پاکستان

احتساب کے معاملے پر کیا عمران خان بطور وزیر اعظم واقعی ’بے بس‘ تھے؟

Share

گذشتہ روز اسلام آباد میں منعقدہ ’رول آف لا کانفرنس‘ سے ویڈیو خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے دور حکومت میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ فیصلہ کرتے تھے کہ نیب نے کس پر کب اور کتنا دباؤ ڈالنا ہے، کب چھوڑنا ہے اور کب قید کرنا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم بالکل بے بس تھے، وزیراعظم بے بس بیٹھا تھا۔‘

چئیرمین تحریک انصاف کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے اپنے دور میں ان کیسز پر پوری کوشش کی کیونکہ اُن کے مقدمات میچور تھے لیکن نیب کے اندر سے ہمیں کہتے تھے پیچھے سے اجازت نہیں ہے اور پیچھے سے جنرل باجوہ اجازت نہیں دیتے تھے۔‘

یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ عمران خان نے اپنے دور حکومت کے سابق آرمی چیف کے ہاتھوں ’بے بس‘ ہونے کا اظہار کیا ہو۔ وہ جب سے اپوزیشن میں آئے ہیں تب سے متعدد بار ایسے دعوے کر چکے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں ’اصل اختیار‘ کسی اور کے پاس تھا اور یہ کہ اُن کے ’ہاتھ بندھے‘ ہوئے تھے۔

ایسا ہی ایک دعویٰ انھوں نے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی سے متعلق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کے دور میں جب چیف الیکشن کمشنر کے نام پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈلاک ہوا تو ’نیوٹرلز نے سکندر سلطان کی گارنٹی دی تھی۔ اسے تسلیم کرنا ہماری بڑی حماقت تھی۔‘

وہ سابق آرمی چیف پرسیاسی نوعیت کے معاملات پر ’ڈبل گیم‘ کھیلنے جیسے الزامات عائد کر چکے ہیں۔

عمران خان کی تنقید کا ہدف خاص طور سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جنرل قمر جاوید نے ریٹائرمنٹ سے قبل ’یوم شہدا‘ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ فوج فروری 2021 کے بعد سے سیاست میں مداخلت کی پالیسی سے کنارہ کشی اختیار کر چکی ہے۔

اپنے دور حکومت کے ابتدائی برسوں میں عمران خان نے کئی مواقع پر جنرل قمر جاوید باجوہ کی ’حب الوطنی‘، ’جمہوریت پسندی‘ اور ’تعاون‘ کی تعریف کرتے ہوئے انھیں ’نیوٹرل، سلجھی ہوئی شخصیت اور جمہوریت دوست‘ قرار دیتے تھے۔

چیئرمین تحریک انصاف جب وزیراعظم تھے تو یہ یقین دلاتے تھے کہ فوج ان کی ہر بات مانتی ہے اور وہ ایک صفحے پر ہیں یعنی جو وہ چاہتے ہیں ملک میں ویسا ہی ہوتا ہے۔ عمران خان کے حالیہ دعوؤں کے بعد آج کل مقامی میڈیا پر تواتر سے عمران خان کے ماضی کے مؤقف سے متعلق ویڈیوز چلائی جا رہی ہیں۔

تاہم ماضی کی ’ایک صفحے‘ جیسی باتوں سے اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں (پی ڈی ایم) متفق نہیں تھیں۔ اور بعض اوقات واضح الفاظ میں اور بعض اوقات اشاروں کنایوں میں کہا جاتا تھا کہ امور حکومت کوئی اور چلا رہا ہے جب کہ عمران خان محض ایک ’سیلیکٹڈ وزیراعظم‘ ہیں۔

پی ڈی ایم

عمران خان کے دور حکومت میں سابق صدر آصف زرداری نے ایک مرتبہ اپنی درخواست ضمانت واپس لیتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عمران خان کو اپنے خلاف قائم مقدمات کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتے اور یہ کہ اُن کا تنازع کہیں اور چل رہا ہے جب وہاں سے ’معاملات طے ہوں گے تو ضمانت ہو جائے گی۔‘

تو سوال یہ ہے کہ احتساب کے معاملے میں بطور وزیر اعظم عمران خان اُتنا ہی بے بس تھے جتنا وہ دعویٰ کر رہے ہیں اور ان دعوؤں کے پس پردہ وہ کیا سمجھانا یا مقاصد حاصل کرنا چاہ رہے ہیں؟

سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ملک میں وزرائے اعظم کے فون ٹیپ ہو رہے ہوتے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کہاں اُن کی بات مانتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی جماعت برسراقتدار ہوتی ہے تو اداروں کے ساتھ اُس کی ایک پارٹنرشپ چل رہی ہوتی ہے اور اس وقت (اقتدار کے وقت) کُھل کر اس طرح اس نوعیت کے تحفظات کا اظہار نہیں کیا جاتا۔

فیض حمید

فواد چوہدری نے کہا کہ انھوں نے عمران خان کو نیب کو سرے سے ختم کرنے کا مشورہ دیا تھا اور اس کے بجائے فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی کو مضبوط بنانے کے بارے میں رائے دی تھی۔

