منتخب تحریریں

پیغام

Share

میں دو بار استنبول جا چکا ہوں۔ خوش قسمتی سے میرا قیام جس ہوٹل میں تھا وہ عین اس جگہ تھا جو میری دلچسپیوں کا مرکز تھا۔ باسفورس، نیلی مسجد، آیا صوفیہ، توپ کاپی محل، گرینڈ بازار اور بہت کچھ۔ نیٹ پر محل وقوع دیکھا تو دیکھے بغیر ہی اس پر دل آ گیا۔ پہلی بار ”بکنگ ڈاٹ کام‘‘ پر ریزرویشن کروائی۔ لکھنے میں اس ہوٹل کا نام ”Cem sultan‘‘ تھا۔ پہلے پہل تو ہم اسے ”سم سلطان‘‘ سمجھے مگر پتا چلا کہ ترکی میں ”C‘‘ ہماری ہاں کی ”ک‘‘ یا ”س‘‘ کی آواز نہیں بلکہ ”ج‘‘ کی آواز دیتا ہے۔ تب کھلا کہ ہوٹل کا نام دراصل جم سلطان ہے۔ یہ سارا علاقہ ”فاتح‘‘ کہلاتا ہے، غالباً (میں اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا) سلطان محمد فاتح کے نام پر ہوگا۔ شہرہ آفاق سلطان احمد مسجد جسے نیلی مسجد بھی کہتے ہیں یہاں سے محض تین منٹ، ایاصوفیہ پانچ منٹ، توپ کاپی سات آٹھ منٹ، باسفورس پانچ منٹ، میٹرو سٹیشن بھی سات منٹ اور ایک چھوٹا سا دستکاری بازار تو صرف ڈیڑھ دو منٹ کی پیدل مسافت پر تھا۔ پہلی بار میرے ساتھ چھوٹے بچے تھے۔ ہوٹل کے منیجر نادر سے کافی واقفیت سی ہو گئی۔ اگلی بار پاکستان سے فون پر براہ راست بکنگ کروا لی۔
دوسری بار ہم سب استنبول گئے تھے۔ منجھلی بیٹی آسٹریلیا سے پاکستان آئی ہوئی تھی۔ میں اور انعم ملتان سے، اگلے روز سارہ اور اسد اسلام آباد سے اور کومل اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ امریکہ سے دوسرے دن استنبول پہنچ گئی۔ سلطان احمد مسجد اور آیاصوفیہ جسے انگریزی میں ”ہیگیا صوفیہ‘‘ لکھتے ہیں بالکل آمنے سامنے ہیں۔ درمیان میں تقریباً اڑھائی سو گز کا فاصلہ ہوگا۔ مسجد کے ساتھ چھوٹا سا پختہ میدان جس میں بیٹھنے کے لیے لکڑی کے بنچ لگے ہوئے ہیں۔ پھر ایک باغیچہ جس کے درمیان بڑا سا فوارہ اور گول تالاب اور پھر آیا صوفیہ کے عین سامنے پتھر کی سلوں والا میدان۔ یہ میدان سیفان کا پسندیدہ ”پلے گرائونڈ‘‘ تھا۔ استنبول میں تب شدید سردی تھی۔ باسفورس سے آنے والی تیز اور ٹھنڈی ہوا گرم لباس کو چیر کر بدن کو یخ بستہ کر دیتی تھی۔ کبھی بارش اور کبھی ہلکی برف باری۔ سیفان بلاناغہ روزانہ ایاصوفیہ والے میدان میں کبوتروں سے کھیلتا تھا۔ دولیرا میں مکئی کا ابلا ہوا بھٹا ملتا تھا۔ سیفان وہ لیتا، انعم سے دانے دانے کرواتا اور کبوتروں کو ڈالتا۔ ان کے پیچھے بھاگتا، انہیں اڑاتا، کبھی انہیں باجرہ خرید کر ڈالتا اور کبھی ڈبل روٹی کے چھوٹے چھوٹے ”بھورے‘‘ کرکے انہیں ڈالتا۔ تب دوسرے روز اندر جانے سے پہلے فوارے والے تالاب کی دیوار پر بیٹھ کر میں نے چاروں بچوں کو آیاصوفیہ کی کہانی سنائی۔ پیلے پتھروں سے بنی ہوئی چار بلندوبالا میناروں اور درمیان میں گنبد والی یہ عمارت 537 عیسوی میں مکمل ہوئی‘ یعنی آج سے قریب ڈیڑھ ہزار سال قبل۔ یہ بازنطینی عیسائیوں کے گرجا کے طور پر تعمیر ہوئی۔ یہ اس طرز تعمیر میں بننے والی اپنی نوعیت کی پہلی عمارت تھی‘ اور اس عمارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے فن تعمیر کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ وقت کے ساتھ یہ بازنطینی گرجا گھر سے گریک آرتھوڈوکس اور پھر رومن کیتھولک چرچ سے ہوتا ہوا 1453 میں مسجد بن گیا۔ شکر ہے تب سوشل میڈیا نہیں تھا وگرنہ لبرل بہت شوروغوغا مچاتے۔
یہ عمارت چار سو بیاسی سال تک اذان کی آواز سے گونجتی رہی اور نمازیوں کے سجدوں سے آراستہ رہی تاوقتیکہ 1931 میں اسے بند کر دیا گیا۔ یہ عمارت چار سال تک بند رہی پھر 1935ء میں اسے جدید سیکولر ترکی کے بانی کمال اتاترک نے معاہدہ بلقان کے پس منظر میں یورپ کو اپنی روشن خیالی کا تاثر دینے کی غرض سے مسجد سے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا۔ کومل کہنے لگی: بابا جان! کیا یورپ پر اس تبدیلی کا کوئی اثر ہوا؟ میں نے کہا: ترکی ایک عرصے تک یورپی یونین میں شمولیت کا خواہشمند بھی رہا اور اس نے ہر وہ کام کیا جس سے یورپ والے خوش ہو سکتے تھے مگر ان کے تعصب کا یہ حال ہے کہ انہوں نے ترکی کی سرتوڑ کوششوں اور سیکولر اقدامات کے باوجود اسے یورپی یونین کا حصہ نہ بنایا۔
اسی اثنا میں ظہر کی اذان شروع ہو گئی۔ یہ ایک عجیب تجربہ تھا۔ تکبیر کی ایک صدا سلطان احمد مسجد کے لائوڈ سپیکر سے آتی تھی اور دوسری آواز آیاصوفیہ کی جانب لگے ہوئے لائوڈ سپیکر سے۔ مجھے اس اسرار کی کوئی سمجھ نہ آئی؛ تاہم ساری اذان اسی طرح دی گئی کہ آدھی تکبیرات، شہادتیں اور دعوتیں ایک طرف سے آتی رہیں اور آدھی دوسری طرف سے۔ اذان ختم ہوئی تو کومل نے پوچھا: یہ چاروں مینار کلیسا کا حصہ تھے؟ میں نے کہا: نہیں یہ بعد کا اضافہ ہیں۔ یہ مینار معمار سنان نے ڈیزائن کیے۔ یہ وہی معمار سنان ہے جس کا مقبرہ کل گرینڈ بازار جاتے ہوئے راستے میں دیکھا تھا۔ یہ چار مینار، منبر اور محراب بعد میں بنائے گئے۔ اسی طرح اس کلیسا کی گھنٹی، آلٹر، بپتسمے کا ظرف اور دیگر ضروری مذہبی اشیا استنبول کے کیتھڈرل ”چرچ آف دی ہولی اپوسٹلز‘‘ کو دے دی گئیں۔ میں نے کہا: ممکن ہے ہم آج اسے عجائب گھر کے طور پر آخری بار دیکھیں۔ وہ کیسے؟ سارہ نے حیرانی سے سوال کیا۔ میں نے کہا: ممکن ہے اگلی بار آئیں تو یہاں نماز پڑھیں‘ ویسے نماز تو اس کے اندر اب بھی کسی جگہ پڑھی جا سکتی ہے مگر میں باجماعت نماز کی بات کر رہا ہوں۔ اس عمارت میں بطور مسجد نماز کی ادائیگی کرنے کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔ سارہ کہنے لگی: اگر اس عمارت کو مسجد بنا دیا گیا تو اس کا باقی دنیا پر کیا اثر پڑے گا؟ ہم مسلمان غیر مسلموں کو کس قسم کا پیغام دیں گے؟ میں نے کہا: ویسا ہی پیغام جیسا قرطبہ میں دس پندرہ سال قبل ایک عالمی خواتین کانفرنس کی مسلمان خواتین شرکا نے مسجد قرطبہ میں نماز ادا کرنے کی کوشش کی تھی تو پولیس والوں نے ان پر دوران نماز لاٹھی چارج کرکے دیاتھا۔ ویسا ہی پیغام جیسا یورپ کے کئی روشن خیال ملکوں نے مسجدوں کا مینار بنانے پر پابندی لگا کردیا ہے۔ ویسا ہی پیغام جیسا مغرب کے بہت سے ممالک نے حجاب پر پابندی لگا کر دیا ہے۔ اب یہ کلیسا تو نہیں ہے بلکہ عجائب گھر ہے۔ ترکی کی مرضی اسے اب وہ دوبارہ مسجد بنائے یا عجائب گھر رہنے دے۔ کلیسا کا مسئلہ تو 1453ء میں ختم ہو گیا تھا۔ اسد نے پوچھا: یہ دوبارہ مسجد کیسے بنے گا؟ میں نے کہا: جیسے یہ 1935ء میں مسجد سے عجائب گھر بنا تھا‘ اب ویسے ہی عجائب گھر سے مسجد بن سکتا ہے۔ تب ترکی پر سیکولر اتاترک حکمران تھا‘ اب اسلام پسند اردوان ہے۔ ایسی تبدیلیاں اپنے ساتھ اور بہت سی تبدیلیاں لاتی ہیں۔ یہ اب عجائب گھر اور مسجد کے درمیان معاملہ ہے۔ کلیسا والا باب تو بند ہوچکا ہے۔ کبھی کبھی شاید قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ یہ 2018ء کی جنوری کی ایک سرد دوپہر کی بات ہے۔
اس بات کے محض اڑھائی سال بعد ایاصوفیہ عجائب گھر اب آیاصوفیہ مسجد میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اگلی بار ترکی گیا تو مسجد آیاصوفیہ میں نماز ادا کروں گا؛ تاہم مجھے پریشانی صرف اس بات کی ہے کہ آخر ہم پاکستانی ہر بات کو کفر اور اسلام کی جنگ کیوں بنا دیتے ہیں اور یہ بھی کہ ہمارا لبرل طبقہ بابری مسجد کی شہادت پر منہ میں گھنگھنیاں ڈال کر بیٹھا رہتا ہے۔ یورپ میں مسجد کے مینار پر پابندی کو ان ممالک کا اندرونی معاملہ کہتا ہے۔ حجاب پر پابندی کو لاء آف دی لینڈ کہتا ہے لیکن ترکی کے اندرونی معاملے اور عدالتی فیصلے پر اس کے پیٹ میں شدید مروڑ اٹھتے ہیں اور وہ باقی دنیاکو دیئے گئے پیغام پر کہرام مچا دیتا ہے۔ اب کسی کو کسی کے پیغام کی نہ کوئی پروا ہے اور نہ ہی کوئی احترام۔ اگر ٹکٹ خرید کر دیکھے گئے سیاحتی مقام ”مزکیتا کیتھڈرل‘‘ (مسجد قرطبہ) میں کوئی سیاح نماز نہیں پڑھ سکتا اور دنیاکو کوئی پیغام نہیں ملتا تو ایسی دنیا پر چار حرف جو عجائب گھر کے مسجد میں تبدیل ہونے پر اپنی مرضی کے کسی پیغام کی منتظر ہے۔