منتخب تحریریں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں ماسک یہاں!

Share

کورونا کے بعد سے ہر شخص شہر میں ماسک پہنے پھر رہا ہے چنانچہ کسی کی اصلی شکل نظر نہیں آتی۔ میں بھی باقاعدگی سے ماسک پہن رہا ہوں بلکہ کورونا کے خاتمے کے بعد بھی میں اپنے چہرے سے ماسک نہیں اُتاروں گا، جس دن میں نے ماسک اُتارا، لوگوں کو میری بھونڈی شکل ایک بار پھر نظر آنا شروع ہو جائے گی۔ اللہ نے اِن دنوں عزت دی ہوئی ہے بلکہ کچھ تو مائلِ کرم بھی نظر آتے ہیں۔ ایک مدت کے بعد یہ تمنا پوری ہوئی ہے کہ کوئی تو ہمیں بھی اپنے دل میں جگہ دے، اب اگر اِس کے آثار پیدا ہوئے ہیں تو میں چہرے سے ماسک اُتار کر اُنہیں دھچکا کیوں پہنچائوں جو مجھے قبولِ صورت بلکہ خوبصورت سمجھ بیٹھے ہیں۔

اور آپ یقین کریں یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں، گزشتہ روز ایک صاحب ملے، بہت معقول صورت ہی نہیں بلکہ معصوم صورت بھی لگ رہے تھے، مجھے وہ اُس وقت اور بھی اچھے لگے جب اُنہوں نے اِن الفاظ میں اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ ایسے لیجنڈ کے ساتھ سیلفی بنانا چاہتا ہوں، چنانچہ نہ صرف میرے کاندھے کے ساتھ کاندھا ملا کر کھڑے ہو گئے بلکہ ایسے مواقع پر آپ کے مداح زیادہ بےتکلفی دکھانے کے لئے اپنے بازو بھی آپ کی گردن پر رکھ دیتے ہیں، سو اُنہوں نے بھی اِسی عالم میں میرے ساتھ سیلفی بنائی۔ اُن کے جانے کے بعد ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہا جناب اِس شخص نے کورونا کی وجہ سے ماسک نہیں پہنا ہوا بلکہ اِس نے تین قتل کئے ہیں اور پولیس اِسے مفرور قرار دے چکی ہے۔ میں نے کہا اگر یہ مفرور ہے تو آپ نے اُسے کیسے پہچانا، بولا جناب میں اُس کا محلے دار ہوں، پولیس کو اطلاع بھی کر چکا ہوں مگر وہ کہتے ہیں کہ خود ہم بھی تو ماسک پہن کر پھرتے ہیں اور زیادہ احتیاط کے پیش نظر یہ ماسک آدھی آنکھوں تک جگہ گھیرتا ہے چنانچہ ایک کانے شخص کو ایک مفرور کیسے دکھائی دے سکتا ہے؟

اِن دنوں بڑے بڑے تاجروں نے بھی باقاعدگی سے ماسک پہننا شروع کر دیے ہیں چنانچہ یہ گراں فروش انتظامیہ کو نظر نہیں آتے، ڈاکو اور لٹیرے بھی ماسک پہن کر وارداتیں کرتے ہیں، میں نے تو کئی دین داروں کو بھی ماسک کی آڑ میں وارداتوں میں ملوث پایا ہے۔ صاحبانِ اقتدار میں بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو خصوصی محفلوں میں کچھ اور پہنیں نہ پہنیں، ماسک ضرور پہنتے ہیں۔ میرا ایک شعر ہے ؎

