فیچرز

اچھی سیکس لائف کا راز: جنسی تعلق کو کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے؟

Share

کسی سیکس تھراپسٹ کے لیے ویلنٹائن ڈے ناخوشگوار دن ہوتا ہے۔ یہ کہنا ہے ڈاکٹر پیگی کا جو اوٹاوا یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن میں پروفیسر ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس دن میں ایسے جوڑوں سے ملتی ہوں جو بہت پریشان ہوتے ہیں۔‘

ایسے افراد جن کی سیکس زندگی پہلے ہی مشکلات کا شکار ہو، ذہنی دباؤ اور توقعات کا امتزاج مذید پریشانی پیدا کرتا ہے۔

تو ہمیں معلوم ہوا کہ سیکس اتنا آسان یا سادہ معاملہ نہیں جتنا خیال کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر پیگی نے بطور کلینیکل ماہر نفسیات اور سیکس تھراپسٹ تربیت حاصل کی اور جنسی مایوسی کی وجوہات جاننے میں کئی سال بتائے۔

2018 میں انھوں نے ایک مضمون تحریر کیا جس میں انھوں نے خواتین سے جڑے سیکس کے تصورات کا معائنہ کیا۔

2020 میں انھوں نے اپنی طویل تحقیق کی مدد سے ایک کتاب بھی لکھی۔ اس تحریر میں ان کا انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے جو کنویبل میگزین میں چھاپا گیا تھا۔

کچھ پارٹنر دن میں ایک سے زیادہ بار سیکس کرنا چاہتے ہیں جبکہ کچھ ایک ماہ میں ایک بار۔۔۔ کیا یہ عام سی بات ہے؟

کسی سیکس کنسلٹنٹ کے پاس ایسے لوگ آتے ہیں جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان میں عدم توازن ہوتا ہے۔

یہ ایک مسئلہ ہے کیوں کہ سیکس کسی کی شناخت کا حصہ ہوتا ہے اور جب آپ کا پارٹنر اس میں شراکت دار نہیں بنتا تو ایسا لگتا ہے کہ آپ کو ٹھکرایا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب اپنے پارٹنر کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچانے کا دباؤ بھی شدید ہوتا ہے۔

چلیں سکے کے دونوں رخ دیکھ لیتے ہیں۔ پہلے یہ بتائیں کہ جن لوگوں میں زیادہ سیکس کی خواہش ہوتی ہے، کیا یہ کوئی بیماری ہے؟

اگر آپ امریکی ماہر نفسیات کی ایسوسی ایشن کی 1950 میں جاری کردہ معلومات پڑھیں تو اس میں زیادہ سیکس کی خواہش کو ایک مسئلے کے طور پر بتایا گیا ہے۔

خواتین میں اسے ’نمفومینیا‘ کا نام دیا گیا جب کہ مردوں میں ’ساٹیاریاسس۔‘

1950 میں ایسی خواتین کو بجلی کے جھٹکے دیے جاتے تھے یا پھر سرجری کے زریعے دماغ کے ایک مخصوص حصے کا باقی دماغ سے رابطہ منقطع کر دیا جاتا تھا۔

دوسری جانب ایسے مردوں کو نارمل سمجھا جاتا تھا۔

پھر سیکس کا انقلاب آیا اور اس سوچ کو رد کر دیا گیا کہ زیادہ سیکس کی خواہش کسی قسم کا مسئلہ ہے۔

1980 میں کم سیکس کی خواہش کو ایک مسئلہ گردانا گیا اور اس کا علاج بتایا گیا۔

سیکس

مردوں اور خواتین میں کم سیکس کی خواہش پر طبی شعبے کی سمجھ میں کیا تبدیلی آئی ہے؟

1987 میں اسے ’ہائپو ایکٹیو سیکسوئل ڈیزائر ڈس آرڈر‘ کا نام دیا گیا کیوں کہ اس کی وجہ سے پریشانی میں اضافہ ہوتا تھا۔

تاہم 2013 میں مردانہ کمزوری اور اس ڈس آرڈر میں فرق کیا گیا جبکہ خواتین کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ ایک اندرونی خواہش کی کمی کا مسئلہ ہے۔

کچھ ماہرین یہ تجویز دے سکتے ہیں کہ جن جوڑوں میں سیکس کی خواہش کا عدم توان موجود ہے، وہ آپس میں کسی قسم کا سمجھوتہ کر لیں۔ کیا یہ ایک اچھا خیال ہے؟

یہ اچھا حل نہیں ہے۔ اس سے کسی کو بھی وہ نہیں ملتا جس کی ان کو خواہش ہے۔ تاہم طبی ماہرین کے مریض ان سے نالاں ہو جاتے ہیں کیوں کہ وہ ان پر اعتماد نہیں کرتے۔

لیکن ایسا سمجھوتا ناکام ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اصل مسئلے کا علاج کرنے کی بجائے اس کی علامات کا علاج کیا جا رہا ہوتا ہے اور اسے وقت اور مدت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ مسئلے کی بنیاد شخصیت سے ہو یا پھر سیکس کا معیار۔