ان کے خیال میں امریکہ، انڈیا اور دیگر ممالک میں احتساب کے عمل کے لیے صرف ایک ایجنسی ہوتی ہے جبکہ ہمارے ہاں تین، تین اور چار، چار ایجنسیاں پائی جاتی ہیں جبکہ ان کی وہ مہارت نہیں ہے جو احتساب کے عمل کے لیے درکار ہوتی ہے۔

فواد کے مطابق حکومت کو دو بڑے چیلنجز کا سامنا رہتا ہے کہ ایک تو اب اتنی ایجنسیوں کے لیے اتنا سارا بجٹ کہاں سے لایا جائے اور پھر ناقص تفتیش میں پائی جانے والی خامیوں کا تدارک کیسے کیا جائے۔ سابق وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ نیب کہاں کسی منتخب وزیراعظم کی بات سنتی ہے۔

FC

ڈان نیوز سے منسلک تجزیہ کار اور صحافی عارفہ نور کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دعوے کی بنیاد دو چیزوں پر ہے۔

’ایک تو یہ ہے کہ (بطور اپوزیشن) اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بِکتا ہے اور اس سے شہرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ سنہ 2018 کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی یہی کیا تھا۔‘

عارفہ نور کے مطابق چونکہ اب آرمی چیف تبدیل ہو گئے ہیں اور عمران خان نے نئے آرمی چیف کو ہدف نہیں بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی فوج میں قبولیت زیادہ ہوتی ہے اور کوئی اندرونی اختلافات بھی نہیں ہوتے تو اس وجہ سے انھوں نے بہتر یہی سمجھا کہ سابق آرمی چیف کو ہی اپنی تنقید کا ہدف بنایا جائے۔

اُن کی رائے میں چونکہ عمران خان کے لیے کرپشن بڑا ایشو ہے اور وہ یہ سمجتھے ہیں کہ یہی چیز انھیں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ سے جدا کرتی ہے تو وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے اسے ہی اپنا مشن بنا رہے ہیں۔

عارفہ نور کے مطابق اب عمران خان سوچ رہے ہیں کہ جب میرے خلاف کیسز بن رہے ہیں تو کیوں نہ میں یہ بیانیہ دوں کہ جب میں اقتدار میں تھا تو ان کے خلاف مقدمات کو کہیں نہیں پہنچا سکا۔

عارفہ نور کی رائے میں عمران خان کے دعوے میں یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں احتساب کے عمل کو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ ہی استعمال کرتی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار اور صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جب تک عمران خان وزیراعظم تھے تو کہتے تھے کہ وہ طاقتور ہیں، سارے فیصلے کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی دونوں باتوں میں کچھ حقیقت بھی ہے اور کچھ افسانوی رنگ بھی۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ بات تو درست ہے کہ اُس وقت ہائبرڈ نظام تھا اور اس میں فوج کی مداخلت بھی زیادہ تھی۔ تاہم سہیل وڑائچ کی رائے میں نیب کے معاملات میں جنرل باجوہ سے زیادہ عمران خان کی مداخلت تھی کیونکہ شہباز شریف اور شاید خاقان عباسی کے ساتھ اس وقت کے آرمی چیف کو کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ وہ عمران خان کی خواہش پر جیل گئے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’جہاں تک فون ٹیپ کرنے کی باتیں ہیں تو اپنے دور حکومت میں تو عمران خان نے اس عمل کی حمایت کی تھی اور اسے جائز قرار دیا تھا۔‘

عمران خان اپنے ان دعوؤں سے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ انھیں زیادہ طاقت دے کر اکثریتی ووٹ سے اسمبلی میں بھیجا جائے تاکہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے کر سکیں۔

تاہم ان کے خیال میں ابھی دور دور تک انتخابات کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں۔

اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کی پروفیسر فوزیہ فاروق کہتی ہیں کہ پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کے اکثر متضاد دعوے ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ٹیبل ٹینس کی مانند ہمارا پاور سٹرکچر ایسا ہے کہ جس میں جب حکومت بنتی ہے تو کچھ ایسے کام تو ضرور ہوتے نظر آتے ہیں جن سے متعلق حکمرانوں میں زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے مگر بہت سے امور پر سربراہان عموماً بے بس ہی نظر آتے ہیں۔

فوزیہ فاروق کی رائے میں اس خامی کی بنیاد حلقہ جاتی سیاست ہے جو کہ پیسے کے زور پر ہوتی ہے۔ ان کے مطابق جب اس عمل سے امیدوار پارلیمنٹ میں آتے ہیں تو سربراہ حکومت کے بڑی حد تک معاملات میں ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ابھی تک ایسا باقاعدہ نظام موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے شفاف احتساب کا حصول ممکن نہیں ہو پاتا۔ ان کے خیال میں موجودہ گورننس ماڈل میں ذاتی مفادات قومی مفادات پر حاوی نظر آتے ہیں۔