چودھریوں کا چھپا دشمن؟
سیاست ہو یا وبا، ہم پنگے لینے سے باز نہیں آتے۔ کورونا کی وبا اچھی خاصی قابو میں تھی مگر ہم نے عید کے دنوں میں پنگا لے کر لاک ڈائون کھولنے کا تجربہ کر لیا، اب یہ بےقابو ہے۔ مجھےکرونا کا شکار ہوئے آٹھ دن ہو گئے بخار چڑھتا رہا، اُترتا رہا۔ اب کورونا علامات کم ہو رہی ہیں۔ گھر میں قرنطینہ میںہوں اور پہلے سے بہتر ہو رہا ہوں۔
دوسری طرف حکومت نے کونے میں بیٹھے دہی کلچہ کھاتے شہباز شریف سے خواہ مخواہ پنگا لے لیا۔ اور یوں ظاہر کردیا کہ شہباز شریف یکتا و تنہا نہیں ہے، وہ لیڈر آف دی اپوزیشن ہے اور اس سے پنگا لیں گے تو اس کے بہت سے چھپے اور ظاہری دوست سامنے آ جائیں گے۔
یہی حال چودھری خاندان کا ہے، وہ مخلوط حکومت میں خاموشی سے وقت گزار رہے ہیں۔ کبھی ان کے خلاف نیب انکوائری کھلنے کی خبر ملتی ہے تو کبھی شوگر انکوائری میں ان کا نام آ جاتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ نیب کی وجہ سے مونس الٰہی وزیر نہیں بن سکتا جبکہ نیب کے دوسرے ملزموں کو گھر سے بلا کر وزارت دے دی جاتی ہے۔ یہ سب پنگے ہیں اور جو بھی پنگے کرتا ہے اسے سیاست میں یہ پنگے مہنگے پڑتے ہیں۔ گزشتہ دنوں چودھری پرویز الٰہی سے تفصیلی انٹرویو کا موقع ملا۔
چودھری خاندان کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر ان کی سیاست میں اہمیت سے انکار ممکن نہیں، وہ عملیت پسندی کی سیاست کرتے ہیں، اپنے اہداف کا خیال رکھتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ وہ پنجاب کی روایتی وضعداری، کھلے پن اور مہمان نوازی کی علامت ہیں۔
سیاست کے ٹھہرے پانیوں میں جب بھی حرکت ہوگی اُس میں لازماً چودھری خاندان کا حصہ ہو گا۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کو سیاست کے ماہ و سال نے کندن بنا دیا ہے۔ کبھی ان میں بغاوت اور جارحیت ہوتی تھی مگر اب تدبر اور حوصلہ مندی نمایاں ہو چکی ہے۔
میں نے پوچھا کہ آخر ان کا چھپا دشمن کون ہے، جو کبھی نیب اور کبھی شوگر اسکینڈل کے ذریعے آپ پر وار کرتا ہے؟ چودھری پرویز الٰہی ہلکا ہلکا مسکراتے رہے اور میرے سوالوں کو ٹالتے رہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ بیورو کریٹ ہے یا کوئی ادارہ ہے؟ ہنس کے جواب دیا نہیں۔
انہیں علم ہے کہ وہ کون ہے مگر ابھی بتائیں گے نہیں اور پھر قہقہہ لگا کر معنی خیز انداز میں کہا ’’وہ عمران خان نہیں ہے‘‘۔ میری آنکھیں ان سے چار ہوئیں، ان کی آنکھوں میں شرارت کی شوخی دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ ابھی وہ اپنے چھپے دشمن کا نام لینا نہیں چاہتے مگر وہ اسے ڈھونڈ چکے ہیں۔
میں چودھری پرویز الٰہی سے یہ بھی جاننا چاہتا تھا کہ وہ ڈپٹی وزیراعظم اور وزیراعلیٰ رہنے کے بعد آخر پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کیوں بنے؟ انہوں نے صاف جواب دیا کہ یہ فیصلہ وزیراعظم عمران کا تھا۔ انہوں نے عمران خان کو اختیار دیا تھا کہ جو وہ کہیں گے ہم بطور اتحادی ویسا ہی کریں گے۔ میں نے شرارتاً کہا کہ نہیں، پنجاب میں تو آپ اس لئے ہیں کہ آپ کی وزارتِ اعلیٰ پر نظر ہے، اسی لئے اسپیکر شپ قبول کر لی۔
چودھری پرویز الٰہی نے سنجیدگی سے کہا اسپیکر شپ تو وزیراعظم کے کہنے پر قبول کی اور پھر ہنس کر مجھے رزاق دائود کے والد سیٹھ دائود کا واقعہ سنایا کہ جونیجو حکومت ختم ہوئی تو چودھری شجاعت کو سیٹھ دائود ملے اور پوچھا کیا کر رہے ہو، انہوں نے کہا ابھی حکومت ختم ہوئی ہے تو سیٹھ دائود نے کہا ’’مارکیٹ میں رہو گے تو دام پڑے گا‘‘، چودھری پرویز الٰہی نے قہقہہ لگا کر کہا گویا ’’ہم مارکیٹ میں تو ہیں‘‘ ۔
