ہیڈلائن

ارشد شریف قتل از خود نوٹس: سپریم کورٹ کا شام تک مقدمہ درج کرنے کا حکم

Share

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے صحافی ارشد شریف کے بہیمانہ قتل کے ازخود نوٹس پر سماعت کے دوران آج شام تک مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی، صحافی ارشد شریف قتل پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سیکرٹری خارجہ اسد مجید، ڈی جی ایف آٸی ایف محسن بٹ سیکریٹری اطلاعات شاہیرہ شاہد، پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ، ڈی جی آئی بی، سیکرٹری داخلہ، صدر پی یو ایف جے سپریم کورٹ پہنچے۔

سماعت کے آغاز پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب رپورٹ آئی تو وزیر داخلہ فیصل آباد میں تھے، رانا ثنا اللہ کے دیکھنے کے بعد رپورٹ سپریم کورٹ کو دی جائے گی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وزیرِداخلہ نے رپورٹ تبدیل کرنی ہے؟ وزیر داخلہ کو ابھی بلا لیتے ہیں، تحقیقات کرنا حکومت کا کام ہے، عدالت کا نہیں، کینیا میں حکومت پاکستان کو رسائی حاصل ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ تک رسائی سب کا حق ہے، صحافی قتل ہوگیا سامنے آنا چاہیے کہ کس نے قتل کیا، اٹارنی جنرل صاحب فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو واپس آئے کافی عرصہ ہوگیا ہے، ارشد شریف کی والدہ کے خط پر انسانی حقوق سیل کام کر رہا ہے، حکومتی کمیشن کی حتمی رپورٹ تاحال سپریم کورٹ کو کیوں نہیں ملی؟ یہ کیا ہو رہا ہے، رپورٹ کیوں نہیں ہو آ رہی؟

تحریر جاری ہے‎

اس دوران عدالت عظمیٰ نے ارشد شریف قتل کیس کی رپورٹ کو آج ہی سپریم کورٹ میں جمع کروانے کی ہدایت کر دی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک ہمیں کیوں فراہم نہیں کی گئی، کیا اپ نے اس میں کوئی تبدیلی کرنی ہے، اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل تک رپورٹ سپریم کورٹ کو جمع کروا دیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آج جمع کرائیں تاکہ کل اس پر سماعت ہوسکے، 43 دن سے رپورٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کی میڈیکل رپورٹ غیر تسلی بخش ہے، معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، 5 رکنی بینچ حالات کی سنگینی کی وجہ سے ہی تشکیل دیا ہے، صحافیوں کیساتھ کسی بھی صورت بدسلوکی برداشت نہیں کی جائے گی، کوئی غلط خبر دیتا ہے تو اس حوالے سے قانون سازی کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ قتل کا مقدمہ نہ کینیا میں درج ہوا نہ پاکستان میں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا، سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان کا علم نہیں، کینیا سے معلومات لیکر آگاہ کریں گے۔

اس دوران عدالت نے دفتر خارجہ سے کینیا میں تحقیقات اور مقدمہ درج ہونے سے متعلق کل تک جواب مانگ لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا؟ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا جائزہ لیکر مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ ہوگا، جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا مقدمہ درج کرنے کا یہ قانونی طریقہ ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مقدمہ درج کئے بغیر تحقیقات کیسے ہوسکتی ہیں؟

قبل ازیں آج صبح ہی سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کا از خود نوٹس لیا تھا، یہ پیشرفت پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی جانب سے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھنے کے 3 روز بعد سامنے آئی ہے، اپنے خط میں عمران خان نے استدعا کی تھی کہ چیف جسٹس صحافی ارشد شریف کے قتل کی آزادانہ جوڈیشل انکوائری کرائیں۔

واضح رہے کہ معروف صحافی و سینیئر اینکر پرسن ارشد شریف کو 24 اکتوبر کو کینیا میں گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ملک کی صحافی برادری اور عوام کی بڑی تعداد سینئر صحافی ارشد شریف کی اندوہناک موت پر شدید غمزدہ اور تشویش میں مبتلا ہے اور عدالت سے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری اطلاعات و نشریات، ڈی جی ایف آئی اے، ڈی جی آئی بی اور صدر پی ایف یو جے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت مقرر کی تھی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر سربراہی سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔

یاد رہے کہ عمران اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنما معروف صحافی کی ٹارگٹ کلنگ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ارشد شریف کو پہلے پاکستان اور پھر متحدہ عرب امارات بھی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جہاں وہ کینیا جانے سے قبل کچھ وقت کے لیے ٹھہرے تھے تاہم دفتر خارجہ نے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا تھا۔

علاوہ ازیں، وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے گا اور بعد ازاں انہوں نے چیف جسٹس کو بھی اس حوالے سے خط لکھا تھا۔

ارشد شریف کی والدہ نے بھی 2 نومبر کو چیف جسٹس کو ایک خط لکھا تھا جس میں قتل کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ اختیارات کے حامل عدالتی کمیشن کی تشکیل کی درخواست کی گئی تھی۔

از خود نوٹس کا خیر مقدم

سیاستدانوں نے ارشد شریف کے قتل کا ازخود نوٹس لینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سپریم کورٹ کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ارشد شریف کی شہادت پر ازخود نوٹس لینا خوش آئند ہے، سپریم کورٹ اور جج صاحبان سے عوام کو توقع ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر قسم کے دباؤ کے باوجود آئین کی حاکمیت کے لیے کھڑے ہوں گے اور انسانی حقوق کی حفاظت کریں گے۔

سابق وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ ارشد شریف کیس پر سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس قابل تحسین ہے، اس کیس میں بہت سارے چھپے چہرے بےنقاب ہوں گے، قوم عمران خان پر حملے اور اعظم سواتی کیس میں بھی سپریم کورٹ کی جانب دیکھ رہی ہے، 13 فراری پارٹیاں عمران خان کو نااہل کرانے کے بجائے الیکشن کی تیاری کریں۔

سپریم کورٹ کا بیان جاری ہونے سے کچھ دیر قبل ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد جرنلسٹ سیفٹی فورم کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کینیا کے صدر سے ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے بات کی ہے۔

فوٹو:ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری متعلقہ حکام سے رابطے میں ہیں جب کہ انہوں نے خود بھی پاکستانی ایجنسیوں سے اس حوالے سے فوری کارروائی کے لیے بات کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے چیف جسٹس کو ایک خط بھی لکھا کہ وہ کیس کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیں اور مجھے امید ہے کہ اس سلسلے میں کارروائی کی جائے گی۔

وزیر اعظم نے مزید کہا کہ کسی صحافی یا انسانی حقوق کے محافظ پر آئین کے تحت حاصل آزادی اظہار کے حق کے استعمال پر حملہ نہیں کیا جانا چاہیے۔

معروف صحافی اور اینکر ارشد شریف کینیا میں قتل

ارشد شریف اگست میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے، ابتدائی طور پر وہ یو اے ای میں رہے جس کے بعد وہ کینیا گیا جہاں انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیرا ملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی۔

اس کے بعد حکومت پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جو قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا گئی تھی۔

قتل کے فوری بعد جاری بیان میں کینیا پولیس نے کہا تھا کہ پولیس نے ان کی گاڑی پر رکاوٹ عبور کرنے پر فائرنگ کی، نیشنل پولیس سروس (این پی ایس) نیروبی کے انسپکٹر جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’50 سالہ پاکستانی شہری ارشد محمد شریف گاڑی نمبر کے ڈی جی 200 ایم پر سوار مگادی، کاجیادو کی حدود میں پولیس کے ایک واقعے میں شدید زخمی ہوگئے تھے‘۔

کینیا کی پولیس نے واقعے کے لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے بیان میں مزید کہا کہ ’این پی ایس اس بدقسمت واقعے پرشرمندہ ہے، متعلقہ حکام واقعے کی تفتیش کر رہی ہیں تاکہ مناسب کارروائی ہو‘۔

کینیا کے میڈیا میں فوری طور پر رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں ’غلط فہمی‘ کے نتیجے میں پیش آیا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