دریائے سندھ کے کنارے
ہمارے لارنس کالج کے پرانے دوست سردار سعیداللہ خان نیازی کا ڈیرہ میانوالی سے تقریباً دس کلومیٹر دور دریائے سندھ کے کنارے پہ واقع ہے۔ نہایت پُر فضا اور خوبصورت جگہ ہے۔ کھیتی باڑی وسیع ہے، مالٹے اور کینو کے باغ بھی ہیں۔ ہر سال اس موسم میں اپنے چند کالج کے ساتھیوں کو وہاں مدعو کرتے ہیں۔ ایک دو سال جا نہ سکا لیکن اس سال تہیہ کیا ہوا تھا کہ دریائے سندھ کا ساحل ضرور دیکھنا ہے۔ دو دن وہاں رہے اور وہ کیا خوب گزرے۔
سعیداللہ خان کھانے پینے کے شوقین تو ہیں ہی لیکن کھانے کا انتظام بھی ان کا بہت عمدہ ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ چھ مہینے کا کولیسٹرول (cholesterol) کا کوٹہ اُن دو دنوں میں پورا ہو گیا ہو گا۔ ہر چیز خالص، ہر چیز دیسی۔ چونکہ گائے بھینسیں اپنی ہیں دہی‘ دیسی گھی اور اِس قسم کے تمام لوازمات وہاں وافر ملتے ہیں۔ گنا بھی اپنا اگایا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ گڑ بھی اپنا اور شکر بھی گھر کی بنی ہوئی۔ مرغوں کا ہمیں بھی شوق ہے‘ لیکن وہاں جو مرغ دیکھے کم از کم میں نے کہیں اور نہیں پائے۔ ویسے بھی اصلی دیسی مرغ ملنا محال ہے۔ اصلی کا مطلب وہ جسے اصیل کہتے ہیں۔ بیشتر علاقوں میں اب جو دیسی سمجھے جاتے ہیں وہ دراصل مصری مرغ ہوتے ہیں۔ اصلی دیسی انڈے بھی اب ہر جگہ نہیں ملتے۔ وہی مصری انڈے جو فارمی غذا کھانے والی مرغیاں دیتی ہیں۔ لیکن جیسا عرض کیا سعیداللہ خان کے ڈیرے پہ وہ تمام چیزیں ہیں‘ جو بیشتر جگہوں پہ ناپید ہو چکی ہیں۔
اندازہ لگائیں، دریائے سندھ قریب، کھلے آسمان تلے پوری تاب سے آگ جل رہی ہو، آدابِ شب کا اہتمام بھی مناسب طریقے سے کیا گیا ہو، اور ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ کھانا۔ سری پائے تو ایسے کہ بہت عرصے بعد اتنا مزہ آیا۔ اور پھر تیتر، کچھ نہ پوچھیے کیسے تیار کیے ہوئے۔ اس کے ساتھ پرانے کالجیٹی ہوں اور گزرے زمانے کی باتیں یاد کر رہے ہوں۔
کرنل سعید ملک آدمی بہت دلچسپ ہیں اور اندازِ بیان نہایت ہی منفرد۔ پرانے قصّے سناتے ہوئے ہنسا ہنسا کے مار دیتے ہیں۔ بہت سی کہانیاں سنائی گئیں لیکن میں نے وہاں بھی کہا اُن سے کہ انعام ملتا ہے تو دو قصّوں کو۔ سنائے دیتے ہیں۔
