دنیابھرسے

پاکستانی فری لانسر، مالی لالچ اور جھوٹ: برطانیہ میں ’انتہاپسندوں کا ہتھیار‘ بننے والی ویب سائٹ کی کہانی

Share

پاکستان کے شہر لاہور میں رہنے والے ایک باپ، نووا سکوٹیا کے ایک ہاکی کھلاڑی اور امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے رہائشی کیون میں کیا چیز مشترک ہو سکتی ہے؟

ان سب کا تعلق چینل 3 ناؤ نامی اس ویب سائٹ سے ہے جس کی خبر میں برطانیہ کے ساؤتھ پورٹ شہر میں تین بچیوں کے 17 سالہ قاتل کا جھوٹا نام سوشل میڈیا پر پھیلنے کے بعد انتہا پسندوں کے ہنگاموں کا آغاز ہوا۔ اسی ویب سائٹ نے یہ غلط دعوی بھی کیا تھا کہ حملہ آور پناہ گزین ہے جو ایک سال قبل غیر قانونی طریقے سے کشتی کے ذریعے برطانیہ پہنچا تھا۔

دیگر ذرائع سے ایسی غلط اطلاعات کہ حملہ آور مسلمان تھا بھی ہنگاموں کی وجہ بنیں جن کے دوران مسلمان آبادی سمیت مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ برطانیہ میں فسادات اور پر تشدد مظاہروں کا حالیہ سلسلہ تب شروع ہوا جب 29 جولائی کو برطانیہ کے شمال مغرب ميں واقع شہر ساؤتھ پورٹ ميں چاقو سے کیے گئے ایک حملے میں تین بچیاں ہلاک ہو گئیں تھیں۔

بی بی سی نے اس ویب سائٹ سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد کی نشان دہی کرنے کے بعد ان کے دوستوں اور ساتھیوں سے بات کی اور اس بات کی تصدیق کی کہ یہ افراد حقیقت میں وجود رکھتے ہیں۔

مجھے علم ہوا کہ یہ ویب سائٹ دراصل سوشل میڈیا کے ذریعے پیسہ بنانے کے لیے جرائم کی خبروں کا سہارا لیتی ہے اور مجھے ایسے شواہد بھی نہیں ملے کہ ویب سائٹ پر غلط معلومات کا روس سے کوئی تعلق ہے۔

ایک شخص، جس نے اس ویب سائٹ کی انتظامیہ کا حصہ ہونے کا دعوی کیا، نے مجھے بتایا کہ حملہ آور کا غلط نام نہیں چھپنا چاہیے تھا لیکن ’ایسا سوچ سمجھ کر نہیں کیا گیا بلکہ یہ ایک غلطی تھی۔‘

واضح رہے کہ اس خبر کو کس نے تحریر کیا، یہ بھی واضح نہیں کیوں کہ اس پر کسی مصنف کا نام نہیں لکھا ہوا۔

تاہم مجھے ایک اور خبر پر نووا سکوٹیا کے ہاکی کھلاڑی جیمز کا نام اور تصویر ملی جس کے بعد فیس بک پر ان کا اکاوئنٹ تلاش کیا گیا جہاں ان کے چار آن لائن دوستوں میں سے ایک کا نام فرحان تھا۔ فرحان کے فیس بک اکاوئنٹ کے مطابق وہ اس ویب سائٹ، چینل 3 ناؤ کے لیے بطور صحافی کام کرتے ہیں۔

جیمز سے رابطہ نہ ہونے پر ان کے دوستوں کو پیغامات بھیجے گئے جن میں سے ایک نے تصدیق کی کہ جیمز ایک حقیقی فرد ہیں۔ معلوم ہوا کہ جیمز واقعی اس ویب سائٹ سے منسلک ہیں لیکن چند اور سوالوں کے بعد ان کے اس دوست نے جواب دینا چھوڑ دیا۔

پھر ہم نے فرحان کی تلاش شروع کی اور ان کے متعدد سابقہ ساتھیوں، جن میں سے اکثریت پاکستان میں ہی رہائش پذیر ہیں، نے ان کی شناخت کی تصدیق کی۔ تاہم واضح رہے کہ متعلقہ جھوٹی خبر میں فرحان کا نام کہیں موجود نہیں ہے۔

میں نے فرحان کو سوشل میڈیا کی مدد سے ہی پیغام بھیجا تو انھوں نے مجھے انسٹاگرام پر بلاک کر دیا۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد مجھے چینل 3 ناؤ کے ای میل اکاوئنٹ سے جواب موصول ہو گیا۔

