پاکستان

تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک: اب تک کہاں کہاں اور کتنی گرفتاریاں ہوئیں؟

Share

پاکستان تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کے پانچویں دن گوجرانولہ میں پارٹی کارکنان جمع ہوئے جہاں وہ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ گوجرانوالہ میں اس احتجاج کی قیادت تحریک انصاف کی رہنما یاسمین راشد کر رہی ہیں۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا اشارہ تو گذشتہ برس اکتوبر میں ہی دے دیا تھا تاہم اس کا باقاعدہ اعلان سترہ فروری کو کیا گیا۔

اکتوبر2022 میں عمران خان نے میانوالی میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران عندیہ دیا تھا کہ وہ جلد جیل بھرو تحریک کا اعلان کریں گے۔

عمران خان نے رواں ماہ اپنے ایک آن لائن خطاب میں اپنی جماعت کے کارکنان کو کہا تھا کہ توڑ پھوڑ کرنے اور سڑکوں پر نکلنےکی بجائے جیلیں بھرنے کو کہا۔ انھوں نے جیل بھرو تحریک کا اعلان ان الفاظ میں کیا تھا:

’میں کال دوں گا ہم سب ایک ہی دن گرفتاریاں دیں گے، قوم تیار رہے۔‘‘

اب جب بائیس فروری کو جیل بھرو تحریک کا باقاعدہ آغاز ہوا ہے تو عمران خان خود تحریک کے پہلے دن گرفتاری کے لیے موجود نہیں تھے، تاہم ان کی جماعت کے بعض اہم ترین رہنما اس وقت مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

پی ٹی آئی کے ٹویٹر اکاونٹ سے شیئر کیے جانے والے شیڈول کے مطابق ’ملک میں لاقانونیت، آئین شکنی اور مہنگائی کے خلاف پرامن جیل بھرو تحریک‘ پہلے مرحلے میں آٹھ شہروں میں شروع کی گئی ہے۔ دیگر شہروں میں شیڈول کا اعلان مرحلہ وار کیا جائے گا۔

اب تک لاہور، پشاور، راولپنڈی اور ملتان میں جیل بھرو تحریک کے لیے قائدین اور کارکنان گرفتاریاں دینے کے لیے جمع ہوتے رہے ہیں۔ جبکہ آج گوجرانوالہ میں پاور شو کیا جا رہا ہے جہاں گجرات، سیالکوٹ سمیت چند دیگر علاقوں سے بھی پی ٹی آئی کے کارکنان کے قافلے پہنچ رہے ہیں۔

جیل بھرو تحریک میں اب تک گرفتار ہونے والے کارکنان کے حوالے سے پی ٹی آئی کی قیادت جو اعدادوشمار بتا رہے ہیں وہ بعض مقامات پر پولیس کی جانب سے دیئے گئے اعداد و شمار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کہہ رہی ہے کہ ان کے گرفتار کارکنوں کی اصل تعداد نہیں بتائی جا رہی۔ لاہور سے گرفتاریوں کے بعد ایک بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ:

’ لاہور سے 214 کارکن گرفتار ہوئے لیکن صرف 81 کی گرفتاری ظاہر کی جارہی ہے اور باقی گرفتار کارکنوں کے بارے نہیں بتایا جارہا۔‘

پی ٹی آئی

لاہور میں ہونے والی گرفتاریاں

بائیس فروری کو لاہور میں تحریک کے آغاز کے موقعے پر پی ٹی آئی کے جن رہنماوں نے گرفتاری دی ان میں شاہ محمود قریشی، اسد عمر، اعظم سواتی، مراد راس، سینیٹر ولید اقبال، عمر سرفراز شیمہ اور محمد مدنی شامل ہیں۔

ان رہنماوں اور کارکنان کو گرفتاری کے بعد کوٹ لکھپت جیل لے جایا گیا، تاہم دوسرے دن انھیں صوبے کی دور دراز جیلوں میں منتقل کر دیا گیا۔ جبکہ ان کی تیس روز کی نظربندی کے لیے ڈپٹی کمشنر نے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا۔

پی ٹی آئی کے 24 رہنما اور کارکن ڈسٹرکٹ جیل لیہ منتقل کیے گئے ہیں جبکہ 24 کو ڈسٹرکٹ جیل بھکر اور 25 کو راجن پور جیل منتقل کیا گیا ہے۔

شاہ محمود قریشی کو اٹک جیل جبکہ اعظم سواتی کو رحیم یار خان جیل منتقل کیا گیا ہے۔

مراد راس کو ڈی جی خاں، سینٹر ولید اقبل کو لیہ اور عمر سرفراز چیمہ کو بھکر جیل منتقل کیا گیا ہے۔

محمد مدنی کو بہاولپور اور اشد عمر کو راجن پور منتقل کیا گیا ہے۔

یہاں اعظم سواتی نے اپنی گرفتاری کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا کہ انھیں غیرقانونی طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے لیے آئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اس بار کوئی قانون بھی نہیں توڑا اور کوئی ’ٹویٹ‘ بھی نہیں کی مگر انھیں گرفتار کیا گیا۔ انھوں نے پولیس اہلکاروں کے ساتھ اپنی بات چیت کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا:

’انھوں (پولیس) نے کہا کہ ہم نے آپ کو بھی گرفتار کرنا ہے۔ بھئی کس قانون کے تحت تم گرفتار کر رہے ہو؟ میں تو ابھی جیل بھرو تحریک کی فہرست کے مطابق میں اپنی باری کا انتظار کر رہا ہوں۔ اس (پولیس) نے کہا کہ اوپر سے حکم ملا ہے۔‘