پنجاب میں تبدیلی کی افواہیں آتی رہتی ہیں۔ شہباز شریف نے اِس کالم نگار کو بتایا تھا کہ چودھری خاندان سے ان کے اختلافات ختم ہو چکے ہیں، یہی معاملہ میں نے براہِ راست چودھری پرویز الٰہی سے پوچھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا ’’شہباز صاحب کو آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی بہت اچھی طرح جانتا ہوں‘‘ پھر مجھے کہا کہ کس طرح وزیر آباد کا دل اسپتال، پنجاب اسمبلی کی نئی بلڈنگ اور سیالکوٹ موٹر وے میں تاخیر کی گئی۔ مونس پر مقدمات بنائے گئے۔
گفتگو کا ماحصل یہی تھا کہ حالات کچھ بھی ہو سکتے ہیں مگر تاحال چودھریوں اور شریفوں میں پنجاب کی تبدیلی کے حوالے سے کوئی ثمر آور بات نہیں ہوئی، ابھی دھند باقی ہے اور یہ جلدی چھٹنے والی نہیں ہے۔ یہ بات طے ہے کہ اس بار راستہ شریف دیں گے تبھی یہ معاملہ آگے چلے گا۔
مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کے پیچھے چودھری تھے؟ کیا واقعی ترین اور چودھری مل کر پنجاب میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے تھے؟ سازشوں، غلط فہمیوں اور قیاس آرائیوں کے حوالے سے میں نے سوال پوچھا تو چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ ہم نے کبھی کسی اتحادی کے خلاف سازش نہیں کی ہے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر پانچ سال پورے کیے، کبھی سازش نہیں کی، ساتھ کھڑے رہے۔
مولانا فضل الرحمٰن سے مذاکرات حکومت کے کہنے پر کیے۔ جہانگیر ترین تو تحریک انصاف کی طرف سے ہمارے لوگ توڑتے رہے تھے ہاں جب انہیں اپنی ہمشیرہ کے لئے سینیٹ کے ووٹوں کی ضرورت پڑی تو تب وہ مدد کے لئے آئے تھے اور ہم نے مدد کی بھی۔
علیم خان مشکل کے دنوں میں آئےتھے، ان سے بھی تعاون کیا۔ ہم اپنی اتحادی حکومت کے خلاف سازش نہیں کریں گے، اِسے چلائیں گے اور اگر کوئی سازش ہوتی تو اب تک سامنے آ چکی ہوتی۔
چودھری پرویز الٰہی کے مطابق چودھری شجاعت حسین ڈاکٹروں کی ہدایت کے پیش نظر چناب کنارے نت گائوں میں مونس الٰہی کے بنائے گئے فارم ہائوس میں ہیں تاکہ کورونا سے محفوظ رہیں تاہم وہ گاہے گاہے فون کرکے یہ کہتے ہیں کہ حکومت کو خود سے کوئی مشورہ نہ دے دینا۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ حکومت کو مشورے نہیں دیتے؟ چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ سال بھر سے تو اتحادی رہنما سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور مشورہ اسے دیا جاتا ہے جو اس پر عمل کرے جو مشورہ سن کر اس پر شک کرے اسے مشورہ کیا دینا۔ چودھری پرویز الٰہی کو اِدھر اُدھر سے بہت کریدا مگر انہوں نے صاف کہہ دیا ہم حکومت گرانے والوں میں نہیں ہوں گے۔ چودھری پرویز الٰہی سے سیر حاصل گفتگو کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت کے خلاف نہ کوئی سازش ہو رہی ہے نہ کوئی اسے نکالنا ہی چاہتا ہے۔
البتہ اس حکومت کے اپنے پنگے بہت ہیں اگر حکومت کو کوئی خطرہ ہے تو وہ اپنے ہی پنگوں سے ہے۔ ایک طرف حالات یہ ہیں کہ پورے ملک کا ترقیاتی بجٹ بند کر دیا ہے۔ زراعت، سڑکوں کی تعمیر و مرمت اور لائیو اسٹاک تک کے بجٹ واپس لے لئے گئے ہیں جبکہ میانوالی اور راجن پور کے ترقیاتی کام اسی طرح جاری و ساری ہیں۔
82ارب روپے کے پروجیکٹس تو صرف ضلع میانوالی کیلئے مختص ہیں، اتنی رقم سے تو سونے کی سڑکیں اور چاندی کی نہریں بن جانی چاہئیں مگر میانوالی میں ابھی تک ایسے بڑے ترقیاتی منصوبے کی چاپ تک سنائی نہیں دیتی۔
کہتے ہیں ’’ڈنمارک ریاست میں کہیں نہ کہیں خرابی ہے‘‘ کے مصداق موجودہ حکومت کو از سر نو اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ یہ بات طے ہے کہ جس طرح معاملات چل رہے ہیں ایسے نہیں چل سکتے۔ اپوزیشن کے ساتھ یہ رویہ، معاشی بدحالی اور اوپر سے بیڈ گورننس، یہ سب چلنے کے انداز نہیں ہیں۔
توقع یہی کرنی چاہئے کہ شہباز شریف کو کی گئی کال ریاست اور حکومت کے رویے میں نئی تبدیلی کا مظہر ثابت ہوگی اور پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن مل کر ملک کو بحران سے نکالنے کی کوشش کریں گے۔