منتخب تحریریں

ڈاکٹر مغیث… نصف صدی کا قصہ ہے

Share

سوشل میڈیا مغفرت کی دعاؤں اور تعزیتی پیغامات سے بھر گیا تھا۔ ان میں آسٹریلیا اور کینیڈا تک سے آنے والے پیغامات بھی تھے۔ علی طاہر نے صحیح لکھا: ہم تو سمجھتے تھے کہ ہم تین ہی ان کے بچے ہیں‘ ڈاکٹر عائشہ مغیث، اقصیٰ مغیث اور علی طاہر‘ لیکن اب اندازہ ہوا کہ دنیا بھر میں ان کے سینکڑوں بچے ہیں، ان کے شاگرد جن کے لیے وہ باپ کا درجہ رکھتے تھے‘ اور انہوں نے ان سب سے بے پناہ احترام پایا۔
اہل علم و دانش میں بھی وہ ممتاز مقام کے حامل تھے۔ کوئی سیمینار ہوتا یا حلقۂ یاراں میں گپ شپ، وہ گفتگو کرتے اور ایک سحر طاری ہو جاتا۔ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ وہ جو شاعر نے کہا تھا
یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
68 سالہ ڈاکٹر مغیث سے ہماری آشنائی کے ماہ و سال نصف صدی سے کوئی تین سال کم رہے۔ ہم نے 1973 میں پنجاب یونیورسٹی لا کالج میں داخلہ لیا تھا، تب یونیورسٹی میں مغیث بھی ایک نمایاں طالب علم کے طور پر موجود تھے۔ گھر والوں کے اصرار پر انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں فزکس بی ایس سی آنرز میں داخلہ تو لے لیا لیکن طبیعت ادھر نہیں آتی تھی؛ چنانچہ اپنے ایک دوست سے ڈیڑھ ہزار روپے ادھار لیے (یہ پورے سال کی فیس تھی) اور ایم اے صحافت میں آگئے۔ گھر والوں کو اس کی اطلاع مہینوں بعد ہوئی۔ شعبہ صحافت ان کی طبیعت کو راس تھا۔ تقریری مقابلے اور بزمِ ادب جیسی ہم نصابی سرگرمیوں میں وہ سکول کے زمانے سے ہی طاق تھے۔ کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی ان صلاحیتوں میں مزید نکھار کا باعث بنی۔ اب یونیورسٹی میں اپنی شناخت بنانے میں دیر نہ لگی۔ یہ بھٹو صاحب کا ”نیا پاکستان‘‘ تھا۔ غلام مصطفیٰ کھر پنجاب کے گورنر تھے۔ اس دور میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کی قیادت جاوید ہاشمی کے ہاتھ آ گئی۔ پنجاب کے بیشتر تعلیمی اداروں کی سٹوڈنٹس یونینز جمعیت کے پاس تھیں اور پنجاب یونیورسٹی کو تو اس کی راجدھانی کا درجہ حاصل تھا۔ مغیث اس قافلے کی صف اوّل میں نمایاں تر تھے۔ بھٹو صاحب کا پورا دور، اور اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کے چھ سات سال بھی، پنجاب یونیورسٹی کا ہنگامہ خیز دور تھا، یہاں تک کہ ضیاء الحق نے مارشل لاء آرڈر کے تحت سٹوڈنٹس یونینز پر پابندی لگا دی۔
ہم اپنی اٹھتی جوانی میں ہی جمعیت کے اسیر ہو گئے تھے۔ پنجاب یونیوسٹی آنے سے پہلے، ہاشمی کی زیر قیادت ”بنگلہ دیش نامنظور‘‘ کے نعرے لگانے والوں میں ہم بھی پیش پیش ہوتے۔ یونیورسٹی آئے جن کارکنوں سے ایک خاص تعلق قائم ہوا، ان میں مغیث بھی تھے۔ جاوید ہاشمی کے بعد یہ فرید پراچہ کا دور تھا۔ طلبا سیاست کے حوالے سے فیصلوں‘ منصوبوں میں مغیث کا کردار بہت اہم ہوتا۔ انہوں نے بڑا سریلا گلا پایا تھا؛ چنانچہ اجتماع کا آغاز ان کی قرأت سے ہوتا (اسی باعث وہ ”قاری مغیث‘‘ کہلاتے) اجتماع کے اختتام پر مغیث سے کچھ سنانے کی فرمائش کی جاتی تو عموماً فریدہ خانم کی گائی ہوئی صوفی تبسم کی غزل سناتے:
وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ
کہاں میں، کہاں یہ مقام اللہ اللہ
1975 کے اوائل میں پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے سالانہ انتخابات کا شیڈو ل آچکا تھا۔ پراچہ صاحب رخصت ہورہے تھے۔ عبدالشکور جمعیت کی طرف سے صدارتی امیدوار تھے۔ ان کا مقابلہ لیفٹ کے غلام عباس سے تھا۔ مال روڈ پر ایک ہوٹل میں جمعیت کی پریس کانفرنس پر پولیس نے دھاوا بول دیا اور عبدالشکور سمیت یہاں موجود نمایاں کارکنوں کو گرفتار کر لیا (غلام مصطفیٰ کھر دوبارہ گورنر بن چکے تھے) گرفتار شدگان میں فرید پراچہ، انور گوندل اور مغیث کے علاوہ ہم بھی شامل تھے۔ 1970 میں اکثروبیشتر ترقی پسند ”سوشلزم ہماری معیشت ہے‘‘ کی دعویدار پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے۔ پھر ”نئے پاکستان‘‘ میں انقلاب اپنے ہی بچوں کو کھانے لگا تو معراج محمد خان اور مختار رانا سمیت کتنے ہی انقلابی زیر عتاب آگئے۔ کوٹ لکھپت جیل میں رائٹ اور لیفٹ ایک ہی چھت تلے تھے، اختلافات جیل کی چار دیواری کے باہر رہ گئے تھے۔ مغیث اپنی خوش الحانی سے ہم سب کا دل لگائے رکھتے۔ تب جمعیت کے کارکن، ”سیاسی‘‘ سرگرمیوں کے ساتھ اپنی تعلیم پر بھی بھرپور توجہ دیتے تھے۔