ظلم بچے جَن رہا ہے کوچہ و بازار میں

عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہئے

آپ کو پتا ہے شاعر موقع بہ موقع اپنا شعر سنانے پر تلا ہوتا ہے، چنانچہ میں نے بھی یہاں موقع محل کے بغیر اپنا شعر سنا دیا، میرا کام ہو گیا، اب اگر مجھے کوئی برا بھلا کہنا چاہتا ہے تو کہتا پھرے، میرا کیا جاتا ہے۔ اور ہاں ہمارے کچھ بیورو کریٹس بھی باقاعدگی سے ماسک پہنتے ہیں، میں یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہا ہوں کہ کورونا کے خاتمے کے بعد یہ کیا کریں گے؟ گزشتہ روز مجھے ایک محفل میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں کچھ سیاستدان بھی تھے، دو ایک نے ماسک پہنا ہوا تھا باقیوں نے نہیں، مجھے کچھ سمجھ تو آئی کہ سب نے ماسک کیوں نہیں پہنا ہوا مگر میں کیوں بتائوں کہ مجھے اِس حوالے سے کیا سمجھ آئی تھی، آپ اپنی عقل بھی تو لڑائیں۔ ایک اور بات میں تمام ٹی وی چینلز پر باقاعدگی سے دیکھتا ہوں، چند ایک اینکر ماسک میں ہوتے ہیں، باقی بغیر ماسک کے عوام کے سامنے آتے ہیں۔ ماسک والے اینکر عوام میں بھی جاتے ہیں تو ماسک پہن کر ہی جاتے ہیں۔ میرے خیال میں اتنی زیادہ احتیاط سے سانس کی تکلیف بھی ہو سکتی ہے۔

میرے خیال میں، میں نے لسّی میں پانی زیادہ ڈال دیا ہے کیونکہ بات تو میں نے اپنی ذات سے شروع کی تھی تو قارئین کرام اللہ تعالیٰ آپ سب کو کورونا ایسی لعنت سے محفوظ رکھے۔ آپ ضرور ہجوم میں ماسک پہن کر رکھا کریں تاکہ ہماری خوبصورت قوم کو اللہ تعالیٰ اِس ابتلا کی تباہ کاریوں سے بچائے رکھے البتہ کورونا کے خاتمے کے بعد بھی مجھ ایسے لوگوں کو ماسک کے بغیر گھر سے باہر بلکہ گھر کے اندر بھی قدم نہیں رکھنا چاہئے کیونکہ کورونا نیک بد کو نہیں دیکھتا، وہ جس طرف چاہتا ہے منہ اُٹھا کر چل پڑتا ہے حتیٰ کہ اپنی موت آپ مرنے کے بعد بھی، ایک فقیر نے مجھے بتایا ہے کہ اُسے کالا علم آتا ہے مگر اُس کا یہ کالا علم ماسک والے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا چنانچہ میرے جیسے دوسرے ’’نیک باطن‘‘ لوگوں کو کورونا کے خاتمے کے بعد بھی ماسک چہرے سے اُتارنے کی غلطی نہیں کرنا چاہئے۔

آخر میں مسقط سے تشریف لائے ہمارے ممتاز نوجوان شاعر قمر ریاض کی ایک تازہ غزل:

چھوڑ کے تجھ کو جانے والے نہیں

ہم تِرا دل دُکھانے والے نہیں

اور ہوں گے جتانے والے کہ ہم

کرکے احساں جتانے والے نہیں

وہ بھی رُکنے سے کچھ گریزاں ہے

ہم بھی خیمہ لگانے والے نہیں

ہم حقیقت میں چاہتے ہیں تجھے

ہم وہ مجنوں فسانے والے نہیں

وہ جو اُس پار جا چکے ہیں لوگ

وہ تو اِس پار آنے والے نہیں

بدلے بدلے دِکھائی دیتے ہیں

دوست اب وہ پرانے والے نہیں

تم بھی ہم سے چُھپا رہے ہو کچھ

ہم بھی سب کچھ بتانے والے نہیں

آپ ہیں ناخدا ضرور مگر

آپ کَشتی بچانے والے نہیں

چال چاہے چلو محبّت کی

چال میں ہم تو آنے والے نہیں

جاں سے جاؤ گے، ہار جاؤ گے

عشق کے روگ جانے والے نہیں

یوں ہی کاغذ پہ لکھ رہے ہیں، قمر!

ہم یہ غزلیں سنانے والے نہیں