منتخب تحریریں

تخت یا تختہ والا ہیجان

Share

سپریم کورٹ کے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے فیصلے کے اعلان کا انتظار کرنے کے بجائے ایک بار پھر یہ کالم لکھنے کے لئے قلم اٹھالیا ہے۔جس فیصلے کی توقع ہے وہ اپریل کے چوتھے دن سے وابستہ ہے۔4اپریل کا ذکر ہو تو 1979ءکی یہ ہی تاریخ یاد آجاتی ہے۔اس روز کا سورج طلوع ہونے سے قبل پاکستان کے ایک تاریخ ساز اور مقبول ترین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکادیا گیا تھا۔ پھانسی کے بعد ان کی لاش فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے لاڑکانہ پہنچادی گئی۔

سنگین ترین جرم کے تحت پھانسی لگائے شخص کی لاش بھی اس کے پسماندگان کے حوالے کردی جاتی ہے۔وہ اسے ہماری مذہبی اور تہذیبی روایات کے مطابق دفنانے کا بندوبست کرتے ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو کی اہلیہ اور ان کی بیٹی کو اس حق سے محروم رکھا گیا۔مرتے دم تک میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے وہ آنسو نہیں بھلا سکتا جو مجھ سے ہوئی ایک ملاقات کے دوران ان کی آنکھوں سے بہنا شروع ہوگئے تھے۔اس ملال سے وہ عمر بھر اداس رہیں کہ اپنے مردہ باپ کا چہرہ نہیں دیکھ پائی تھیں۔جیل میں ان سے آخری ملاقات کروانے کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر کو اسلام آباد کے ان گھروں میں نظر بند کردیا گیا تھا جہاں وہ مہمانوں کی صورت قیام پذیر ہوا کرتی تھیں۔ان کی موت کا پرسہ وصول کرنے کی اجازت بھی انہیں بھٹو کے پھانسی لگ جانے کے کئی ہفتوں بعد ملی تھی۔مجھے اس کے لئے کراچی جانا پڑا تھا۔

4اپریل کا ذکر آئے تو 2016ءبھی یاد آجاتاہے۔اس برس کے چار اپریل کی صبح ہمارے اخبارات میں ”پانامہ دستاویزات“ دھماکے کی صورت نمودار ہوئے تھے۔ مذکورہ دستاویزات میں 200ءسے زیادہ پاکستانیوں کی مبینہ طورپر ٹیکس بچاکر جمع ہوئی رقوم کی بدولت قائم ہوئی ”آف شور کمپنیوں“ کا ذکر ہوا تھا۔ نواز شریف کا نام ان میں براہ راست نہیں آیا تھا۔ ان کے خاندان کی ملکیت لندن کے چند فلیٹوں کا آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدنے کا ذکر تھا۔پانامہ دستاویزات نے تاہم نواز شریف کے لئے ”رسیداں کڈو“ والی فضا بناناشروع کردی۔عمران خان اور ان کے حمایتیوں نے مذکورہ مطالبے کو روایتی اور سوشل میڈیا کے بھرپور استعمال سے بھرپور توانائی فراہم کی۔ہم صحافیوں کی اکثریت بھی اصرار کرنے لگی کہ ملک کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے نواز شریف کو ”حساب“ دینا چاہیے۔ نواز شریف کی جانب سے پارلیمان میں کھڑے ہوکر دی وضاحتیں ان کی مدد نہ کرپائیں۔ بالآخرسپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے انہیں ”حساب“ دینے کومجبور کردیا۔ان کے خلاف بھرپور تفتیش کو یقینی بنانے کے لئے سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی بھی بنائی۔ ریاستی اداروں پر مشتمل اس ٹیم میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندے بھی شامل تھے۔ نواز شریف مذکورہ کمیٹی کے روبرو پیش ہوتے رہے۔

محض ایک صحافی ہوتے ہوئے میں دہائی مچاتا رہا کہ نواز شریف صاحب کو مذکورہ کمیٹی کے روبرو پیش ہونے سے قبل وزارت عظمیٰ کے منصب سے استعفیٰ دینا چاہیے۔سرونگ وزیر اعظم کے طورپر وہ گریڈ 20کے افسروں پر مشتمل کمیٹی کے روبرو پیش ہوتے رہے تو ان کے بعد آنے والے وزیر اعظموں کو ایک دن تھانوں کے ایس ایچ اوز کے روبرو بھی پیش ہونا پڑے گا ۔ دو ٹکے کے رپورٹروں کے اندیشوں کو ہماری اشرافیہ مگر کسی خاطر میں نہیں لاتی۔نواز شریف بطور وزیر اعظم جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہوتے رہے۔ٹی وی سکرینوں پر اس کی وجہ سے موصوف کو ”چور اور لٹیرا“ ثابت کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ بالآخر پانامہ کے بجائے ”اقامہ“ دریافت ہوگیا۔ اپنے فرزند کی بنائی ایک کمپنی ان کی تاحیات نااہلی کا باعث ہوئی۔یوسف رضا گیلانی کے بعد ایک اور وزیر اعظم بھی سپریم کورٹ کے ہاتھوں اپنے منصب سے ہٹادیا گیا۔

