زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور بھانت بھانت کی بولیاں
سانحہ موٹر وے کا مرکزی ملزم عابد ابھی تک پولیس کی گرفت میں نہیں آسکا۔ البتہ ہر روز میڈیا پرجنسی ذیادتی کے واقعات متواتر رپورٹ ہو رہے ہیں۔کالم لکھنے سے قبل میں نے پچھلے چند دن کے اخبارات کا جائزہ لیا تو کم وبیش دو درجن ایسے واقعات کی خبریں دکھائی دیں۔ملک کے ہر حصے میں یہ حادثات رونما ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی کے علاقے سرجانی ٹاون میں ایک بیوہ خاتون کو اسٹیٹ ایجنٹ اور اسکے ساتھی نے ذیادتی کا نشانہ بناڈالا۔بلوچستان میں 12 سالہ بچے پر زیادتی کے بعد تیزاب چھڑک دیا گیا۔ فیصل آباد میں دو مختلف واقعات میں بچوں کو ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ایک واقعے میں گیارہ سالہ بچہ گھر سے سودا سلف لینے نکلا تھا۔ دوسرے واقعے میں آٹھ سالہ بچہ دودھ لینے باہر گیا تھا۔مانسہرہ میں چار سالہ بچی قاری کے ہاتھوں ذیادتی کا شکار ہو گئی، جبکہ نارووال میں 13 سالہ بچہ مدرسے میں نشانہ بن گیا۔ اسلام آباد میں ایک شخص گاڑی دکھانے آیا اور خاتو ن کو گھرپر تنہا دیکھ کر زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ لاہور میں کمسن بچی کیساتھ قریبی رشتہ دار نے زیادتی کر دی۔یہ خبریں معمول بن چکی ہیں۔ ایک دن میں کئی واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ جبکہ اصل تعداد رپورٹ ہونے والے واقعات سے کہیں ذیادہ ہے۔ عمومی طور پر بدنامی کے خوف، ملزمان کے ڈر، نظام قانون و انصاف سے مایوسی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے متاثرہ خاندان ایسے سانحات پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔رپورٹ ہونے والے واقعات میں پولیس کی طرف سے رسمی کاروائی ہوتی ہے۔ ایف۔آئی۔آر کے اندرج، تفتیش وغیرہ جیسے مراحل سے گزر کر معاملہ عدالت کے سپرد ہو جاتا ہے۔برسوں کیس چلتا ہے۔آخر میں ہوتا یہ ہے کہ جنسی ذیادتی کے 97 فیصد مقدمات میں ملزمان بری ہو جاتے ہیں۔
مشکل یہ ہے کہ ایسے کسی بھیانک جرم کی خبر سامنے آتی ہے، تو ہم سب واویلا کرنے لگتے ہیں۔ جرم کی روک تھام کے لئے مستقل بنیادوں پر کوئی عملی اقدام کرنے کے بجائے بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دیتی ہیں۔ نت نئی تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔ جیسے ہی خبر میڈیا سے اوجھل ہوتی ہے، وہ سانحہ قصہ پارینہ ہو جاتا ہے۔ سانحہ موٹروے کے بعد بھی یہی صورتحال ہے۔احتجاج، مظاہرے اور مطالبے ہو رہے ہیں۔ بہت سوں کی تان سر عام پھانسی کی سزا پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ محض قانون سازی اورکڑی سزا تجویز کر دینا اس مسئلے کا دائمی حل نہیں ہے۔ ایسے جرائم کا خاتمہ نظام قانون و انصاف کی اصلاح احوال کا متقاضی ہے۔ حل یہ ہے کہ سب سے پہلے متعلقہ قوانین کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی میں بہتری لائی جائے۔ عدالتی نظام کو فعال بنایا جائے۔ہم سب آگاہ ہیں کہ عام شہری پولیس اور تھانے کے نام پر اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ کورٹ کچہری کا رخ کرتے گھبراتا ہے۔ اگر واقعتا صورتحال میں بہتری لانا مقصود ہے تو نہایت سنجیدگی سے کوئی لائحہ عمل مرتب کرنا ہو گا۔ ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے کہ اس امر پرغور کریں کہ ایسے کیا اقدامات اٹھائے جائیں، جن سے محکمہ پولیس کو بہتر بنا کر جرائم پر قابو پایا جا سکے۔ جرم ہوتا ہے تو ملزم کو فوری طور گرفتار کیا جائے، عدالت میں پیش کرکے بروقت سزا دلوائی جائے۔لازم ہے کہ پہلے ہم ان بنیادی مراحل میں بہتری لائیں۔ اسکے بعد اگر ضرورت محسوس کریں تو نئی قانون سازی بھی ضرور کریں۔ زیادتی کے مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دینا چاہیں تو ضرور دیں۔ خواہ مجرم کو چوک، چوراہے پر الٹا لٹکائیں۔اسکا سر کسی نیزے پر دھر کر شہر بھر میں گھماتے پھریں۔یا اسے جیل میں عمر بھر کیلئے گلنے سڑنے کیلئے چھوڑ دیں۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سزا دینے کا مرحلہ اس سارے عمل میں سب سے آخر میں آتا ہے۔
