پاکستان

پاکستان اور سعودی عرب تعلقات: کیا دوستی اور اختلافات اب ساتھ ساتھ ہی چلیں گے؟

Share

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی عرب کے دورے پر ریاض میں ہیں۔

میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ‘کشیدگی’ کم کرنے کے لیے سعودی عرب کے دورے پر گئے ہیں۔

عموماً کسی بھی ملک کے خارجہ امور کو سلجھانے کا کام وزارتِ خارجہ کے پیشہ ور اہلکار سرانجام دیتے ہیں اور ان معاملات میں سربراہِ مملکت یا وزیرِ خارجہ پیش پیش نظر آتے ہیں۔

لیکن پاکستان کی اپنی منفرد تاریخ اور پاکستان کے سعودی عرب کے تعلقات کی جیوپولیٹیکل نوعیت کی وجہ سے پاکستان کے کسی فوجی سربراہ کا سعودی عرب کا دورہ کرنا شاید غیر معمولی نہیں کہا جا سکتا ہے، خاص کر جہاں بعض حلقوں کے مطابق انھیں (پاکستانی چیف آف دی آرمی سٹاف) ’بادشاہ کے بھائی‘ جیسا پروٹوکول دیا جاتا ہو۔

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات پر ایک کتاب ’ہائبرڈائزڈ سول ملٹری ریلیشنز اِن پاکستان‘ کے مصنف ڈاکٹر اعجاز حسین کہتے ہیں کہ کیونکہ پاکستان میں فوج کے پاس اختیار ہے اور دفاعی تعاون سیاسی تعلقات سے زیادہ گہرے معاملات ہیں اس لیے کوئی بھی فوجی سربراہ یہاں زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔

ڈاکٹر اعجاز کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ’سعودی جانتے ہیں کہ پاکستان میں فوج سب سے زیادہ طاقتور ایکٹر ہے اور دفترِ خارجہ کی جگہ وہ پاکستان کے خارجہ تعلقات کے خدوخال طے کرتی ہے، اس لیے انھوں نے فوج ہی سے براہ راست بات کرنے کو ترجیح دی۔‘

سعودی نائب وزیر دفاع

شاہ محمود قریشی کا بیان

اگرچہ پاکستان، سعودی عرب تعلقات میں موجودہ کشیدگی بظاہر پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے ایک حالیہ بیان کے بعد ابھر کر سامنے آئی ہے۔

تاہم حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو تیل کی موخر ادائیگی پر فروخت کی سہولت میں رواں برس مئی سے توسیع روکی ہوئی ہے، اس لیے اس کشیدگی کو قریشی کے بیان سے جوڑنا زیادہ منطقی نہیں لگتا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے پانچ اگست کو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے معاملے پر اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بحث کرنے کے لیے اجلاس نہ بلانے پر سعودی عرب کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسی بیان کے بعد سعودی عرب کی جانب سے اعلان ہوا کہ اس نے پاکستان کو سنہ 2018 میں جو تین ارب ڈالر سے زیادہ قرضہ دیا تھا، پاکستان اُسے مقررہ وقت سے پہلے واپس کرے۔

کیونکہ یہ سب کچھ خطے میں دیگر تبدیلیوں کے پس منظر میں ہوا تھا لہذا سعودی عرب کے اس اقدام کو اِن سے الگ کر کے دیکھنا ممکن نہیں تھا۔ ان تمام باتوں کو اسرائیل، ایران، انڈیا، چین اور امریکہ کے آپس میں دو طرفہ اور کثیرالجہتی معاملات کے پس منظر میں دیکھا گیا ہے۔

’اسلام آباد اپنے تعلقات کو کشمیر کے معاملے کا یرغمال بنا کر رکھنا چاہتا ہے‘

انڈیا کے معروف تجزیہ کار پراوین سوانی سعودی عرب کے کشمیر کے معاملے میں لیت و لعل کے رویے کو اُس کی خطے میں تبدیل ہونے والی پالیسی کا مظہر قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس صدی کی پہلی دہائی ہی سے سعودی عرب نے انڈیا کے ساتھ تعلقات کو تزویراتی اہمیت دینی شروع کر دی تھی۔

سوانی کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ انڈیا سعودی عرب کا تیل خریدنے والے اہم ممالک میں سے ایک ہے، پھر سعودی عرب نے انڈیا میں بہت بھاری سرمایہ کاری کرنی شروع کر دی اور ’بلاشبہ اس کے علاوہ (سعودی عرب) انڈیا کے ایران کے ساتھ تعلقات کو کمزور کرنا چاہتا تھا۔‘

انڈین تجزیہ کار سوانی کہتے ہیں کہ ’اس پیش رفت کے باوجود سعودیوں نے پاکستان سے اپنے تعلقات کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ اور میرے خیال میں اب وہ واقعی حیران ہیں کہ اسلام آباد اپنے تعلقات کو کشمیر کے معاملے کا یرغمال بنا کر رکھنا چاہتا ہے۔‘