رابطہ کرنے والے شخص نے اپنا نام ’کیون‘ بتایا اور کہا کہ وہ ٹیکساس میں رہتا ہے لیکن اس نے پورا نام بتانے سے انکار کیا۔ ایسے میں یہ کہنا مشکل تھا کہ کیون کون ہے لیکن اس نے ای میل پر سوالوں کے جواب دینے کی حامی بھری۔

کیون نے دعوی کیا کہ وہ ویب سائٹ کے مرکزی دفتر سے بات کر رہا ہے جو امریکہ میں ہی واقع ہے۔ پہلے اس نے مدیر ہونے کا دعوی کیا لیکن پھر کہا کہ وہ خبروں کی تصدیق کرنے والا پروڈیوسر ہے۔

کیون نے ویب سائٹ کے اصلی مالک کا نام بتانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ’انھیں اپنے علاوہ تمام کام کرنے والوں کی بھی فکر ہے۔‘ کیون کے مطابق اس ویب سائٹ کے لیے پاکستان، انڈیا، امریکہ اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے تیس سے زیادہ لوگ کام کرتے ہیں جن کی خدمات فری لانسر ویب سائٹ کی مدد سے حاصل کی گئیں۔

ان میں لاہور کے فرحان بھی شامل ہیں۔ تاہم کیون نے اس خبر میں غلطی کی ذمہ داری برطانیہ میں موجود ٹیم کے اراکین پر عائد کی۔

بی بی سی
،تصویر کا کیپشنچینل 3 ناؤ نے بعد میں معافی مانگی تھی

چینل 3 ناؤ کے جھوٹے دعووں کے بعد اس پر روس کی ریاست سے منسلک ہونے کا الزام بھی لگا تھا لیکن کیون کا دعوی ہے کہ یہ ویب سائٹ پہلے ایک روسی زبان کا چینل ہوا کرتا تھا جس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل اس چینل پر پاکستان سے متلقہ مواد شائع ہونے لگا تھا جہاں فرحان رہتے ہیں اور خود ویب سائٹ کے مطابق اس کے لیے کام کرنے والوں کا بھی پاکستان سے تعلق ہے۔

کیون کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم نے کسی روسی شخص سے چینل خریدا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارا کسی سے تعلق ہے، ہم خودمختار ڈیجیٹل میڈیا ہیں جو دنیا بھر کی خبریں شائع کرتے ہیں۔‘

’زیادہ سے زیادہ خبریں‘

کیون کا کہنا ہے کہ ان کی ویب سائٹ کمرشل ہے جو پیسہ کمانے کے لیے زیادہ سے زیادہ خبریں شائع کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس ویب سائٹ پر موجود زیادہ خبروں کا بظاہر حوالہ مصدقہ ذرائع سے ہی لیا گیا جو امریکہ میں ہونے والے جرائم اور ٹریفک حادثات کے بارے میں تھیں۔

تاہم ویب سائٹ نے ساؤتھ پورٹ کے حملہ آور سمیت ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی کوشش کرنے والے شخص کے بارے میں بھی غلط اور جھوٹی معلومات شائع کی ہیں۔

ساؤتھ پورٹ کی خبر شائع کرنے کے بعد کیون کے مطابق ویب سائٹ کا یو ٹیوب چینل اور متعدد فیس بک پیج معطل ہو چکے ہیں تاہم ایکس اکاوئنٹ فعال ہے۔

کیون کا کہنا ہے کہ ساؤتھ پورٹ واقعے کے بعد ہنگاموں اور سوشل میڈیا پر آنے والے طوفان کی ذمہ داری ’صرف ایک چھوٹے سے ایکس اکاوئنٹ پر عائد نہیں کی جا سکتی‘۔ کسی حد تک ان کی بات درست بھی ہے لیکن ان کی غلط خبر جھوٹی افواہیں پھیلانے والوں کا ذریعہ ضرور بنی۔

ایسی ہی افواہ پھیلانے والی ایک خاتون کا نام برنیڈیٹ سپوفورتھ ہے جن پر الزام ہے کہ انھوں نے وہ پہلی سوشل میڈیا پوسٹ لگائی جس میں ساؤتھ پورٹ کے حملہ آور کا غلط نام استعمال کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے یہ نام ایک اور پوسٹ میں دیکھا تھا جو اب ڈیلیٹ کر دی گئی ہے۔

بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ ساؤتھ پورٹ میں قتل کی واردات سے ہل کر رہ گئی تھیں لیکن انھوں نے اپنی پوسٹ کو اس وقت ڈیلیٹ کر دیا تھا جب انھیں معلوم ہوا کہ یہ جھوٹ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے لیے سوشل میڈیا پیسے کمانے کا ذریعہ نہیں ہے۔

