کراچی میں ایک مرتبہ پھر طوفانی بارش سے تباہی، مختلف حادثات میں کم از کم 23 افراد ہلاک
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک مرتبہ پھر طوفانی بارش کا سلسلہ جاری ہے اور پولیس کے مطابق جمعرات کو شہر کے مختلف علاقوں میں بارش کی وجہ سے پیش آنے والے حادثات میں خواتین اور بچوں سمیت کم از کم 23 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
کراچی میں موسلادھار بارش کا تازہ سلسلہ جمعرات کی صبح شروع ہوا اور حکام کے مطابق شام تک 200 ملی میٹر سے زیادہ بارش ہو چکی ہے جبکہ بارش کا یہ سلسلہ جمعے تک جاری رہ سکتا ہے۔
کراچی شہر کے متعدد علاقوں میں منگل کو ہونے والی شدید بارش کے بعد اب تک بحالی کا کام نہیں ہو سکا تھا اور جمعرات کو ہونے والی شدید بارش نے لوگوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
متاثرہ علاقوں میں پانی کی نکاسی کا کام اور امدادی سرگرمیاں جاری ہیں جن میں سول انتظامیہ کے ساتھ فوجی جوان بھی شریک ہیں۔
سندھ حکومت نے شہر میں بارش کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے پیشِ نظر جمعے کو تعطیل کا اعلان کیا ہے جبکہ کراچی سمیت سندھ بھر میں منگل سے ہی ’رین ایمرجنسی‘ نافذ کی جا چکی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جمعرات کی شب جیو ٹی وی کے پروگرام شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ وہ وزیراعظم عمران خان سے رابطے کی کوشش کریں تو ان کا وزیراعظم سے رابطہ نہیں ہو پاتا۔
تاہم اس کے کچھ دیر بعد وفاقی وزیر اسد عمر نے ٹوئٹر پر اعلان کیا کہ ’وزیر اعظم نے وزیر اعلیٰ سندھ سے بات کی ہے اور بارش کی تباہ کاری سے عوام کو ریلیف دینے کے لیے وفاق اور اس کے اداروں نے سندھ حکومت کو جو بھی مدد چاہیے اس کی یقین دہانی کرائی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جو بھی مدد مانگی جائے گی وہ ہنگامی بنیادوں پر فراہم کی جائے گی۔‘
وزیراعلیٰ ہاؤس سندھ کے مطابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کمشنر کراچی کو ہدایت کی ہے کہ شہر میں سکولوں کی عمارتوں میں متاثرین کو رکھنے کے انتظامات کیے جائیں جبکہ پی ڈی ایم اے وہاں متاثرہ لوگوں کو کھانا اور ضروری اشیا مہیا کرے۔
’کراچی میں بارشوں کے حالیہ دور میں 35 ہلاکتیں‘
کراچی پولیس کے سربراہ غلام نبی میمن کے مطابق کہ شہر میں بارشوں کے حالیہ دور میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد 35 تک پہنچ گئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ان میں سے 23 افراد جمعرات کو ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 17 مختلف علاقوں میں دیواریں اور چھتیں گرنے سے مارے گئے۔
کراچی کے ایس ایس پی شرقی ساجد سدوزئی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چھ افراد جن میں چار بچے اور دو خواتین شامل ہیں، گلستانِ جوہر میں ممکنہ طور پر آسمانی بجلی کا نشانہ بننے والی ایک رہائشی عمارت کی بیرونی دیوار گرنے کے واقعے میں ہلاک ہوئے جبکہ دو بچے ابھی لاپتہ ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں چار افراد پانی میں ڈوب کر، ایک شخص کرنٹ لگنے جبکہ ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوا۔