پراوین سوانی کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب کا بنیادی مفاد ہے کہ جنوبی ایشیا میں استحکام قائم رہے۔۔۔ یہی مغربی طاقتوں کا بھی مفاد ہے۔ یہ سب چاہتے ہیں کہ تنازعہِ کشمیر ایک فوجی تصادم کی صورت نہ اختیار کرے، اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ کسی بھی اشتعال کی وجہ سے یہاں آگ لگ جائے۔‘

مودی اور محمد بن سلمان

انڈیا، سعودی عرب تعلقات میں پاکستان کا کوئی ذکر نہیں

تاہم سعودی عرب کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے کینیڈا میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار راشد حسین کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کا حالیہ بیان اچانک نہیں تھا ’دباؤ گذشتہ کئی برسوں سے بڑھ رہا تھا۔‘

ان کے بقول یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا تھا جب اٹل بہاری واجپائی کی 1998-2002 کی حکومت میں انڈیا کے وزیرِ خارجہ جسونت سنگھ نے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ ’اقتصادی سفارت کاری کو استعمال کرتے ہوئے وہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان خصوصی تعلقات میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔‘

راشد حسین کہتے ہیں کہ سعودی عرب نے اس خطے کے معاملات کو پاکستان کے زاویے سے دیکھنے کے بجائے ایک نئے زاویے سے دیکھنا شروع کر دیا۔ ’اس کے نتیجے میں سعودی عرب اور انڈیا کے تعلقات کا ایک نیا دور شروع ہوا جن میں پاکستان کے مفادات اور تعلقات کا ذکر تک نہیں تھا۔‘

انھی حالات میں جب گذشتہ برس متحدہ عرب امارات نے پاکستان کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں انڈیا کی وزیرِ خارجہ سشما سوراج کو دعوت دی جس کی وجہ سے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔

اس کے بعد متحدہ عرب امارات نے انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کا شاندار استقبال کیا اور پھر کچھ ہی دیر بعد سعودی عرب نے بھی نریندر مودی کو اپنے ملک کا دورہ کرنے کی دعوت دی اور اعلیٰ ترین اعزازات دے کر انڈیا اور سعودی عرب کے تعلقات کو بہت مضبوط بنائے جانے کا برملا اظہار کیا۔

راشد حسین کہتے ہیں کہ ان کے مطابق او آئی سی کا حالیہ واقعہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ’اس کے بعد اگرچہ او آئی سی نے چند ایک علامتی اقدامات تو کیے مثلاً ایک وفد کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دورے کے لیے روانہ کیا تھا لیکن اس ادارے نے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کرنے میں لیت و لعل کا مظاہرہ کیا۔‘

وہ کہتے ہیں ’ممکن ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے شاہ محمود قریشی کو قربانی کا بکرا بنانا پڑے لیکن پاکستان نے خلیجی بادشاہتوں کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ پاکستان کی حساسیت کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔ اب انھیں آئندہ ایسا کرتے وقت دو مرتبہ سوچنا پڑے گا۔‘

راشد حسین کے مطابق تعلقات میں کشیدگی کو کم کرنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔

ملائشیا سمٹ
،تصویر کا کیپشنملائیشیا سمٹ

سابق سعودی سفیر کی شاہ محمود قریشی پر تنقید

بظاہر کشیدگی کم کرنے کا کام دونوں جانب سے شروع ہو چکا ہے۔

سعودی عرب کے پاکستان میں سابق سفیر ڈاکٹر علی عواض عسیری نے پاکستانی میڈیا کے بارے میں شکایت کی ہے کہ سعودی عرب کا موقف جانے بغیر اس نے تنقید کرنا شروع کر دی۔

عسیری نے عرب نیوز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’پاکستان کے سعودی عرب سے جس طرح کے باہمی محبت، مذہب، ثقافت اور سماجی اقدار پر مبنی تعلقات ہیں ان کا موازنہ کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔ یہ تعلقات دونوں ممالک میں شخصیات اور حکومتوں کی تبدیلی سے بالاتر ہیں۔‘

تاہم سابق سعودی سفیر نے پاکستان کے وزیرِ خارجہ کے اس بیان کو ایک خطرناک تجویز قرار دیا کہ اگر سعودی عرب اسلامی ممالک کی تعاون کی تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کمیٹی کا کشمیر کے لیے اجلاس طلب نہیں کرتا ہے تو پاکستان اس تنظیم کے متوازی ایک اور تنظیم کا اجلاس طلب کر سکتا ہے۔

عسیری نے عرب نیوز میں شائع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اگر وزیر خارجہ قریشی کی اس تجویز سے مراد اگر کوالالمپور جیسا ایک اور اجلاس منعقد کرنا ہے تو ’یہ ایک خطرناک خیال ہے جس کی ایک برادر ملک سے توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ کوالالمپور میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان نے شرکت نہ کر کے عقل مندی کا ثبوت دیا تھا کیونکہ وہ اجلاس ترکی اور ایران نے منعقد کروانے کی کوشش کی تھی جو کہ او آئی سی کی قیادت کو چیلنج کرنے کی کوشش تھی۔