میجر جنرل محمد حیات خان ہوا کرتے تھے‘ جو بعد میں صدر آزاد کشمیر بھی رہے۔ آزاد کشمیر رجمنٹل فورس میں بطور لانس نائیک کلرک بھرتی ہوئے اور رجمنٹل سنٹر میں اُن کی تعیناتی تھی۔ کمانڈنگ آفیسر نے ایک تجویز بنائی جس کے تحت رجمنٹل سنٹر کے تمام افراد کی ایک رینک اوپر ترقی ہونی تھی۔ یعنی سپاہی کو لانس نائیک ہونا تھا، لانس نائیک کو نائیک اور اسی طرح حوالدار اور صوبیداروں کی پروموشن۔ یعنی ہر ایک کو ایک درجہ اوپر جانا تھا۔ لانس نائیک حیات نے تجویز تیار کی اور آخر میں جہاں اپنا نام تھا اس کے آگے کچھ نہ لکھا۔ کمانڈنگ آفیسر صاحب سے دستخط کرا لیے اور دستخط کرانے کے بعد اپنے نام کے آگے یہ لکھ دیا: لانس نائیک سے سیکنڈ لیفٹیننٹ۔ تجویز اوپر بھیجی گئی اور وہاں سے منظور ہو گئی۔ واپس رجمنٹل سنٹر آئی تو کرنل صاحب نے کہا کہ میں خود ہر ایک کے نئے فیتے یا دوسری رینک لگاؤں گا۔ اور تو آ گئے، محمد حیات خان نظر نہ آئے۔ اُن کے بارے میں پوچھا کہ کہاں ہیں تو پتہ چلا کہ وہ تو سیکنڈ لیفٹینی کا پھول لگائے آفیسر بن گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ کرنل صاحب کو بڑا غصہ آیا اور انہوں نے تادیبی کارروائی کیلئے اوپر لکھا‘ لیکن ان کی شکایت کا کچھ نہ بنا اور سیکنڈ لیفٹیننٹ محمد حیات خان ترقی پاتے پاتے میجر جنرل کے عہدے تک پہنچ گئے۔ اور پھر صدر آزاد کشمیر بھی ہو گئے۔ اسے کہتے ہیں قسمت یا تقدیر کا کرنا۔ کرنل سعید ملک نے قصہّ ایسے بیان کیا کہ ہنسی سے پسلیاں درد کرنے لگیں۔ میں نے کہا بھی کہ جو محمد حیات خان نے کیا وہ ذہانت کی انتہا تھی۔
دوسرا قصّہ جنرل ضیاء الحق اور لیفٹیننٹ جنرل صغیر حسین سید مرحوم کے بارے میں ہے۔ جنرل صغیر ایک زمانے میں صدر فضل الٰہی چوہدری کے سٹاف پر مامور تھے۔ اس لحاظ سے اُن کے رابطے بہت اچھے اور وسیع تھے۔ جب جنرل ضیاء الحق کو بطور آرمی چیف ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے چنا تو شروع میں کسی کو نہیں پتا تھا کہ ایسا ہونے جا رہا ہے۔ ایک جنرل اکبر ہوا کرتے تھے۔ بھٹو صاحب نے اُن سے کہا تھا کہ تم آرمی چیف بن رہے ہو۔ ہمارے چکوال کے لیفٹیننٹ جنرل مجید ملک تھے۔ ان کو ملک غلام مصطفی کھر نے بتایا کہ بھٹو صاحب نے فیصلہ آپ کے حق میں کر دیا ہے۔ حقیقت بھی کچھ ایسی تھی کہ بھٹو صاحب مختلف ناموں پہ غور کر رہے تھے اور اُس غوروخوض میں جنرل ضیاء الحق کا کوئی ذکر نہ تھا۔ لیکن فیصلہ جنرل ضیاء کے حق میں ہو گیا۔ پتا اس بات کا صرف چار آدمیوں کو تھا: بھٹو صاحب خود، جنرل ضیاء الحق، بیگم ضیاء الحق اور اپنے تعلقات کی بنا پہ بریگیڈیئر صغیر حسین سید کو‘ جو اس وقت ملتان میں ایک بریگیڈ کمان کر رہے تھے۔ یاد رہے کہ آرمی چیف بننے سے پہلے جنرل ضیاء الحق ملتان کے کور کمانڈر تھے۔