ادھر پاکستان کے فلاحی ادارے ایدھی سروس کے سربراہ فیصل ایدھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے جمعرات کو ہونے والی بارش کے باعث شہر کے مختلف علاقوں میں حادثات میں 24 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ ’کراچی میں حالیہ بارش سے پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال کے باعث جمعرات کے روز شام آٹھ بجے تک شہر میں 24 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘
فیصل ایدھی کا یہ بھی کہنا تھا کہ تین روز سے جاری بارش کے دوران اب تک شہر میں کل 41 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم ابھی بھی لاشیں اٹھا رہے ہیں اور ممکنہ طور پر ان لاشوں کے حوالے سے اعداد وشمار رات بارہ بجے کے بعد بتانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ یہ سب ہلاکتیں، چھتیں اور دیواریں گرنے، بجلی کا کرنٹ لگنے، ڈوب جانے کے واقعات کے باعث ہوئی ہیں۔‘
فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ ’اس وقت کراچی میں لاکھوں لوگ متاثر ہیں۔ تمام نشیبی علاقے مکمل پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لوگ گھروں میں محصور ہیں، کھانا، پانی، بجلی، گیس نہیں ہے اور لوگوں کی نقل و حرکت بھی محدود ہو چکی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ شدید بارش کے باعث نہ صرف لوگوں کی بلکہ ایدھی سروس کی اپنی نقل و حرکت بھی محدود ہو چکی ہے۔ ’اس وقت ہمارے لوگ ٹرکوں میں لاشیں اٹھا رہے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔‘
ان کے مطابق ’ہماری نوے فیصد گاڑیاں جو کہ بولان اور سوزوکی تھیں کھڑی ہو چکی ہیں۔ ہم اس پوزیشن میں نہیں رہے کہ اپنے امدادی کارکنان کو بھرپور انداز سے حرکت کروا سکیں۔‘
فیصل ایدھی کا کہنا تھا کہ ’پورے پاکستان کی ہر آفت اور مصیبت میں مدد کرنے والا کراچی آج خود مدد کا محتاج ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ صبح سے اپنی کھڑی گاڑیوں کو باہر نکال سکیں۔‘
فیصل ایدھی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’نہ صرف کراچی بلکہ سندھ کے دیگر ساحلی علاقے ٹھٹہ، بدین، حیدر آباد اور دیگر بدترین حالات کا شکار ہیں۔ میرے پاس اس وقت وسائل نہیں ہیں کہ میں بتا سکوں سندھ کے باقی علاقوں میں ہم نے کتنے لاشیں اٹھائی ہیں۔‘
’امدادی کارروائیوں کی ذاتی طور پر نگرانی کر رہا ہوں‘
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے جمعرات کی شام سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا ہے کہ وہ امدادی کارروائیوں کی ذاتی طور پر نگرانی کر رہے ہیں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’شدید بارشوں کے تناظر میں میری حکومت عوام خصوصاً کراچی کے لوگوں کو درپیش مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے. میں امدادی کارروائیوں کی ذاتی طور پر نگرانی کر رہا ہوں اور صورتحال سے باقاعدہ طور پر باخبر رہنے کے لیے این ڈی ایم اے کے چیئرمین اور گورنر سندھ سے مستقل رابطے میں ہوں۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھوں نے این ڈی ایم اے کے سربراہ کو ہدایت کی ہے کہ پانی میں پھنسے لوگوں کو نکالنے پرہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ متاثرین کے لیے ہنگامی طبی امداد، خوراک اور پناہ گاہوں کی فراہمی کا بھی انتظام کیا جائے۔
