دنیابھرسے

کسی پروپیگنڈے اور گمراہ کن معلومات کو پاک۔امریکا تعلقات کے آڑے نہیں آنے دیں گے، امریکا

Share

امریکی محکمہ خارجہ نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی جانب سے اپنی حکومت کو گرانے میں امریکی سازش کے ملوث ہونے کے مسلسل دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا حقائق کی مدد سے غلط معلومات کا مقابلہ جاری رکھے گا۔

لانگ مارچ کے دوران عمران خان کی جانب سے ایک بار پھر امریکا پر اپنی حکومت گرانے کے الزام سے متعلق سوال پر ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نیڈ پرائس نے کہا کہ’ہم غلط معلومات کا مقابلہ حقائق کی مدد سے ہی کر سکتے ہیں‘۔

نیوز بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے نیڈ پرائس نے کہا کہ محکمہ خارجہ کی جانب سے سے کئی بار ایسے دعووں کو مسترد کیا جا چکا ہے کیونکہ ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ’ہم پروپیگنڈے کی اجازت نہیں دیں گے، ہم پاکستان کے ساتھ قابل قدر دوطرفہ شراکت سمیت اہم دو طرفہ تعلقات کی راہ میں غلط اور گمراہ کن معلومات کو آڑے نہیں آنے دیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہہ ہم امریکا اور پاکستان کے درمیان دیرینہ تعاون کی قدر کرتے ہیں، ہم نے ہمیشہ ایک خوشحال اور جمہوری پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے اہم سمجھا ہے اور اس حوالے سے ہماری رائے برقرار ہے‘۔

ایک اور سوال کے جواب میں نیڈ پرائس نے کہا کہ پاکستان میں عام انتخابات کا ابھی اعلان نہیں ہوا لیکن ہم نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں آئینی اور جمہوری انتخابات کے پُرامن انعقاد کی حمایت کرتے ہیں، یہ وہ مسائل ہیں جن پر ہم دنیا بھر میں موجود ہمارے شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ وفاق میں پی ٹی آئی حکومت کو گرانے میں امریکا کے ملوث ہونے کے دعوؤں کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے بارہا مسترد کیا جاچکا ہے۔

یہ تنازع اس گفتگو کے نتیجے میں پیدا ہوا جو 7 مارچ کو اس وقت کے پاکستانی سفیر اسد مجید خان کے لیے ان کی رہائش گاہ (جسے پاکستان ہاؤس بھی کہا جاتا ہے) پر ایک الوداعی ظہرانے کے موقع پر ہوئی۔

سفارتی اور سرکاری ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ یہ محض ایک ظہرانہ تھا لیکن اس ملاقات کے نوٹ بھی لیے گئے، بعد ازاں سفیر اسد مجید خان نے جو کیبل اسلام آباد بھیجا وہ اسی ملاقات کے نوٹس پر مبنی تھا۔

ظہرانے میں شرکت کرنے والے امریکی حکام میں امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو اور ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری لیسلی سی ویگوری شامل تھے، پاکستانی وفد میں ڈپٹی چیف آف مشن سید نوید بخاری اور دفاعی اتاشی شامل تھے۔

یہ تنازع جولائی میں میڈیا رپورٹس کے ذریعے دوبارہ موضوع بحث بنا جب یہ کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری اوورسیز عبداللہ ریار نے ڈونلڈ لو سے رابطہ کیا ہے اور ماضی کو بھول کر آگے بڑھنے کی درخواست کی ہے، تاہم عبداللہ ریار نے ایسی خبروں کو محض قیاس آرائیاں قرار دے کر مسترد کر دیا۔

رواں برس مارچ میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی خارجی پالیسی کی وجہ سے ایک ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ ہے اور انہیں بے دخل کرنے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے ہیں۔

بعد ازاں پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے صحافیوں سے گفتگو میں اپنے اس دعوے کی بنیاد ’مبینہ سازش کی تفصیلات پر مبنی‘ اس کیبل کو قرار دیا جو واشنگٹن میں سابق پاکستانی سفیر نے 7 مارچ کو اسلام آباد بھیجا۔

سفارتی ذرائع سے معلوم ہوا کہ اس کیبل میں کسی سازش کا ذکر نہیں کہا گیا، تاہم ڈونلڈ لو نے یوکرین پر روس کے حملے کے روز سابق وزیر اعظم کے دورہ روس پر جوبائیڈن انتظامیہ کے ‘ناخوش’ ہونے کا اظہار کیا تھا۔

ڈونلڈ لو نے مزید کہا تھا کہ جب تک عمران خان اقتدار میں ہیں یہ ‘ناخوشی’ برقرار رہے گی، طویل گفتگو کے دوران ڈونلڈ لو نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بارے میں بھی سوالات کیے کیونکہ یہ موضوع میڈیا پر چھایا ہوا تھا۔

عبداللہ ریار کے ڈونلڈ لو کے ساتھ مبینہ رابطے پر تبصرے کے لیے امریکی محکمہ خارجہ سے رابطہ کیا تو ایک ترجمان نے کہا کہ ’ضوابط کے مطابق ہم نجی سفارتی ملاقاتوں پر تبصرہ نہیں کرتے‘۔