1979ءاور 2016ءکے 4اپریل کے دن ہوئے واقعات نے ہمارے معاشرے میں طویل المدتی تقسیم پیدا کی تھی۔ مذکورہ تقسیم بتدریج تخت یا تختہ والے ہیجان میں بدل چکی ہے۔ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتا ہوں کہ 4اپریل 2023ءکے دن ا ٓیا فیصلہ گھمبیر تر ہوئی ہیجانی تقسیم کو گھمبیر ترین نہ بنائے۔ عقل کا غلام ہوا ذہن اور وسوسوں بھرا دل اگرچہ اپنی فریاد کی شنوائی کی توقع سے محروم ہیں۔

یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے ہرگز خبر نہیں تھی کہ بالآخر کیا فیصلہ آئے گا۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد نئے انتخابات کے سوال نے مگر جو آتش بھڑکائی ہے وہ سپریم کورٹ کے عزت مآب ججوں کے مابین تقسیم کا سبب بھی بن چکی ہے۔آئینی اور قانونی الجھنوں اور طریقہ کار سے جڑے اختلافات کو بھلاکر عوام کی اکثریت کے ذہن میں ایک سادہ سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے۔یہ سوال مصر ہے کہ ہمارا تحریری آئین کسی اسمبلی کی تحلیل کے بعد نوے روز کے اندر نئے انتخاب کا تقاضہ کرتا ہے۔اس شق سے انحراف ہوا تو آئین کی بے توقیری ہوجائے گی۔چیف جسٹس صاحب سے مذکورہ سوال اٹھانے والے امید باندھے ہوئے ہیں کہ وہ آئین کے تحفظ کو ڈٹ جائیں گے۔ ان سے اختلاف کرنے والے عزت مآب ججوں کی معروضات پر سنجیدگی سے غور نہیں ہورہا۔تاثر یہ پھیل رہا ہے کہ فقط چیف جسٹس صاحب اور ان کے چنے دو عزت مآب جج ہی آئین کی حرمت برقرار رکھنے کو ڈٹ چکے ہیں۔فیصلہ جو بھی آیا سپریم کورٹ کے ججوں کے مابین دھماکے کی صورت نمودار ہوئی تقسیم آئندہ کئی برسوں تک وطن عزیز میں خلفشار بھڑکاتی رہے گی۔

4اپریل 1979ءکے دن میرے دل میں ایسے ہی خدشات نمودار ہوئے تھے۔ مجھ سادہ لوح کو گماں تھا کہ میرے ہم وطنوں کی اکثریت بھی ایسے ہی خدشات سے نڈھال محسوس کررہی ہوگی۔ہمارے ایک مہربان دوست تھے غلام رسول- وہ نامور مصور تھے-مشقت کے ایام میں انہوں نے ایک فاکس ویگن بھی خرید رکھی تھی۔ اس کے علاوہ صحافت میں میرے حقیقی استاد اور مہربان مستنصر جاوید صاحب بھی تھے۔ مرحوم غلام رسول نے مشورہ دیا کہ ہم بھٹو کی پھانسی کا ”عوامی ردعمل“ جاننے کے لئے ان کی گاڑی میں اسلام آباد سے لاہور کاسفر کریں۔جی ٹی روڈ کا سفر کرتے ہوئے ہم نے مگر روزمرہّ زندگی کو معمول کے عین مطابق دیکھا۔بڑے قصبوں کے قریب لگی ریڑھیوں پر خریداروں کی روایتی گہما گہمی جاری تھی۔ ”صدمہ“ سے ساکت ہوا ماحول کسی ایک مقام پر بھی نظر نہیں آیا۔

4اپریل 1979ءکا اصل ردعمل مگر 1983ءمیں دیکھنے کو ملا۔ ضیا مخالف جماعتوں نے جمہوریت بحالی کے نعرے کے ساتھ ایم آر ڈی بنائی تھی۔اپنے ہدف کے حصول کے لئے انہو ں نے 14اگست 1983ءسے ازخود گرفتاریاں دینے کی تحریک برپا کی۔ خواتین سمیت ہزاروں افراد مگر کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر قصبوں سے نعرے لگاتے سڑکوں پر نکل آئے۔ان پر قابو پانے کے لئے چند مقامات پر ہیلی کاپٹروں سے گولیاں برسانا پڑیں۔مذکورہ تحریک پر لیکن جنرل ضیاءکی مارشل لاءحکومت نے مکمل قابو پالیا۔ دلوں میں جاگزیں ہوئی تقسیم کے زخم مگر آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ اس کا بھرپور اظہار میں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے 27دسمبر کے دن ہوئے قتل کے فوری بعد کراچی سے لاڑکانہ جاتے ہوئے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

4اپریل 2016ءکے دن سے شروع ہوئی تقسیم مگر اب پنجاب کو ہیجان خیز بنائے ہوئے ہے۔ منیر نیازی نے کہہ رکھا ہے کہ ”بات“ شروع ہوجائے تو بآسانی ختم نہیں ہوتی۔ یہ انہونیوں کی جانب ہی لے جاتی ہے۔میرا نہیں خیال کہ 4اپریل 2023ءکے روز آیا فیصلہ ”آسانیوں“ کی راہ دکھاسکتا ہے۔

پس نوشت : کالم مکمل کرنے کے بعد سوشل میڈیادیکھا تو فیصلہ آچکا تھا۔نئے بحران کی تیاری بھی شروع ہوچکی ہے۔