سی پیک میں تعاون کرنے سے لے کر پاکستان میں سرمایہ کاری کا حوالہ دے کر ڈاکٹر عسیری کہتے ہیں کہ او آئی سی نے ہمیشہ کشمیر کے بارے میں ایک واضح موقف اپنایا ہے اس لیے ’آئیے بے بنیاد بیان بازی کے ذریعے ہم اپنی پائیدار دوستی کو خطرے میں نہ ڈالیں یا امت میں تفرقہ بازی نہ پیدا کریں۔‘

عواض عسیری نے کہا کہ گذشتہ ماہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے سعودی عرب پر حملے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ’پھر اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ایران کے تعاون سے بننے والے راستے پر غور کریں گے؟‘

پاکستان سے بہتر تعلقات کے وسیع امکانات کے حوالے دینے کے بعد ڈاکٹر عسیری کہتے ہیں کہ ’مجھے اپنی بات یہ کہہ کر مکمل کرنے دیں کہ سعودی عرب اور پاکستان کی تاریخی شراکت اتنی اہم ہے کہ یہ کبھی ناکام نہیں ہو سکتی ہے۔ یہ دونوں ملکوں کے عوام کے ایک دوسرے کے لیے محبت اور احترام کی وجہ سے مستقبل میں پھلے پھولے گی جیسا کہ ماضی میں ہوا ہے۔‘

او آئی سی

او آئی سی کا کشمیر پر تازہ بیان

او آئی سی کی ویب سائٹ بھی یہی بتاتی ہے کہ شاہ محمود قریشی کے بیان سے ایک روز پہلے اس تنظیم نے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں کشمیریوں کی آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کسی بھی کوشش سے باز رہنے کی تاکید کی ہے۔

ساتھ ہی کشمیریوں کے انسانی حقوق کی حمایت کرتے ہوئے او آئی سی نے مسئلہِ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کرنے کی موقف کی تجدید کی ہے۔

’کشیدگی کو سامنے آنا ہی تھا‘

پاکستان کی معروف صحافی اور تجزیہ کار نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ کشمیر جیسے معاملے پر پاکستان اور انڈیا کے مسلم ہمسایہ ممالک کے درمیان اختلافات کے پس منظر میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان موجودہ کشیدگی کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔

’سعودی عرب کے انڈیا کے ساتھ اقتصادی میدان میں بڑھتے ہوئے رابطوں اور اُس کی کشمیر پر خاموشی نے اختلافات کو جنم دیا ہے جنھیں منظرِ عام پر جلد یا بدیر آنا ہی تھا، اور وہ پاکستان کے وزیرِ خارجہ کے بیان کی صورت میں سامنے آ گئے۔‘

نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ ’جس چیز کے بارے میں ابھی معلوم نہیں ہو سکا ہے وہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان کو دیے گئے قرضے کو پاکستانی وزیرِ خارجہ کے کشمیر کے بارے میں بیان سے پہلے مانگا ہے؟ پاکستانی فوج کے سربراہ سعودی عرب کے دورے پر ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ اب یہ پہلے جیسے اچھے نہیں ہیں۔‘

’تاہم یہ تعلقات دونوں ممالک کے لیے اہم ہیں۔ باہمی مالیاتی مفادات، سکیورٹی اور سفارت کاری کے لیے ناسازگار حالات کے باوجود دونوں کے لیے ایک طویل سفر سامنے ہے۔ اب دونوں ملکوں کے دو طرفہ تعلقات خطے کے دیگر امور کے دباؤ میں آ چکے ہیں۔ اس لیے اب چین، انڈیا، اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور انڈیا، امریکہ تعلقات، پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تاریخی تعلقات کو متاثر کریں گے۔‘

سعودی

’ملٹی ویکٹر‘ تعلقات

امکانات واضح ہیں کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کے ریاض کے دورے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بڑھتی ہوئی کشیدگی میں کمی ضرور آئے گی لیکن مستقبل میں دونوں مسلم ممالک کے درمیان ماضی جیسے تعلقات بحال ہوتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔

سعودی عرب انڈیا میں نوے ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان پہلے ہی سے کر چکا ہے اور اب جب کہ پاکستان مالی طور پر سخت حالات کا شکار ہے، سعودی عرب کا اپنا قرضہ قبل از وقت مانگ لینا برادر ملکوں کی دوستی میں ایک بڑے شگاف کا واضح اشارہ ہے۔

سعودی عرب اب بھی پاکستان سے اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہے گا لیکن وہ پاکستان کی طرح انڈیا کو اپنا دشمن ملک نہیں سمجھتا ہے۔ وہ اب انڈیا سے اپنی دوستی کو پاکستان کی پالیسی کا یرغمال نہیں رکھنا چاہے گا۔

دونوں ممالک کا اپنے تعلقات کو ’ملٹی ویکٹر‘ خارجہ پالیسی کی بنیاد پر از سرِ نو تعمیر کرنا دونوں کے لیے سود مند ہوسکتا ہے۔ ’ملٹی ویکٹر‘ تعلقات میں دونوں ممالک مشترکہ معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ہیں اور جن امور پر اختلافات ہیں ان میں باہمی احترام کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