صحت

چینیوں نے اب زیادہ دودھ کیوں پینا شروع کر دیا؟

Share

حالیہ برسوں میں چین میں دودھ کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ اب تقریباً 1.4 ارب افراد پر مشتمل یہ ملک ڈیری مصنوعات کا دنیا میں دوسرا سب سے بڑا صارف ہے۔ ملک میں دودھ کی در آمدات میں بے انتہا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور بالخصوص نیوزی لینڈ اور جرمنی سے دودھ کی درآمد بڑھی گئی ہے۔

اس سارے کاروبار میں ایک چھوٹی سی تفصیل یہ ہے کہ ایشیا کے بیشتر ممالک کی طرح چین میں بہت سے افراد کو لیکٹوز(دودھ میں پایا جانے والا کیمائی مرکب) سے الرجی ہے۔ انسانوں کے بچے ایک انزائم تیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دودھ کو ہضم کرسکتے ہیں لیکن دنیا کے بیشتر حصوں میں، اس کی سطح بڑے ہوتے ہوئے ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔

یورپی نسل کے لوگ کچھ غیر معمولی ہیں اس لیے کہ وہ بڑوں کی طرح زیادہ تر آسانی سے ڈیری مصنوعات ہضم کرتے رہتے ہیں۔ چین میں ایک مطالعے نے اندازہ لگایا ہے کہ 92 فیصد بالغ افراد کو لیکٹوز جذب کرنے میں دشواری تھی۔

ابھی حال ہی میں، چین کی انسداد دوا ایجنسی نے تجویز پیش کی ہے کہ جب بچے 11 سے 13 سال کے ہوتے ہیں تو قریباً 40 فیصد اسے ہضم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

تو دودھ کا یہ کام کیسے چل رہا ہے اور چین میں ڈیری کی طلب میں اتنا اضافہ کیسے ممکن ہوا ہے؟

بیجنگ نارمل یونیورسٹی کے پروفیسر تھامس ڈوبیئس، جو ملک کی ڈیری انڈسٹری کے بارے میں پڑھ چکے ہیں، کہتے ہیں بیسویں صدی کے بیشتر حصوں میں دودھ کی صنعت اتنی بڑی نہیں تھی۔

شمال مشرق میں چھوٹے چھوٹے ڈیری فارمز تھے جہاں ہر فارم پر اوسطاً چار گائیں ہوتی تھیں اور ان کا دودھ ٹرین کے راستے روسی اثر و رسوخ سے متاثرہ شہر ہاربن تک جاتا تھا جہاں اس کے بیشتر حص سے مکھن اور پنیر بنایا جاتا تھا۔

آخر کار ساحلی شہروں میں بڑے بڑے ڈیری فارمز نظر آئے۔ حملوں، قحط اور دیگر بدحالی کی وجہ سے پیدا ہونے والے حالات کی وجہ سے بڑے پیمانے پر دودھ کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

دودھ

1980 کی دہائی میں چین میں پاؤڈر دودھ صحت کی مصنوعات میں شامل تھا اور یہ عام طور پر بچوں اور بزرگ افراد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ پروفیسر ڈوبیئس کے مطابق اسی کی دہائی میں بیجنگ میں دودھ کی کمی ہوئی اور لوگ پوری پوری رات قطار بنائے اس کا انتظار کرتے رہتے۔

وہ کہتے ہیں شاید بچوں سے بھی زیادہ دودھ کو بوڑھوں کی خوراک سمجھا جاتا تھا۔ میں ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جن سب کی اس وقت کے بارے میں ایک ہی کہانی ہے کہ اپنے کنبے کے دودھ کی رسد میں گھسنا اور کچھ کرنے کی کوشش کرنا۔ ہم جانتے تھے کہ یہ بچے یا دادی کے لیے ہے لیکن تھوڑی کوشش کرنا اور سوچنا کہ یہ میری زندگی کی سب سے زیادہ لذیذ چیز ہے۔‘

پھر وائٹ ریبٹ کینڈی کا رجحان آیا۔ یہ چینی حلوہ گٹھے ہوئے دودھ سے بنتا اور چبانے والے سفید کیریمل کی طرح ہوتا اور کہا جاتا تھا کہ دودھ کا ایک گلاس سات ٹافیوں کے برابر ہے۔ جب امریکی صدر رچرڈ نکسن نے چین کا دورہ کیا تو انھیں وائٹ ریبٹ بطور تحفہ پیش کی گئی۔