پی ٹی آئی

پشاور میں کسی پی ٹی آئی رہنما نے گرفتاری نہیں دی

جیل بھرو تحریک کے دوسرے دن یعنی تئیس فروری کو پشاور میں پی ٹی آئی کے کارکن اور رہنما سڑکوں پر نکلے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے پشاور کے کارکنان کو پشاور المنصور ہوٹل گلبہار پولیس سٹیشن پہنچنے کی ہدایت کی تھی، کارکنان جمع ہوئے، تاہم صوبے بھر میں کسی رہنما نے گرفتاری نہیں دی۔

بعدازاں پی ٹی آئی کے رہنما شہرام خان ترکئی نے کہا کہ ’آج انھوں نے جیلیں نہیں کھولیں۔ خان کی ڈائریکشن کے مطابق ہم گرفتاری کے لئیے تیار تھے۔ ’تمام کارکن اگلی کال کا انتظار کریں۔ ہم پھر آئیں گے اور بھرپور طریقے سے آئیں گے۔‘

راولپنڈی میں گرفتاریاں

جیل بھرو تحریک کے تیسرے روز راولپنڈی میں پی ٹی آئی کے سینتالیس رہنما اور کارکنان مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

گرفتاری دینے والوں میں فیاض الحسن چوہان، زلفی بخاری، ساجد محمود، صداقت عباسی، چودھری ساجد اور اعجاز جازی شامل ہیں۔ ان رہنماوں کی بھی ایک ماہ کی نظربندی کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔ راولپنڈی میں گرفتاری کے بعد پہلے مرحلے میں انہیں اڈیالہ جیل میں رکھا گیا تھا تاہم بعدازاں آئی جی جیل خانہ جات کے حکم پر انھیں سرگودھا کی شاہ پور جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ سابق ایم پی اے راجہ خرم زمان سمیت 41 مقامی رہنماؤں کو حافظ آباد جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔

راولپنڈی میں ہونے والے احتجاج سے پہلے شیخ رشید احمد نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ گرفتاری دیں گے تاہم وہ احتجاج میں شریک تو ہوئے لیکن گرفتاری دیئے بغیر ہی لال حویلی چلے گئے۔

پی ٹی آئی

جیل بھرو تحریک کا چوتھا روز ملتان میں

چوتھے روز تحریک جنوبی پنجاب میں ملتان پہنچی۔ یہاں تحریک انصاف کے رہنما اور کارکنان گرفتاری کے لیے نواں شہر چوک پر جمع ہوئے۔ تاہم ان کارکنان اور رہنماوں نے نعروں پر اکتفا کیا اور یوں ملتان میں کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ پولیس ان رضاکاروں کو گرفتار کرنے کے لیے 3 جیل وین لے کر وہاں پہنچی ہوئی تھی۔

پی ٹی آئی کے رہنما عامر ڈوگر نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے احتجاج کے لیے مختص مقام سے ایک کلومیٹر کے فاصلے پر وین کھڑی کر رکھی تھی، انہوں نے کہا کہ وہ عدالتی گرفتاری کے لیے تیار ہیں اور اگر عمران خان نے انہیں گرفتاری دینے کو کہا تو وہ ایک یا 2 روز میں دوبارہ آسکتے ہیں۔

آئندہ تین روز میں سرگودھا، ساہیوال اور فیصل آباد میں جیل بھرو تحریک کے لیے کارکنان جمع ہوں گے۔

اس تحریک کے آغاز سے ہی سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر صارفین اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ کئی صارفین نے خاص طور پر خیبرپختونخواہ میں پی ٹی آئی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بنایا جنھوں نے احتجاج کے دوران گرفتاری نہیں دی۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور عمران خان کے قریبی ساتھی اسد قیصر نے جب اپنی تقریر کا ایک حصہ ٹویٹر اکاونٹ پر شیئر کیا تو کئی صارفین ان سے سوال کرتے نظر آئے کہ انھوں نے گرفتاری کیوں نہیں دی۔

تاہم عمران خان نے اسی دن ٹویٹ کرتے ہوئے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی قیادت کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا تھا کہ صوبے میں بڑی تعداد میں کارکنان باہر نکلے ہیں۔ ان کی اسی ٹویٹ پر رائے دیتے ہوئے قاسم جیلانی نے سی پی او پشاور کی جانب سے آئی جی خیبرپختونخوا کو بھیجا گیا مراسلہ شیئر کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ مختلف مقامات پر تحریک انصاف کے کارکنان جمع ہوئے تاہم ان میں سے کسی نے گرفتاری نہیں دی۔

تاہم پی ٹی آئی کی حمایت میں صارفین نے لکھا کہ شہریوں کا بڑی تعداد میں باہر نکلنا ہی اس تحریک کی کامیابی ہے۔ ٹویٹر صارف حسن ریاض آہیر نے لکھا کہ: ’جس انداز میں لوگ اپنے گھر چھوڑ کر بڑی تعداد میں باہر نکل رہے ہیں اور عمران خان کی کال پر جیل بھرو تحریک کے لیے بےخوف گرفتاریاں دے رہے ہیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں نے خوف کا بت توڑ دیا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر تحریک کے حق اور مخالفت، اس کے فوائد اور نقصانات پر بات چیت تو جاری ہے مگر اس کے ساتھ پی ٹی آئی کے رہنما تیمور جھگڑا کا صحافی کامران خان کو دیا گیا بیان بھی چل رہا ہے جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ اصل مقصد یہ نہیں کہ پانچ، دس، سو یا ہزار افراد گرفتار ہوں، یہ ثابت ہوگیا کہ لوگ آ رہے ہیں۔‘