ہیڈلائن

کراچی طیارہ حادثہ: 66 لاشوں کی شناخت، ورثا کے لیے دس دس لاکھ روپے امداد کا اعلان

Share

پاکستان کے وفاقی وزیر ہوابازی غلام سرور خان نے جمعہ کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے طیارے پی کے 8303 کو کراچی میں پیش آنے والے حادثے میں ہلاک شدگان کے لواحقین کے لیے دس، دس لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ تحقیقاتی رپورٹ میں وزیر یا چیف ایگزیکٹیو کی کوتاہی سامنے آئی تو وہ خود کو احتساب کے لیے پیش کریں گے۔

جبکہ دوسری جانب پی آئی اے کے طیارے پی کے 8303 کو پیش آنے والے حادثے کے بعد لاشیں نکالنے کا کام مکمل کر لیا گیا۔ حادثے میں 97 ہلاکتوں کی تصدیق کے بعد ابتک 66 میتوں کی شناخت ہو چکی ہے۔

طیارے میں موجود دو افراد اس حادثے میں زندہ بچ گئے ہیں اور اس وقت مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

سنیچر کو کراچی میں وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے قومی ایئرلائن کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ارشد ملک کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں سے 21 افراد کی میتیں شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کر دی گئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’حکومت نے ابتدائی طور پر ہلاک ہونے والے مسافروں کے لواحقین کے لیے دس دس لاکھ روپے جبکہ زخمیوں کے لیے پانچ ہانچ لاکھ روپے جاری کیے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اصل رقم جو انشورنس کی ہے وہ 50 لاکھ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے، ہماری کوشش ہوگی کہ اس کو بھی جلد ازجلد متاثرہ خاندانوں تک پہنچایا جائے۔‘

وفاقی وزیر ہوا بازی کا کہنا تھا کہ اس حادثے کے باعث جن گھروں کا نقصان ہوا ہے اس کا ازالہ حکومت کرے گی اور اپنی حیثیت کے مطابق انھیں مدد فراہم کی جائے گی۔‘

پاکستان

انھوں نے کہا کہ ’ہم ابھی جائے حادثے کا دورہ کر کے آئے ہیں وہاں بہت سے مکانات اور لوگوں کی املاک مثلًآ گاڑیوں وغیرہ کو نقصان پہنچا ہے، اس سلسلے میں ابتدائی جائزے کا حکم دے دیا ہے اور دیکھا جائے گا کہ ہر گھر کی مرمت اور بحالی پر جتنا خرچہ ہوگا وہ حکومت برداشت کرے گی۔‘

غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ ‘ان گھروں کو مکمل بحال کر کے باسیوں کے حوالے کیا جائے گا اور اسی طرح جن لوگوں کی گاڑیاں جلی ہیں ان کا بھی ازالہ کیا جائے گا۔’

اس موقع پر پی آئی اے کے سربراہ ارشد ملک نے بتایا کہ 96 مسافروں کے ڈی این اے کے لیے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں اور اس کے لیے لاہور سے خصوصی ٹیم کو بلوا کر کراچی یونیورسٹی میں تعینات کیا گیا ہے تاکہ ڈی این اے میچ کرکے شناخت کی جاسکے۔

ارشد ملک نے کہا کہ 100 فیصد لواحقین سے رابطہ ہوچکا ہے جیسے ہی ڈی این اے میچ کرنے کا عمل مکمل ہوگا ہم میتیں حوالے کرنے کا عمل شروع کر دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘حکومت پاکستان نے حادثے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل کی ہے جس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے اور میرا تحقیقات سے صرف اتنا تعلق ہے کہ جو معلومات، دستاویز طلب کی جائیں وہ انھیں دینے کا پابند ہوں، اس کے علاوہ میرا تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔’

جبکہ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ‘ہم میں سے ہر کوئی ماہر ہے، یہ قومی حادثہ، سانحہ ہے اور بہت بڑا واقعہ ہے، اس پر رائے ضرور دینی چاہیے لیکن جو رائے دینی ہے وہ انکوائری کمیٹی کے سامنے دی جائے۔’

پاکستان

حادثے کی تحقیقات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘وزیر اعظم کی منظوری کے بعد تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے اور اس میں پاک فضائیہ کے 4 انتہائی تجربہ کار افسران موجود ہیں۔’

تحقیقاتی کمیٹی کے شفافیت پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر غلام سرور نے یقین دہانی کروائی کہ ‘حادثے کی شفاف انکوائری کی جائے گی اور پوری کوشش ہوگی کہ حقائق جلد ازجلد قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے رکھے جائیں۔’

جبکہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق جائے حادثہ سے 97 افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں جس کے بعد 25 متاثرہ گھروں کو کلیئر کر دیا گیا ہے اور رہائشیوں کو مقامی انتظامیہ کی مدد سے دوسرے مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔

کراچی میں ہمارے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق فی الحال میتوں کی شناخت کا سلسلہ جاری ہے اور پہلے مرحلے میں بائیو میٹرک کیا جا رہا ہے جس کے لیے پاکستان کے قومی رجسٹریشن ادارے نادرا کی ٹیمیں کراچی روانہ کر دی گئی تھیں جو انگلیوں کے نشانات سے لاشوں کی شناخت کریں گی۔

علاقے کے افراد ایک گھر کی چھت پر کھڑِے ہوئے ہیں جس پر ملبہ دیکھا جا سکتا ہے
علاقے کے افراد ایک گھر کی چھت پر کھڑِے ہوئے ہیں جس پر ملبہ دیکھا جا سکتا ہے

ادھر سول ایوی ایشن حکام کے مطابق طیارے کا بلیک باکس مل چکا ہے جس کو ڈی کوڈ کرنے کے لیے بھیجا جائے گا اور رپورٹ آنے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔

کراچی کی ماڈل کالونی میں واقع جناح گارڈن میں پیش آنے والے اس طیارہ حادثے پر انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی سمیت دیگر عالمی رہنماؤں کی جانب سے اظہارِ افسوس کیا گیا ہے۔

گذشتہ شب امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے طیارہ حادثے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس مشکل وقت میں امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے حادثے کی تحقیقات کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

حادثہ کب پیش آیا؟

گذشتہ روز پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر دو بج کر 25 منٹ پر لاہور سے کراچی آنے والا پی آئی اے کا طیارہ ایئربس اے 320 ہوائی اڈے کے قریب ماڈل کالونی کے قریب واقع جناح گارڈن نامی آبادی پرگر کر تباہ ہو گیا۔

آگ، دھواں اور تباہی: طیارہ گرنے کے بعد کیا ہوا؟

اس طیارے میں عملے کے آٹھ اراکین سمیت 99 افراد سوار تھے۔

سی ای او پی آئی اے ارشد ملک کے مطابق طیارہ محو پرواز تھا اور فائنل لینڈنگ کے لیے پائلٹ نے کنٹرول ٹاور کو اپروچ کیا اور آگاہ کیا کہ طیارہ لینڈنگ کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ایئر پورٹ پر آ کر طیارے نے ‘گو اراؤنڈ’ یعنی چکر کاٹنے کا فیصلہ کیا اور اس دوران ان کے ساتھ کچھ ہوا ہے۔ یہ تفصیلات بلیک باکس کی جانچ پڑتال پر ہی پتا چلیں گی۔

ادھر فلاحی تنظیم ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ اور جائے وقوعہ پر سب سے پہلے پہنچنے والوں میں سے ایک فیصل ایدھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ طیارے کو رن وے سے دو سے ڈھائی سو میٹر کے فاصلے پر حادثہ پیش آیا، جہاں یہ ایک گھر کی تیسری منزل پر بنی پانی کی ایک ٹنکی سے ٹکرایا اور 20 فٹ چوڑی گلی میں گھس گیا۔

اب تک کتنی میتوں کی شناخت ہو سکی ہے؟

سندھ حکومت کی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا کے مطابق کراچی طیارے حادثہ کے بعد 97 مسافروں لاشیں ملیں ہیں اور ان میں 68 مرد، 26 عورتیں اور 3 بچے شامل ہیں۔

صوبائی وزیر سندھ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں سے 66 لاشوں کی شناخت کرلی گئی ہیں اور 6 زخمیوں میں سے 2 زندہ بچ جانے والے مسافر جبکہ 4 رہائشی زیر علاج ہیں۔

ڈاکٹر عذرا پیچوہو کا کہنا ہے کہ ناقابل شناخت لاشوں کے ڈی این اے کراچی یونیورسٹی لیب بھجوا دیے گئے ہیں۔ وزیر صحت سندھ کے مطابق اب تک 47 لواحیقین نے ڈی این اے سیمپل جمع کروائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی: ڈی این اے اجزاء کے نتائج 21 دن میں آجائیں گے۔

اس سے قبل گذشتہ روز سندھ حکومت کی جانب سے لاشوں کی شناخت کے لیے لواحقین کے ڈی این اے نمونوں کے لیے لیب قائم کر دی گئی تھی۔

اب تک شناخت ہونے والی میتوں میں سے ایک طیارے کے پائلٹ سجاد گل کی میت بھی ہے۔

اس کے علاوہ فوج میں حال ہی میں بھرتی ہونے والے لیفٹیننٹ بالاچ خان کی میت کی بھی شناخت ہوئی تھی جس کے بعد ان کی میت ان کے اہلخانہ کے سپرد کر دی گئی تھی۔ ان کی نماز جنازہ آج نماز عصر کے بعد ادا کی جائے گی۔

ان کے علاوہ میجر شہریار کی اہلیہ ماہم اور بیٹی الیسا شہریار کی میت کی شناخت بھی کی جا چکی ہے۔