فی الحال ہماری پولیس کی استعداد کار یہ ہے کہ اتنے دن گزرنے کے باوجود ملزم عابد پولیس کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس دوران زیادتی کے درجنوں نئے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔کچھ کا میں نے آغاز میں ذکر کیا ہے۔ ایک واقعہ گوجرانوالہ میں بھی پیش آیا۔ پولیس کے باوردی اہلکار نے لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ لڑکی کے والد کا کہنا ہے کہ لڑکی کی جانب سے اوباش لڑکوں کی شکایت درج کروانے پر پولیس اہلکار تحقیقات کیلئے گھر آیا اور بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنا دیا۔ خبر کیمطابق ڈی۔ پی۔ او متاثرہ لڑ کی پر دباو ڈال کر معاملہ رفع دفع کروانے کیلئے متحرک ہے۔ اندازہ کیجیے، ایسے میں عام شہری کس کا در کھٹکھٹائے؟ یہ خبر پڑھتے ہوئے مجھے لاہور کے دارالامان (کاشانہ ویلفئرہومز) اسکینڈل یاد آگیا۔ ادارے کی سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف نے یہ بھیانک انکشاف کیا تھا کہ کاشانہ کی انتظامیہ یتیم اور بے سہارابچیوں کو مبینہ طور پر غلط کاری کیلئے مجبور کرتی ہے۔ خاتون نے اس غلیظ دھندے میں ملوث، بھاری بھرکم عہدے کی حامل چند سیاسی شخصیات کی طرف بھی اشارہ کیا تھا۔باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے بتایا تھا نو یتیم لڑکیاں لا پتہ ہیں۔لیکن اس شرمناک اسکینڈل پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ نہ زمین پھٹی، نہ آسمان گرا۔ کوئی تحقیقات سامنے آئیں، نہ کوئی پیش رفت ہو سکی۔
جہاں تک سانحہ موٹروے کا تعلق ہے، اس پر ہر کوئی حسب استطاعت طبع آزمائی کر رہا ہے۔ مولانا طارق جمیل صاحب نے بیان جاری فرمایا کہ زیادتی کے بڑھتے واقعات کی ذمہ داری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیم پر عائد ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے درست طورپر یہ سوال کیا ہے کہ ملزم عابد اور شفقت بھلاکس مخلوط تعلیمی ادارے میں پڑھتے تھے؟ یہ سوالات بھی اٹھے کہ آئے روز دینی مدارس میں جنسی زیادتی کے شرمناک معاملات سامنے آتے ہیں۔ دینی مدارس میں مخلوط تعلیم نہیں دی جاتی، پھر یہ واقعات کیوں رونما ہوتے ہیں؟ یہ بحث بھی ہوتی رہی کہ خواتین اگر اپنے محرم کیساتھ گھر سے باہر نکلیں، تو ایسے سانحات سے بچ سکتی ہیں۔ اگلے ہی روز یہ حادثہ پیش آیا کہ اپنے شوہر کے ساتھ کہیں جاتی ایک خاتون کو، شوہر کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا۔یہ معاملات اتنے سادہ نہیں ہیں۔ آئے روز محرم رشتہ داروں کے ہاتھوں ظلم و زیادتی کا نشانہ بننے کے قصے سامنے آتے ہیں۔ایک ٹی۔ وی ٹاک شو میں تحریک انصاف کی ایم۔این۔اے شاندانہ گلزار نے مستند حوالوں اور اعداد وشمار کیساتھ نشاندہی کی ہے کہ قریبی عزیزوں اور محرم رشتہ داروں کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہونے والی بچیوں کے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔تاہم کسی نہ کسی مجبوری کی وجہ سے خاندان کے افراد ایسے معاملات پر زبان بندی کر لیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعات کسی ایک طبقے، ادارے یا رشتے تعلق کیساتھ مخصوص نہیں ہیں۔بدقسمتی سے ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں کوئی محفوظ نہیں ہے۔ یہاں خواتین کے ریپ ہوتے ہیں۔ بچے بچیوں کیساتھ زیادتی ہوتی ہے۔خواجہ سراوں کے ساتھ ظلم ہوتا ہے، قبر میں پڑی، کفن میں لپٹی عورتوں کی بے حرمتی ہوتی ہے، یہاں تک کہ کتے بلیوں اور دیگر جانوروں کے ساتھ بھی یہ واقعات ہوتے ہیں۔
بھانت بھانت کی بولیا ں بولنا اور نت نئی تجاویز پیش کرنا اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ان جرائم کی روک تھام کیلئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے پولیس اور عدالتی نظام بہتر بنایا جائے۔جبکہ عوام میں شعور اجاگر کرنے کیلئے میڈیا کا کردار بھی نہایت اہم ہے۔ میڈیا پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ عوام الناس کو متواتر آگہی فراہم کرئے۔ تاکہ عام شہری محتاط طرز عمل اختیار کرئے۔ خاص طور پر والدین چھوٹے بچے بچیوں پر نگاہ رکھیں۔اگر مل جل کر عملی کوششیں کی جائیں تو یقینا ان جرائم کی شرح کم کی جا سکتی ہے۔