1976میں ایم اے صحافت کا رزلٹ آئے ابھی ایک ہفتہ ہوا تھا کہ مغیث گومل یونیورسٹی میں لیکچرر شپ کیلئے منتخب ہوگئے۔ 6 سال بعد اکتوبر 1982 میں وہ اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر پنجاب یونیورسٹی لوٹ آئے۔ پھر پی ایچ ڈی کیلئے یونیورسٹی آف آئیوواچلے گئے اور ایک سال، گیارہ ماہ اور دو ہفتے میں یہ ہمالہ سر کر لیا (سوشل سائنسز میں پی ایچ ڈی کیلئے پانچ، چھ سال معمولی بات ہے) یہاں انہیں نوم چومسکی اور ایڈورڈ سعید جیسے استادوں سے فیض پانے کا موقع بھی ملا۔ اب وہ ڈاکٹر مغیث الدین تھے۔
پاکستان کے بنیادی نظریے سے عشق مغیث کو گھٹی میں ملا۔ اس حوالے سے کبھی کسی مداہنت یا مصلحت کا شکار نہ ہوئے۔ مغیث کو 16دسمبر1971 ہمیشہ یاد رہا، اپنی سوانح حیات ”سسکتی مسکراتی زندگی‘‘ میں لکھا ”پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کی سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی ایک سینئر پروفیسر نسیم شوکت جو ساڑھی پہنتی تھیں، وہاں کھڑی تھیں۔ انہوں نے عینک لگائی ہوئی تھی اور آنکھیں آنسوئوں سے لبریز تھیں۔ مجھے روک کر کہنے لگیں، مغیث روتے کیوں نہیں ہو؟ رونے کا اور کون سا دن ہوگا؟ اب بھی 16دسمبر آتا ہے تو ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنی نسلوں کو بتائوں کا آج کون سا دن ہے؟ رونا پیٹنا تو نہیں چاہیے، لیکن وہ واقعات و اسباب ضرور ذہن نشین رکھنے چاہئیں، جو اس سنگین المیے کی بنیاد بنے‘‘۔
مارچ کے وسط میں لاک ڈائون ہوا، تو جو احباب گوشۂ تنہائی میں چلے گئے، ان میں ڈاکٹر مغیث بھی تھے۔ فون پر رابطہ ہوتا تو بتاتے کہ زندگی میں پہلی بار فرصت کے لمحات میسر آئے ہیں۔ بے پناہ احتیاط کے باوجود کورونا کی زد میں آ گئے۔ ہفتہ بھر ہسپتال میں رہے، آخری دن وینٹی لیٹر پر… اور پھر بدھ کی صبح بلاوا آ گیا۔ نماز ظہر کے بعد یونیورسٹی کے جوگنگ گرائونڈ میں، اب وہ تابوت میں تھے۔ سب کچھ آناً فاناً ہو گیا تھا۔ احباب میں سے بہت سوں کو اطلاع ہی نہ ہو سکی۔ کورونا کے ایس او پیز بھی تھے۔ اس کے باوجود بڑی تعداد میں چاہنے والے الوداع کہنے پہنچ گئے تھے۔ ان میں ان کے شاگرد بھی تھے، دوست اور قدردان بھی۔ ڈاکٹر مغیث کا سفرِ آخرت اس لحاظ سے منفرد تھا کہ نماز جنازہ کی امامت خود وائس چانسلر صاحب نے کی۔ دعائے مغفرت حافظ محمد ادریس نے کرائی۔ ڈاکٹر نیاز پنجاب یونیورسٹی کے ایلومینائی ہیں۔ انہوں نے تدریس کا آغاز بھی یہیں سے کیا تھا۔ یوں ڈاکٹر مغیث سے ان کا تعلق خاطر بھی قدیم تھا۔ اپنے رفیق کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کو انسٹی ٹیوٹ کے مقام تک لانے میں ڈاکٹر مغیث کا خونِ جگر بھی شامل ہے۔ وہ پاکستان کے ممتاز ماہرین ابلاغیات میں ممتاز تر تھے اور پنجاب یونیورسٹی کی شان تھے اور بیرون ملک، وطنِ عزیز کی آن بان۔ یونیورسٹی اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر ممتاز انور چودھری کا کہنا تھا، یونیورسٹی فیکلٹی آئندہ کئی عشروں تک ان پر فخر کرتی رہے گی۔ انہیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے ”بیسٹ یونیورسٹی ٹیچر‘‘ کا ایوارڈ دیا اور حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ ”اعزازِ فضیلت‘‘ سے نوازا۔ بدھ 24 جون کی سہ پہر یونیورسٹی قبرستان میں، ایک اور قبر کا اضافہ ہوگیا۔ ڈاکٹر مسکین علی حجازی، پروفیسر وارث میر اور ڈاکٹر احسن اختر ناز یہاں بھی ڈاکٹر مغیث کے پڑوسی ہیں۔
وہ جو اس جہاں سے گزر گئے کسی اور شہر میں زندہ ہیں
اک ایسا شہر ضرور ہے انہی دوستوں سے بھرا ہوا