ڈوبیئس کہتے ہیں کہ اگر آپ 70 کی دہائی کے اوائل میں نکسن کو یہ دینے جا رہے ہیں، تو ’یہ اتنا ہی اچھا ہے جتنا آپ حاصل کر سکتے ہیں۔‘

1990 کی دہائی اور سنہ 2000 کے ابتدا میں چین میں مائع دودھ حاصل کرنا بہت آسان تھا۔ بہت سارے ڈیری فارمز بنائے گئے، جن میں سے بعض کا شمار دنیا کے بڑے فارمز میں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ سنہ 2008 میں ملاوٹ کے ایک سکینڈل نے بھی طویل مدتی میں دودھ کی کھپت کو متاثر نہیں کیا۔ اس سکینڈل کے مطابق بچوں کے فارمولا دودھ میں میلمائن (کیمیائی مرکب) شامل کیا گیا جس سے کم از کم چھ بچے ہلاک اور ہزاروں بیمار ہو گئے۔

وائٹ ریبٹ کینڈی

چینی ڈیری سے متعلق ایک مضمون میں ڈوبیئس نے لکھا ہے کہ اس سکینڈل کے بعد پہلے 10 دن میں دو بڑے چینی فراہم کنندگان کی فروخت 80 فیصد کم ہو گئی تھی تاہم بعد میں یہ فروخت بحال ہو گئی تھی۔

دودھ اور اس سے بنی دیگر مصنوعات، خاص طور پر دیرپا رہنے والا یو ایچ ٹی دودھ اور پینے کے قابل دہی، اب چینی شہروں میں با آسانی اور سستے میں دستیاب ہیں۔

پیزا ہٹ، جہاں امریکہ کی نسبت چین میں کھانے کا تجربہ زیادہ ہے، میں سکول کے بچوں کا ہجوم دیکھا جا سکتا ہے، جو بڑی مقدار میں پگھلا ہوا پنیر کھاتے ہیں جبکہ بڑی عمر کے لوگ اس سے پرہیز کرتے ہیں۔

تو سائنسدان لیکٹوز سے الرجی کے باوجود اس صورتحال کو کیسے دیکتھے ہیں؟ ڈوبیئس اس بارے میں برسوں حیران رہے۔ ’جب میں نے اس پروجیکٹ کا آغاز کیا تو میں دودھ پیتے اجنبیوں کے پاس جاتا اور پوچھتا کہ وہ ہاضمے کے مسائل سے کیسے نمٹتے ہیں۔ ہمیشہ ایک ہی جواب ملتا کہ اگر مجھے اس سے کوئی مسئلہ ہو گا تو میں چھوڑ دوں گا۔‘

اس کے علاوہ، لوگ لیکٹوز سے پاک دودھ نہیں ڈھونڈتے تھے حالانکہ اگر آپ دیکھیں تو ایسی مصنوعات مل سکتی ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ چین میں استعمال کیا جانے والا دودھ کا ایک بڑا حصہ دہی کے طور پر کھایا جاتا ہے۔ ابال کا عمل لیکٹوز کو توڑ دیتا ہے لہذا لوگ اس بارے میں زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ لیکٹوز کی مقدار کا بھی معدے پر بڑا اثر ہوتا ہے۔ اگر لوگ ایک دن میں ایک گلاس سے زیادہ دودھ استعمال نہیں کرتے تو انھیں عام طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ روزانہ ڈیری کی تھوڑی سی مقدار لوگوں کے لیے مسئلے پیدا نہیں کرتی۔

تو اگر یہ ڈیری کے استعمال سے لوگوں کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تو کیا طویل مدتی میں اس کا نوجوانوں کے ہاضمے پر اثر پڑے گا؟ کیا ان کے انزائمر لمبے عرصے تک قائم رہیں گے؟

ڈوبیئس کہتے ہیں ’میرا اندازہ ہے کہ اصلی وائلڈ کارڈ یہ ہے کہ آیا نوجوانوں نے بچپن سے ہی ڈیری کے استعمال کی وجہ سے لیکٹوز ہضم کرنے کی صلاحیت برقرار رکھی ہے۔ یہ کچھ ایسا ہے کہ اس پر میں تبصرہ نہیں کر سکتا۔ لیکن صارفین کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے لییکٹوز فری یا کم مصنوعات کی عدم صلاحیت سے پتہ چلتا ہے کہ مسئلہ اتنا بڑا نہیں جتنا میں نے ایک بار سوچا تھا۔‘