طیارہ حادثہ

بچنے والے خوش نصیب کون ہیں؟

گذشتہ روز طیارہ حادثے میں جہاں 97 ہلاکتیں ہوئیں وہیں دو مسافر زندہ بھی بچ گئے تھے۔

سندھ حکومت کے ترجمان مرتضی وہاب نے گذشتہ روز ایک ٹویٹ میں دونوں افراد کی شناخت محمد زبیر اور ظفر مسعود کے نام سے کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ یہ دونوں مسافر معجزانہ طور پر محفوظ رہے لیکن ابھی زخمی ہیں تاہم ان کی حالت خطرے سے باہر ہے اور فی الحال یہ دو مختلف ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما اور صوبائی وزیر تعلیم سینیٹر سعید غنی نے کراچی طیارہ حادثے میں بچ جانے والے ایک مسافر کے ہمراہ اپنی تصویر بھی شیئر کی۔

ایک نجی ٹیلیویژن چینل جیو سے گفتگو کرتے ہوئے سعید غنی کا کہنا تھا کہ محمد زبیر سیالکوٹ سے کراچی عید منانے آ رہے تھے اور بدقسمت طیارے پر سوار تھے۔

انھوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کے مطابق محمد زبیر کا 30 فیصد جسم جل چکا ہے مگر وہ ہوش میں ہیں۔

حادثے میں بچ جانے والے دوسرے مسافر ظفر مسعود تھے جو دی بینک آف پنجاب کے موجودہ صدر ہیں۔

ظفر مسعود کو جائے حادثہ سے کراچی کے علاقے گلستانِ جوہر میں واقع نجی ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ان کی عیادت کی۔

پاکستان

طیارے کی مے ڈے کال کی آڈیو میں کیا سنا جا سکتا ہے؟

مقامی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی ایک آڈیو کلپ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ طیارے کے پائلٹ اور کنٹرول ٹاور کے درمیان گفتگو کی ہے۔

اس کال میں پائلٹ کو مے ڈے کال دیتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

کلپ کے شروع میں بظاہر پائلٹ کی آواز آتی ہے کہ ان کے جہاز کے تمام انجن ناکارہ ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد ٹاور ان سے معلوم کرتا ہے کہ آیا وہ بیلی لینڈنگ کرنے والے ہیں، اور پھر انھیں بتاتا ہے کہ ان کے لیے دونوں رن وے دستیاب ہیں۔

اس کے کچھ لمحوں بعد جہاز کا پائلٹ ‘مے ڈے’ کال دیتا ہے، جس کے بعد خاموشی ہو جاتی ہے۔

کراچی

حادثے کی تحقیقات کب تک مکمل ہوں گی؟

وفاقی حکومت نے کراچی میں پی آئی اے کے مسافر طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی تحقیقات کے لیے ایک چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

اس حوالے سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی کی سربراہی’ایئر کرافٹ ایکسیڈنٹ اینڈ انویسٹیگیشن بورڈ’ کے صدر ایئر کموڈور محمد عثمان غنی کریں گے۔

اس کے دیگر ارکان میں ونگ کمانڈر ملک محمد عمران، گروپ کیپٹن توقیر اور ناصر مجید شامل ہیں۔

تحقیقاتی کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی تحقیقات مکمل کر کے ‘جلد از جلد’ اپنی رپورٹ جمع کروائے، تاہم کمیٹی کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ ایک ماہ کے اندر اندر پیش کی جائے۔

سی ای او پی آئی اے ارشد ملک کے مطابق طیارے کے ساتھ کیا ہوا یہ تفصیلات بلیک باکس کی جانچ پڑتال پر ہی معلوم ہو سکیں گی۔

انھوں نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ آیا طیارے کو کوئی تکنیکی مسئلہ ہوا یا کوئی پرندہ جہاز سے ٹکرایا یہ تب ہی پتا چل سکے گا۔

پاکستان

حادثے کا شکار ہونے والے طیارے کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟

کراچی میں آج حادثے کا شکار ہونے والی ایئر بس اے 320 جہاز کو سنہ 2014 میں پی آئی اے کے فضائی بیڑے میں شامل کیا گیا تھا۔

نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سول ایوی ایشن کے ‘ایئر وردینیس ڈیپارٹمنٹ’ نے اس دورانیے میں جہاز کی چھ مرتبہ جانچ پڑتال کی۔

جہاز کی آخری انسپیکشن گذشتہ برس چھ نومبر کو ہوئی تھی۔ چھ نومبر کو ہونے والی انسپیکشن رواں برس پانچ نومبر تک مؤثر تھی۔

پی ائی اے ک چیف انجینیئر کراچی ایئرپورٹ نے اس طیارے کو رواں برس 28 اپریل کو مینٹیننس اینڈ ریویو سرٹیفیکیٹ جاری کیا تھا۔ یہ سرٹیفیکیٹ رواں سال 25 نومبر تک مؤثر تھا۔