منتخب تحریریں

کورونا وائرس اور ہمارے ڈریکولا!

Share

میں بہت دنوں سے سخت بےچین ہوں، کورونا اور لاک ڈائون کے مسائل کے علاوہ ایک مسئلہ ایسا بھی ہے جس کے حوالے سے سمجھ نہیں آتی کہ ہنسا جائے یا رویا جائے۔ اس وقت پوری دنیا ایک عذاب میں مبتلا ہے اور اس سے نکلنے کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، ہم کیا کر رہے ہیں؟ جو دیکھنے میں آ رہا ہے، وہ وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کی محاذ آرائی ہے۔ میں اپنے ایک گزشتہ کالم میں کورونا کے حوالے سے سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی بہت عمدہ کارکردگی اور متناسب رویوں کو سراہ چکا ہوں مگر یہ کیا تماشا ہے کہ جب ٹی وی آن کرتے ہیں، وفاقی حکومت اور سندھ حکومت کے ترجمان دو بدترین دشمنوں کی طرح ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آتے ہیں، ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے، اگر ان کے مابین کوئی اختلاف ہے تو بیٹھ کر اسے حل کرنے کی کوشش کریں، یہ اختلاف ٹی وی کی اسکرین کیسے ختم کر سکتی ہے؟ ہمارا میڈیا تو اکھاڑہ ہے، جہاں سیاستدانوں کو بٹھا کر ان کے لباس تبدیل کر کے انہیں لنگر لنگوٹ مہیا کیا جاتا ہے اور اینکر ان کے سامنے کوئی فسادی قسم کا دانہ ڈالتا ہے اور پھر دنگل شروع ہو جاتا ہے۔

سیاسی جنگ و جدل دوسرے ملکوں میں بھی ہوتا ہے مگر دل کے یہ پھپھولے صرف امن کے دنوں میں پھوڑے جاتے ہیں، یہاں کروڑوں پاکستانیوں کی جانیں خطرے میں پڑی ہیں اور وفاق اور سندھ ایک دوسرے کے جانی دشمن کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس کارزار میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کہا کہ پی پی پی کبھی قومی جماعت ہوتی تھی، اب اس سے صوبائیت کی بُو آتی ہے۔ اس سے اگلے ہی دن سندھ حکومت کے ایک ترجمان کا بیان سامنے آ گیا کہ پی ٹی آئی لوٹوں کی جماعت ہے، یہ دونوں بیانات امن کے دنوں میں دیے جاتے تو ان سے صرفِ نظر کیا جا سکتا تھا۔ مسئلہ صرف اتنا نہیں ہے بلکہ ان دنوں اختلاف کرنے والے سب کے سب غدار قرار پاتے ہیں چنانچہ میر شکیل الرحمٰن سے حامد میر تک اور حامد میر سے نصرت جاوید، طلعت حسین، جاوید چوہدری، سلیم صافی، محمد مالک اور اب تو کامران شاہد میں سے کسی کو بھی غدار قرار دیے جانے پر فوراً گالم گلوچ فورس اپنی ڈیوٹی انجام دینا شروع کر دیتی ہے۔ ہمیں شرم آنی چاہئے۔

