیں۔ اِس ماڈل کی دوسری اور سب سے اہم خصوصیت اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہے۔ اِس نظام کا نفاذ اُس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک مقامی حکومت کے پاس وہ اختیار نہیں ہو گا جو صوبے کے وزیر اعلیٰ کے پاس ہوتا ہے۔ بارہ کروڑ آبادی کے صوبے پنجاب کی تحصیل تاندلیانوالہ کے کسی محلے کی نالی پکی کروانے کی اجازت بھی وزیر اعلیٰ کے دفتر سے لینی پڑتی ہے۔ ایسے دنیا کا کوئی نظام نہیں چل سکتا۔ ترقی یافتہ ممالک نے سوائے دو چار وفاقی نوعیت کے تمام اختیارات ضلعی اور مقامی حکومتوں کو تفویض کر رکھے ہیں، چھوٹی سے چھوٹی تحصیل اور یونین کونسل بھی اپنے ٹیکس عائد کرتی ہے، قوانین بناتی ہے اور اُن پر عمل درآمد کرواتی ہے۔ اِس ماڈل کی تیسری خصوصیت اختیار کا بلا خوف استعمال ہے۔ ضلعی افسر، محکمے کا سربراہ یا علاقے کا مئیر، اپنے دائرہ کار میں مختار کُل ہے، اسے کسی نیب یا ایف آئی اے کو جوابدہی نہیں کرنی، اگر وہ سمجھتا ہے کہ کوئی چیز خریدنی ضروری ہے تو وہ بلا خوف و خطر بہترین چیز خریدے گا، لیکن اِس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عوام کے ٹیکس کا پیسہ اجاڑ سکتا ہے، اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسے سیاسی احتساب کا خوف نہیں ہوتا اور وہ بلا جھجک اپنا اختیار استعمال کر کے سرعت سے کام کر سکتا ہے۔ مانچسٹر میں محمود اصغر چوہدری نے ہمیں بتایا کہ جب وہ اٹلی کے محکمہ امیگریشن میں کام کرتے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں لوگوں کو دفاتر میں طویل انتظار کرنا پڑتا ہے، اِس مسئلے کے حل کے لیے انہوں نے ڈٰیجیٹائزیشن کا عمل شروع کیا اور چند مشینیں خریدیں، میں نے سوال کیا کہ یہ مشینیں خریدنے میں انہیں کتنے ماہ لگے۔ انہوں نے کہا کہ صرف چند دن اور پھر حیرت سے پوچھا کہ میں نے کیسے سوچ لیا کہ اِس معمولی کام میں مہینوں لگیں گے۔ جواب میں فدوی نے انہیں غالب کا شعر سنایا کہ ’قاصد کے آتے آتے خط اِک اور لکھ رکھوں، میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں۔‘ پاکستان کے اہلِ نظر سرکاری افسر جانتے ہیں کہ یہ شعر کس قدر حسبِ حال ہے لہذا شانِ نزول بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