اس سے قبل سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی اپنے پیغام میں کہا تھا کہ گذشتہ روز تک سندھ نے 90 برس کی سب سے بدترین مون سون بارشیں دیکھیں۔ آج سپر مون سون، طوفانی بارشوں اور سیلابی صورتحال جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان تمام افراد کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں جو اس ریکارڈ توڑنے والی ناگہانی آفت میں دن رات شہریوں کی مدد کے لیے کوشاں ہیں۔‘
کراچی میں ریکارڈ بارش
کراچی میں محکمہ موسمیات کے مطابق جمعرات کی بارش کے بعد شہر میں ایک ماہ میں بارش تقریباً نو دہائی پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔
محکمہ موسمیات سندھ کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کے مطابق اگست 2020 میں شہر میں 484 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جا چکی ہے جس میں سے 130 ملی میٹر بارش صرف جمعرات کو ہوئی ہے۔
سردار سرفراز کے مطابق ہمیں دستیاب ڈیٹا کے مطابق کراچی میں ماہ اگست میں اب تک اتنی بارش ریکارڈ نہیں کی گئی اور آخری مرتبہ 1931 میں اتنی بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔
محکمۂ موسمیات کراچی کے مطابق 27 اگست کو صبح آٹھ بجے سے رات 11 بجے تک سب سے زیادہ بارش پی اے ایف فیصل بیس پر 223.5 ملی میٹر ریکارڈ کی گئی جبکہ گذشتہ ہفتے کے دوران بارش سے شدید متاثر ہونے والے سرجانی ٹاؤن میں 193.1 ملی میٹر بارش ہوئی۔
اس کے علاوہ کیماڑی میں 167.5، نارتھ کراچی میں 166.6، ناظم آباد میں 159.1 اور پی اے ایف مسرور بیس پر 148.5 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ ایئرپورٹ اور اس کے گردونواح میں 121 ملی میٹر تک بارش ہوئی ہے۔
سردار سرفراز نے صحافی زبیر خان کو بتایا کہ جمعے کو بھی بارشوں کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے مگر اس کی شدت جمعرات جتنی نہیں ہو گی۔حکام کے مطابق اس بارش کی وجہ بحیرۂ عرب میں بارشوں کے سسٹم کی موجودگی ہے جسے بلوچستان سے آنے والے ہوا کے کم دباؤ نے تقویت بخشی ہے۔
سردار سرفراز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’یہ سسٹم کمزور ہو رہا تھا مگر بلوچستان سے ایک نیا سلسلہ شروع ہو رہا ہے۔ اس کے ساتھ مل کر بارشوں کا ایک نیا سلسلہ 29 یا 30 اگست کو پھر آ سکتا ہے جس میں کچھ علاقوں میں تیز اور کچھ میں ہلکی بارش متوقع ہے۔‘
کراچی پولیس کے مطابق شہر میں بارش کی وجہ سے تقریباً تمام بڑی شاہراہیں بند ہیں جبکہ تقریباً کلفٹن، پنجاب چورنگی، کے پی ٹی، مہران، ناظم آباد، لیاقت آباد اور ڈرگ روڈ سمیت تقریباً تمام ہی انڈر پاسز میں پانی بھر چکا ہے اور شہریوں کی حفاظت کے لیے ان انڈر پاسز کو بند کر دیا گیا ہے۔
بارش اتنی شدید ہے کہ اس سے شہر کا کوئی بھی علاقہ متاثر ہونے بغیر نہیں رہ سکا ہے۔ شاہراہ فیصل سے ملحق نرسری کے علاقے میں واقع ایک گیسٹ ہاؤس کے مالک عرفان اعوان نے بتایا کہ ’نرسری کے علاقے میں 40 کے قریب گیسٹ ہاؤس ہیں۔ 25 اگست کی بارش کے دوران دو گیسٹ ہاؤس ایسے تھے جہاں بارش کا پانی داخل نہیں ہوا تھا مگر آج کی بارش نے تو وہاں بھی تباہی مچا دی ہے‘۔
ان کے مطابق علاقے میں واقع ایک بڑی فرنیچر مارکیٹ میں بھی پانی داخل ہو گیا ہے۔ ’ہمیں تو ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آرہی ہے۔ مدد کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔‘
کراچی کے متمول علاقے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے رہائشی محمد ندیم کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے میں سڑکوں پر دو فٹ سے زیادہ پانی کھڑا ہو چکا ہے اور ’مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ اب یہ پانی ہمارے گھروں میں بھی داخل ہو جائے گا۔‘
ان کے مطابق ’میں نے کراچی میں اتنی شدید بارش نہیں دیکھی۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ اگر یہ بارش کا سلسلہ جاری رہا تو کیا بنے گا۔‘ قائد آباد کراچی کے رہائشی محمد گلزار کا کہنا تھا کہ ابھی تو وہ چند دن قبل ہونے والی بارش کے اثرات سے باہر نہیں نکلے تھے کہ آج کی بارش نے مزید تباہی مچا دی ہے۔ ’ہمارے علاقے پانی، بجلی، گیس کچھ بھی نہیں ہے۔ تیسرا دن ہے امدادی تنظیموں سے ملنے والے کھانے پر گزارہ کر رہے ہیں۔‘
بارش کے آغاز کے بعد سے ہی شہر کا بڑا حصہ بجلی سے بھی محروم ہے تاہم بجلی کی بندش کی وجہ سے اس مرتبہ کرنٹ لگنے سے ہونے والی ہلاکتوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔
’کاروبار ختم ہوچکے ہیں‘
آل کراچی تاجر اتحاد کے چیئرمین عتیق میر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بارشوں سے اس وقت سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ کراچی کا تاجر ہے۔ ’ہماری 80 فیصد مارکیٹوں اور فیکٹریوں میں پانی نے تباہی مچا دی ہے۔ دوکانیں ختم ہو چکیں۔ مال پانی بہا کر لے جا چکا ہے۔ فیکٹریوں میں تیار مال تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ شہر میں 26 اگست سے کاروبار بند ہے۔‘
عتیق میر کا کہنا تھا کہ ’بارشوں کے اس سلسلے نے ہمیں سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا ہے۔ تاجر اپنے گھروں میں اپنے بال بچوں کو محفوظ کرنے میں مصروف تھے دوسری جانب ان کی زندگی بھر کی کمائی لٹ رہی تھی اور وہ آنسو بہانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔‘
سڑکوں پر بہتے کنٹینر
کراچی کے مختلف علاقوں میں شہریوں کی جانب سے اس غیرمعمولی بارش سے متعلق بنائی گئی ویڈیوز اور تبصرے صبح سے ٹی وی سکرینز اور سوشل میڈیا پر چھائے رہے۔
شہریوں کی جانب سے بنائی گئی ویڈیوز میں شہر کی صورتحال کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایم اے جناح روڈ پر عاشورہ کے جلوس کے لیے سڑکوں پر رکھے کنٹینرز بھی پانی میں بہتے چلے جا رہے ہیں۔
متعدد صارفین کی جانب سے پانی سے بھرے ہوئے انڈر پاسز کی تصاویر بھی شیئر کی گئیں۔
اس حوالے سے سندھ حکومت کو بار بار کراچی میں اس طرح کی صورتحال پیدا ہونے کے باوجود اس پر جلد قابو نہ پانے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
شہر میں بارش کے باعث کے الیکٹرک کے متعدد فیڈرز ٹرپ گئے جس سے شہر کا بڑا حصہ بجلی سے محروم ہے۔
کے الیکٹرک کی جانب سے ٹوئٹر کے ذریعے شہریوں کو ہدایت جاری کی گئیں اور ان میں کہا گیا کہ بارش کی صورت میں احتیاط کریں، غیر قانونی ذرائع سے بجلی کا حصول جان لیوا ہے، شہری ٹوٹے ہوئے تاروں،کھمبوں اور پی ایم ٹیز سے دور رہیں۔
اس حوالے سے لوگوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ایک صارف نے لکھا کہ اگر آپ کھانے یا دیگر ضروری اشیا آرڈر کرنے کے بارے میں سوچ بھی رہے ہیں تو ایسا نہ کریں۔ اگر گھر سے باہر نکلنا آپ کے لیے مشکل ہے تو ڈلیوری والے کے لیے بھی ہے۔