معافی چاہتا ہوں میں ٹریک سے اتر گیا ہوں، اسے میری اس پریشانی پر محمول کریں جو کورونا کی عالمگیر تباہیوں کے سبب میرے ذہن پر غلبہ حاصل کرتی جا رہی ہے۔ خصوصاً پاکستان کے حوالے سے میری تشویش بہت گہری ہے کیونکہ ایک تو ہمارے عوام اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور دوسری طرف وہ بڑے تاجر جو کروڑ پتی اور ارب پتی بنے ہی قیامِ پاکستان کے بعد ہیں، کچھ عرصے کے لئے اپنی لبالب بھری ہوئی تجوریوں میں رتی بھر کمی نہیں آنے دینا چاہتے۔ چنانچہ وفاقی حکومت ان کے دبائو تلے آ کر لاک ڈائون کو سافٹ لاک ڈائون کا نام دے کر بازاروں میں، دکانوں میں، عالیشان برانڈز کی شاپس میں ہجوم والی مارکیٹوں میں عوام کے جمِ غفیر کو جمع کرنے کا باعث بن رہی ہے۔ نہ کہیں باہمی فاصلہ نظر آتا ہے اور نہ ماسک اور نہ سینی ٹائزر۔ ہماری عید میں ابھی کئی دن باقی ہیں مگر کورونا وائرس کی ’’عید‘‘ شروع ہو چکی ہے، مجھے پنجاب کے صوبائی وزیر صنعت و تجارت میاں اسلم اقبال کے اس غصے بھرے بیان سے نہایت حیرت اور خوشی ہوئی جو انہوں نے اس صورتحال کے خلاف دیا۔ وہ ان تاجروں پر بری طرح برسے جن کے مطالبات کی حمایت اس یقین دہانی کے باعث کرائی تھی کہ وہ مارکیٹس کھلنے پر تمام حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں گے مگر اس یقین دہانی کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں بلکہ گزشتہ روز میں نے تاجروں کی ایک دیدہ دلیر جماعت کی پریس کانفرنس دیکھی جس میں وہ کاندھے سے کاندھا ملائے اور ماسک کو ٹھوڑی پر جمائے بیٹھے تھے اور مطالبہ کر رہے تھے کہ لاک ڈائون عید تک چوبیس گھنٹے کے لئے ختم کر دیا جائے تاکہ عوام اپنا یہ دینی تہوار روایتی طریقے سے بھرپور طور پر منا سکیں۔ عوام کو چھوڑیں، انہیں تو مرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا گیا ہے، اللہ ان تاجروں کو اپنے خصوصی حفظ و امان میں رکھے، ویسے بھی کورونا وائرس نے انہیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ صرف ان کے صارفین کو ہلاک کرے گا، انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ان ظالموں کو کتنا یقین ہے اور دولت نے ان کی آنکھوں پر کیسی پٹی باندھ دی ہے کہ چاہے (میرے منہ میں خاک) ساری دنیا کے انسان مر جائیں، انہوں نے چونکہ آبِ حیات پیا ہوا ہے، لہٰذا یہ زندہ رہیں گے اور باقی دنیا کی تباہی (خاکم بدہن) کے بعد یہ بھوکے ننگے خالی ڈیموں اور خالی مکانوں کے درمیان بھنگڑے ڈالتے پھریں گے۔

میرے اس کالم سے یہ تاثر نہ لیا جائے کہ میں صورتحال کو صرف ایک آنکھ سے دیکھ رہا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ دہاڑی دار، مزدور، سفید پوش، گھروں میں کام کرنے والی غریب عورتیں بلکہ ان کے بچے، طویل لاک ڈائون کیسے برداشت کر پائیں گے۔ یقیناً یہ ایک انتہائی تشویشناک پہلو ہے جس سے پہلوتہی نہیں کی جا سکتی، تاہم ایک خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اس وقت بھی لاکھوں اہلِ دل ضرورت مندوں کے گھروں تک پہنچ رہے ہیں، ’’الخدمت‘‘ اور سب سے بڑھ کر ’’اخوت‘‘، نیز کئی مزید جماعتیں میدانِ عمل میں اتر چکی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت بھی اپنا کچھ نہ کچھ فرض ادا کر رہی ہے۔ میں سافٹ لاک ڈائون کا صرف اس صورت میں حامی ہوں کہ حکومت محض دھمکی آمیز بیانات کے بجائے روزانہ وہ سب مارکیٹس اور دکانیں موقع پر ہی سیز کر دے جہاں قواعد کی معمولی سی خلاف ورزی بھی کی جا رہی ہو۔ پھر دیکھتے ہیں کون اپنی تجوریاں بھرنے کیلئے عوام کی جانیں دائو پر لگاتا ہے؟