مطلب یہ کہ جنرل ضیاء الحق کی پروموشن کی خبر اُس لمحے تک عام نہیں ہوئی تھی۔ بریگیڈیئر صغیر حسین سید نے اپنی بریگیڈ سے کچھ آدمی بلوائے اور اُن سے کہا کہ جنرل ضیاء الحق آرمی چیف بن رہے ہیں، عین مناسب ہو گا کہ آپ لوگ کور کمانڈر ہاؤس جائیں اور گھر والوں کو مبارکباد دیں۔ دروغ بر گردن راوی، تیس چالیس جوان کور کمانڈر ہاؤس پہنچ گئے۔ بیگم ضیاء الحق ہکا بکا رہ گئیں۔ اُنہیں نہ کسی کی آمد کا پتا تھا‘ نہ گھر میں کوئی مٹھائی وغیرہ کا بندوبست تھا۔ کہتے ہیں کہ جوانوں کو دیکھ کے تھوڑی سی پریشان ہو گئیں‘ لیکن اُسی اثنا میں کور کمانڈر ہاؤس میں بریگیڈیئر صغیر حسین سید کی کار داخل ہوئی۔ پورچ میں گاڑی رکی تو تین چار بڑے ٹوکرے مٹھائی کے گاڑی کی ڈگی سے برآمد ہوئے۔ بریگیڈیئر صاحب اندر آئے، بیگم صاحبہ کو سلیوٹ کیا اور کہا کہ آپا جی! یہ مٹھائی ہے، مبارک دینے والوں کا منہ ذرا میٹھا کیجیے۔ راوی کہتا ہے کہ بیگم صاحبہ کے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلے کہ صغیر بھائی آپ تو رحمت کا فرشتہ بن کے آئے ہیں۔
یہ بات تو ہو گئی۔ جنرل ضیاء آرمی چیف بنے، بریگیڈیئر صغیر حسین سید کی پروموشن ہوئی اور وہ میجر جنرل بن گئے۔ ایک دن راولپنڈی کی جہلم روڈ پہ‘ جو آرمی چیف کا گھر تھا‘ جنرل صغیر تشریف لائے۔ بیگم ضیاء الحق سے ملے۔ انہیں سلیوٹ کیا اورکہتے ہیں کہ افسردہ چہرے سے کہا کہ آپا جی میں خدا حافظ کہنے آیا ہوں۔ بیگم صاحبہ پریشان ہوئیں، کہا: صغیر بھائی کیا ہو گیا ہے۔ میجر جنرل صغیر نے کہا کہ جنرل ضیاء الحق صاحب نے پروموشن نہیں دی، گھر جا رہا ہوں اور آپ کو سلام کرنے آیا ہوں۔ کہتے ہیں‘ بیگم صاحبہ کو غصہ آ گیا اور کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ وہیں فون کھڑکایا اور جنرل ضیاء سے غصیلے انداز میں مخاطب ہوئیں۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ خدا کا خوف کریں، آپ نے ایک دن ریٹائر نہیں ہونا۔ صغیر بھائی کو کیسے ریٹائر کر دیا۔ روایت ہے جنرل ضیاء نے کہا کہ صغیر کو اسی وقت میرے دفتر بھیجو۔ صغیر صاحب سیدھا وہاں پہنچے۔ جنرل ضیاء کے دفتر میں بطور میجر جنرل داخل ہوئے۔ باہر آئے تو لیفٹیننٹ جنرل تھے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دوران ملازمت جنرل صغیر بڑے پاپولر کمانڈر تھے۔ کھلے دل کے آدمی تھے اور مذاق وغیرہ خوب کرتے تھے۔ آگ کے سامنے یہ قصہّ جب سنایا گیا تو ہنسی میری رُکے نہیں۔ محمد حیات تو ذہین نکلے ہی تھے لیکن یہ مٹھائی والی بات بھی اعلیٰ ذہانت کی مظہر ہے۔ آدمی کی کچھ تو قابلیت ہوتی ہے لیکن زندگی میں بہت سے مقام موقع کی مناسبت یا یوں کہیے قسمت سے ملتے ہیں۔