’میں ایسی کوئی چیز کیوں خود سے گھڑوں گی؟ مجھے کچھ نہیں ملنا بلکہ نقصان ہی ہوتا۔‘ انھوں نے برطانیہ میں ہونے والے پرتشدد ہنگاموں کی مذمت بھی کی ہے۔

2021 میں ان کا اکاوئنٹ ٹوئٹر نے اس وقت عارضی طور پر ہٹا دیا تھا جب ان پر کورونا وبا کے دوران ویکیسن اور وبا دونوں کے بارے میں غلط معلومات پھیلانے کا الزام لگا۔

وہ ان الزامات سے بھی انکار کرتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کورونا وبا ایک حقیقت تھی۔

تاہم ساؤتھ پورٹ کے حملہ آور کے بارے میں ان کی پوسٹ کو تیزی سے شیئر کیا گیا اور سازشی نظریات پھیلانے والے ایک گروپ سمیت کئی ایسے افراد نے اسے مذید پھیلانے میں کردار ادا کیا جو انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھتے ہیں اور پناہ گزین مخالف سوچ کے حامل ہیں۔

ان میں سے بہت سے افراد ایکس سے وہ نیلے رنگ کا نشان خرید چکے ہیں جو ان کی شائع کردہ پوسٹ کو اہمیت دیتا ہے۔ ایلون مسک نے ٹوئٹر کو خریدنے کے بعد اس کا نام ’ایکس‘ رکھ دیا تھا اور بہت سی تبدیلیاں کی تھیں جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایسے خیالات کا پرچار منافع بخش بن گیا۔

بی بی سی
،تصویر کا کیپشنایک شخص، جس نے اس ویب سائٹ کی انتظامیہ کا حصہ ہونے کا دعوی کیا، نے مجھے بتایا کہ حملہ آور کا غلط نام نہیں چھپنا چاہیے تھا لیکن ’ایسا سوچ سمجھ کر نہیں کیا گیا بلکہ یہ ایک غلطی تھی‘

لاکھوں صارفین

ایسے ہی کئی سوشل میڈیا پروفائل گزشتہ ایک ہفتے میں ساؤتھ پورٹ واقعے اور اس کے بعد فسادات کے بارے میں معلومات کی مدد سے اپنے صارفین کی تعداد کو لاکھوں تک پہنچا چکے ہیں۔

ایکس پر اشتہارات کے ذریعے آمدن کی پالیسی کے تحت ’بلو ٹک‘ والے صارفین بھی اس کا ایک حصہ حاصل کرنے کے حقدار ہوتے ہیں۔

تقریبا پانچ لاکھ صارفین یا فالوورز رکھنے والے لوگوں کے مطابق اگر ان کا مواد 10 لاکھ لوگ دیکھیں تو وہ صرف اس پوسٹ سے 10 سے 20 ڈالر کما لیتے ہیں۔ ایسے میں بہت سے لوگ جو غلط معلومات پھیلا رہے ہیں، ان کی ہر انفرادی پوسٹ کو دیکھنے والوں کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ تھی جس کو کئی بار شیئر بھی کیا گیا۔

ایکس کے علاوہ دیگر کمپنیاں بھی صارفین کو پیسہ کمانے کا موقع دیتی ہیں لیکن یو ٹیوب، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام سمیت فیس بک نے ماضی میں ایسے اکاوئنٹس کو معطل کیا ہے یا ان کی آمدن کو روکا ہے جو غلط معلومات کے بارے میں ان کے ضابطوں کی خاف ورزی کرتے ہیں۔ ایکس نے اب تک ایسے کوئی ضوابط نہیں بنائے۔

برطانوی سیاست دانوں کی جانب سے ہنگاموں کے بعد سوشل میڈیا کمپنیوں سے مطالبات کیے جا رہے ہیں کہ وہ قوانین کو سخت بنائیں لیکن حال ہی میں متعارف کروایا جانے والا آن لائن سیفٹی بل غلط معلومات پر خاموش ہے جس کی وجہ آزادی اظہار رائے پر ممکنہ قدغنوں کا خدشہ ہے۔

اس کے علاوہ جیسا کہ مجھے بھی علم ہوا کہ چینل 3 ناؤ کے لیے کام کرنے والے اور غلط معلومات شائع کرنے والے بیرون ملک مقیم ہیں تو ان کے خلاف کارروائی کرنا بہت پیچیدہ معاملہ ہے۔

ایسے مواد کا مقابلہ صرف سوشل میڈیا کمپنیاں ہی کر سکتی ہیں۔ ایکس نے بی بی سی کی جانب سے موقف دینے کی درخواست پر جواب نہیں دیا۔