ایک اینگلو پاکستانی خاندان
اے آر چوہدری میرے نہایت گہرے دوست تھے۔ اُن کا اصل نام چوہدری اللہ رکھا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ مہاجرین کی بحالی کے محکمے میں ملازم تھے۔ انہوں نے ہندوستان بھر سے آئے ہوئے مہاجرین کی بحالی کے لئے دن رات محنت کی مگر اپنی تمام تر کوشش کے باوجود صرف اپنے معاشی حالات بحال کر سکے اور پھر ایک وقت آیا کہ ان کا شمار شہر کے روسا میں ہونے لگا۔ انہوں نے پائپ پینا شروع کر دیا۔ فرفر انگریزی بولنے لگے۔ دو کتے السیشن اور لیبریڈور بھی پال لیے، گھر پر مخلوط پارٹیوں کا اہتمام ہونے لگا۔ ان کی گھریلو پارٹیوں کی شہر بھر میں دھوم تھی۔ مرحوم کو ’’اعضاء کی شاعری‘‘ سے بھی بہت لگائو تھا۔ چنانچہ ان کی محفلوں میں رقاصائیں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ مرحوم سوتے وقت سوٹ اور ٹائی اتار دیتے تھے اور دھوتی باندھ لیتے تھے، صبح جب آنکھ کھلتی تھی تو اکثر انہوں نے اوپر لی ہوتی تھی۔ مرحوم پنجابی میں بات صرف اس وقت کرتے تھے جب انہیں کبھی تیز بخار ہوتا تھا جبکہ پنجابی کے اہلِ زبان دوست ان سے اس مسئلے پر شدید اختلاف رکھتے تھے۔ مرحوم کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ ایک بیٹا امریکہ میں دوسرا کینیڈا میں مقیم تھا۔ بیٹی آکسفورڈ میں پڑھتی تھی۔ وہاں اس نے اپنے ایک انگریز بوائے فرینڈ سے شادی کر لی اور پھر وہ بھی وہیں کی ہو رہی۔ مرحوم خود بھی برٹش نیشنل تھے اور اس پر بہت فخر کرتے تھے۔ مرحوم گرمیاں انگلینڈ میں گزارتے تھے مگر وہاں رہنا پسند نہیں کرتے تھے، کہتے تھے وہاں کام کرنا پڑتا ہے۔ تاہم بچے انہوں نے اوائل عمری ہی میں باہر بھیج دیے تھے۔ موصوف لاہور میں اپنی چھ کنال کی کوٹھی میں ایک بیوی اور دو کتوں کے ساتھ رہتے تھے۔ بیوی اکثر اپنے بیٹوں اور بیٹی کے پاس امریکہ، کینیڈا یا انگلینڈ گئی ہوتی اور یوں ان کا زیادہ وقت کتوں کے ساتھ ہی گزرتا۔ انہیں کتوں کی صحبت بہت پسند تھی، کتے بھی ان کی صحبت پسند کرتے تھے، یہ کتے بہت کتا شناس تھے۔
ایک رات ایک ڈنر کے دوران ان کی طبیعت خراب ہو گئی، یہ ڈنر ان کے ایک نیک طینت دوست کی طرف سے تھا۔ اے آر چوہدری اس قماش کے لوگوں سے نہیں ملتے تھے، اس دوست سے روابط رکھنا ان کی ضرورت تھی کہ وہ کئی جائز امور میں ان کا مددگار ثابت ہوتا تھا۔ اے آر چوہدری نے گھر واپس پہنچ کر اپنے فیملی ڈاکٹر کو بلایا۔ اس نے انہیں دوا لکھ کر دی اور آرام کرنے کے لئے کہا۔ ان کی بیوی اپنے بیٹے کے پاس کینیڈا گئی ہوئی تھی۔ گھر میں صرف دو کتے تھے یا ملازم تھا جو اپنے کوارٹر میں جا کر سو گیا تھا۔ رات گئے جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ملازم کو جگایا کہ جا کر خالہ جنتے کو بلا لائو۔ خالہ جتنے دراصل جنت بی بی تھی، اے آر چوہدری کی سگی خالہ تھی اور انہی وقتوں کے لئے رکھی ہوئی تھی۔ خالہ جنتے نے گھر میں داخل ہوتے ہی بین ڈالنا شروع کر دیے جس سے موصوف کی حالت اور خراب ہو گئی، صبح 7بجے کے قریب ان کی آنکھیں بند ہونا شروع ہوئیں۔ انہوں نے حسرت سے درودیوار پر ایک نظر ڈالی اور پھر ’’جیزز‘‘ کہہ کر سینے پر ہاتھوں سے کراس کا نشان بنایا جس پر جنتے خالہ نے شفقت سے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ’’پتر کلمہ پڑھ‘‘، اے آر چوہدری کی کراس والی حرکت بلا ارادہ تھی۔ ان کے کان میں کلمہ کی آواز پڑی تو ان کے ہونٹ ہلتے نظر آئے، انگریزی میں وہ کلمہ پڑھ رہے تھے۔
There is no God but Allah and Prophet Muhammad is his messanger
خالہ جنتے نے سورئہ یٰسین پڑھنا شروع کر دی اور یوں اے آر چوہدری کو یقین ہو گیا کہ ان کا آخری وقت آن پہنچا ہے۔ سو انہوں نے ایک ہچکی لی اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ دیکھ کر خالہ جنتے کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کسے مدد کے لئے بلائے، اتنے میں دروازے پر بیل ہوئی، خالہ جنتے دوڑی دروازے تک گئی وہاں اے آر چوہدری کے ایک دوست راجہ ہیبت خان ہاتھ میں چھڑی پکڑے کھڑے تھے۔ جو ان کے صبح کی سیر کے ساتھی تھے، انہیں حالات کا پتا چلا تو وہ اندر آئے اور اے آر چوہدری کی ٹیلیفون ڈائری میں سے ان کے دوستوں کے نمبر تلاش کرنے لگے، ان میں میرا نام سرفہرست تھا سو انہوں نے مجھے یہ افسوس ناک خبر سنائی اور فوراً آنے کے لئے کہا، میں نے ان کے گھر پہنچتے ہی امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ فون ملانا شروع کئے تاکہ ان کے بچوں اور بیوی کو اس مرگِ ناگہانی کی اطلاع دے سکوں۔ میں نے کینیڈا فون ملایا تو ان کے بیٹے کی کینیڈین بیوی فون پر ملی۔ اس نے فون ڈیوڈ کو تھما دیا جو کینیڈا میں دائود سے ڈیوڈ بن گیا تھا، اس نے خبر سن کر اپنے باپ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور کہا He Was a great manاور بتایا کہ وہ اپنی پیشگی مصروفیات کی وجہ سے جنازے میں شرکت نہیں کر سکے گا۔ اس نے مجھے کہا ’’آپ پاپا کو دفن کر دیں، ہمیں آپ پر اعتماد ہے‘‘۔ بیٹی اپنی مام کے ساتھ سوئٹزر لینڈ اور بیٹی کا انگریز شوہر ایک میٹنگ میں شرکت کے لئے بلجیم گیا ہوا تھا۔ چنانچہ ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔ البتہ اے آر چوہدری کے دوسرے بیٹے جونی سے امریکہ میں رابطہ ہوا تو یہ اندوہناک ناک خبر سن کر وہ سکتے میں آ گیا، اسے اپنے پاپا سے بہت پیار تھا، اس نے غم میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا ’’انکل آپ پلیز پاپا کی آخری رسومات کی نگرانی کریں، سارے اخراجات میں ادا کروں گا مگر فی الحال میرا آنا ممکن نہیں‘‘ جب میں نے اسے بتایا کہ پوری فیملی میں سے کم از کم ایک فرد کی موجودگی بہت ضروری ہے کہ پراپرٹی کے مسئلے بھی حل کرنے ہیں تو اس نے فوراً حامی بھر لی اور دوسرے روز لاہور پہنچ گیا۔ اسے خوش قسمتی سے پہلی فلائٹ مل گئی تھی۔ (جاری ہے)