منتخب تحریریں

دو ہزار سال پرانا اچھرہ!

Share

میری بینائی اب اتنی اچھی نہیں جتنی کبھی ہوتی تھی اب روزانہ صرف آٹھ نو صفحات کی کتاب پڑھ سکتا ہوں بس کمزور دل حضرات میرے اس جملے کو سیریس نہ لیں مثلاً میں نے آج ہی کامریڈ تنویر احمد خاں کی ساڑھے پانچ سو صفحات پر مشتمل کتاب ’’دوہزار سال پرانا شہر اچھرہ ‘‘ختم کی ہے ،کتاب کیا ہے جب آپ لوگ پڑھیں گے کہ جو اچھرہ ہم میں سے اکثر نے بہت دفعہ دیکھا ہے اور اسے صرف شمع سینما کے حوالے سے جانتے تھے اس کی تاریخ دوہزار سال پرانی ہے اسکے علاوہ جو زعماء یہاں رہتے رہے ہیں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کبھی وہ یہاں کے مکین رہے ہوں گے۔یہ کتاب کیا ہے اس کی پراسراریت کی بنیاد دیومالائی کہانیوں اور حقیقت پر مبنی تاریخی حوالوں پر ہے کامریڈ تنویر کمیونسٹ تحریک کے سرگرم کارکن رہے ہیں ،جب پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو کامریڈ تنویر بھی انڈر گرائونڈ چلے گئے تاہم کامریڈ خود کو مولانا حسرت موہانی کا پیر وکار کہتے ہیں۔ میرے والد ماجد مولانا بہاالحق قاسمی اسی جیل میں تھے جس میں مولانا حسرت موہانی قید تھے والد گرامی بتاتے ہیں کہ مولانا ایک طرف کٹر کمیونسٹ تھے اور دوسری طرف گیارھویں کی نیاز بھی باقاعدگی سے دیتے تھے، اس سے ہمارے کامریڈ کے نظریات کی سمت کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔

قدیمی بستی اچھرہ کے بارے میں کتاب کے مصنف نے لکھا ہے کہ پانچ ہزار سال قبل راجہ شالی نے جو ،پانڈو کا رشتہ دار تھا، شہر سیالکوٹ کی بنیاد رکھی اور اس شہر کا نام شاکل رکھا ۔بھارت میں اس نگری کا ذکر اس طرح آیا ہے تقریباً دو ہزار سال قبل راجہ سالباہن جس کی دو بیویاں رانی اچھراں اور رانی لوناں تھیں اس حوالے سے ایک لمبی داستان بیان کی گئی ہے اس سے ہٹ کر بتانے کی بات یہ ہے کہ کسی بات پر نارائن کی وجہ سے رانی اچھراں اور اس کے بیٹے پورن کو لاہور کےنزدیک ایک ویران مقام پر بن باس دے دیاگیا جس جگہ رانی اچھراں رہی ،اس کا نام اچھرہ پڑ گیا بعدازاں یہ بستی اچھرہ کے نام سے موسوم ہوئی ایک دلچسپ بات یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ کسی زمانے میں اچھرہ میں پیپل اور بڑ کے دو دیوقامت درخت تھے جن کے نیچے تھڑے اور اردگرد چار دیواری اندر سے سات فٹ مربع اور باہر سے بارہ فٹ مربع تھی چونہ گچ کی سفید پٹی کا تھڑا بیس گز طویل اور چودہ گز عریض تھا شمال کی طرف داخل ہونے کا ایک دروازہ جس کے پانچ زینے اور زینہ کے ہر دو طرف پختہ دلان تھے مشرق کی طرف ایک پختہ و مکمل درہ جنوبی درہ شکستہ و بوسیدہ احاطہ کے اندر ایک کنواں چالو حالت میں تھا، اس کے علاوہ ایک اور چرخی دار کنواں تھا جس کے شمال میں تین سمادھیاں تھیں یہ سمادھیاں قدیم تھیں ان کی مغربی جانب ایک مکان اور چار دیواری تھی جس کا طول تیس گز اور عرض چوبیس گز تھا ایک سہ درہ دالان تھا جس کے احاطہ میں مڑھیاں بنی ہوئی تھیں یہ بدھ ناتھ، مہری ناتھ، پھپوت ناتھ، سدہ ناتھ، سہج ناتھ، پھول ناتھ اور مگھرناتھ وغیرہ جوگیوں کی تھیں آج اچھرہ میں اس کا نام ونشان مٹ چکا ہے اور اس پر آبادی بن چکی ہے اسے قلعہ والی آبادی کہتے ہیں جو چوک کمبوہ پیر غازی روڈ پر ہے ۔

اس کے علاوہ متعدد قدیم عمارتوں کا ذکر کتاب میں درج ہے صرف یہی نہیں میرے لئے بہت حیران کن بات یہ بھی تھی کہ مختلف شعبوں کے زعماء اچھرہ میں رہتے تھے، سب سے زیادہ حیرت مجھے اس پر ہوئی کہ فیض احمد فیض بھی اچھرہ میں ایک کرائے کے مکان میں رہتے رہے ، مجھے اس پر یقین نہ آیا جس پر کامریڈ تنویر نے مجھے بتایا کہ انہوں نے فیض صاحب کی صاحبزادیوں سے تصدیق کے بعد اچھرہ کے مکینوں میں ان کا نام لکھا ہے تاہم ایک بہت چونکا دینے والانام بنگالی بابا کا بھی ہے جو اچھرہ کا رہائشی تھا اور بہت سے سیاسی رہنمااس کے پاس حاضری دیتے تھے غلام مصطفیٰ کھرنے اس کی طرف سے ’’امریکی اشارے‘‘ کی خوشخبری سن کر بھٹو کے خلاف بغاوت کر دی اور اپنا سیاسی کیریئر برباد کرلیا۔ بنگالی بابا کو امریکی ایجنٹ کہا جاتا تھا ایک ’’خبر‘‘ یہ بھی دی گئی کہ بھٹو حکومت کے خلاف سرگرمیوں اور سازشوں کا مرکز اچھرہ تھا ،اس میں کچھ نام انہوں نےسیاست دانوں اور کچھ تنظیموں کے بھی لئے بہرحال اچھرہ کے مکینوں میں ماضی قریب کی شخصیات میں سے علامہ عنایت اللہ خان مشرقی ، مولانا مودودی ، شیخ محمد رشید کے علاوہ بہت سے فنکار اور فلم انڈسٹری سے وابستہ بہت سی نامو رشخصیات کا تعلق بھی اچھرہ سے تھا، ان میں پریم چوپڑہ، کرشنا ہران، راگنی، ریشماں،نعیم ہاشمی،نغمہ بیگم، نور محمدچہارمی، مالا، سورن لتا، ایم اجمل، خواجہ خورشید انور ،لالہ سدھیر، استاد احسان علی خاں، انور کمال پاشا، زریں پنا اور نصیبو وغیرہ کے نام شامل ہیں، صحافیوں اور پیروںمیں حکیم احمد شجاع پاشا، یونس جاوید، بابا عالم سیاہ پوش کے نام شامل ہیں ۔

مجھے یہ کالم یہاں ختم کرنا پڑے گا کیونکہ بتانے کی اتنی زیادہ باتیں ہیں کہ کالم کیلئے خصوصی جگہ میں وہ سما نہیں سکتیں آخر میں میرا ایک قیاس کہ چند ابواب کسی اور جگہ سے مستعار لئے گئے ہیں ضمیموں کا باب اس کے علاوہ ہے ۔