اسی لیے میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ آخری بار سیکس کے دوران کسی کے اندر کیا احساسات پیدا ہوئے، کیا ان احساسات میں خوف شامل تھا یا پھر یہ سوچ تھی کہ مجھے مذید کی ضرورت ہے۔

اگر مسئلہ سیکس کے معیار میں ہے تو کیا اس حوالے سے تحقیق کی گئی ہے؟

زیادہ تر تحقیق نے اس بات پر توجہ دی ہے کہ سیکس کو بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت ایسا سیکس چاہتی ہے جو ان کو زندہ ہونے کا احساس دے۔

2005 میں ہماری ٹیم نے ایسے لوگوں کا معائنہ کیا جن کو سیکس سے مکمل اطمینان حاصل ہوتا تھا۔ ہم جاننا چاہتے تھے کہ انھوں نے ایسا کیا کیا جس کی وجہ سے وہ مطمئن تھے تاکہ ان سے سیکھ سکیں۔

یہ کون لوگ تھے؟

میرے تجربے کے مطابق مجھے جن لوگوں نے متاثر کیا وہ 60، 70 اور 80 کی دہائی میں تھے جنھوں نے سیکس کو دوبارہ ایجاد کیا کیوں کہ بیماری، معزوری یا معاشرتی حالات کی وجہ سے ان کو ایسا کرنا پڑا۔

ہم نے مختلف لوگوں کا تجزیہ کیا جن کو آپ عام نہیں سمجھتے، جن کو کسی وجہ سے سیکس کا تصور بدلنا پڑا، ان میں زیادہ عمر کے لوگ بھی شامل تھے۔

ان تمام لوگوں نے اپنی سیکس زندگی کے بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کہ یہ کیسی ہونی چاہیے۔

پہلی تحقیق کے لیے ہم نے 75 لوگوں کا معائنہ کیا اور ہر ایک سے تقریبا 42 منٹ سے دو گھنٹے تک بات چیت کی۔

آپ کو اچھے سیکس کے بارے میں کیا پتہ چلا؟

سیکس

میڈیا میں جو ہم سنتے ہیں، جس کے مطابق تیکنیک کا استعمال ہیجان شہوت دیتا ہے، اس کے برخلاف ہم نے جن لوگوں سے بات کی، ان کا کہنا تھا کہ ہیجان شہوت اچھے سیکس کے لیے ضروری نہیں۔

ان کے مطابق جو چیزیں سیکس کا بہتر بناتی ہیں ان کا تکنیک سے کوئی تعلق نہیں۔

ہر کسی کا تجربہ مختلف تھا لیکن انھوں نے چند نکات بتائے۔

یہ نکات کیا ہیں؟

ان لوگوں نے جن دو نکات کا زیادہ تذکرہ کیا، وہ اس لمحے میں موجود ہونے کا احساس تھا اور اپنے ساتھی کے ساتھ اس طرح سے جڑے ہونے کا خیال تھا کہ جیسے دونوں تک جان دو قالب تھے۔

باقی نکات میں قربت، ایک دوسرے سے ہمدردانہ بات چیت، اپنی کمزوری کا احساس، خطرے اور مزے کا امتزاج اور ماورائی کیفیت کا احساس شامل تھے۔

جب ہم ہمدردانہ بات چیت کی بات کرتے ہیں تو یہ صرف زبانی گفتگو نہیں بلکہ اپنے ساتھی کے بارے میں اتنی سمجھ بوجھ رکھنا ہوتا ہے کہ آپ کو بنا کہے علم کو کہ وہ کہاں چھوا جانا چاہتا ہے۔

ایک شخص نے ماورائی کیفیت کا اس طرح سے ذکر کیا کہ یہ ایک ایسا تجربہ تھا جیسے وہ روشنی، ستاروں، موسیقی اور امن کی کہکشاں میں پرواز کر رہے ہوں۔

کیا اس معاملے میں مردوں اور خواتین کے تجربات میں فرق تھا؟

مردوں، خواتین، نوجوانوں اور بوڑھوں میں سیکس کا فرق زیادہ تر فرض کر لیا جاتا ہے لیکن ہماری تحقیق میں ہم نے جانا کہ ان تمام میں اچھے سیکس سے جڑے عوامل میں یکسانیت تھی۔

سیکس

کیا آپ نے کوئی ایسی بات سنی جو بہت خاص تھی؟

ہم نے ایک جوڑے کا انٹرویو کیا جسے ہم بطور مثال پیش کر سکتے ہیں۔ وہ ریٹائر ہو چکے تھے اور انھوں نے کہا کہ ’پہلے ہم ہفتے میں تین بار سیکس کرتے تھے۔ اب ہم 70 سال کے ہیں تو ہم ہفتے میں صرف ایک بار سیکس کرتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’جب ہم کام سے جمعرات کو گھر آتے تھے تو ہم صحت مند کھانا تیار کر لیتے تھے جو سوموار تک کے لیے کافی ہوتا۔‘

’اس کے بعد ہمارے پاس کوئی اور کام باقی نہیں بچتا تھا۔ اب ہم ہفتے میں ایک بار سیکس کرتے ہیں جو جمعرات سے لے کر سوموار تک جاری رہتا ہے۔‘

یہ واقعی ایک غیر معمولی مثال ہے اور اس بات کا آپ کی کتاب میں بار بار ذکر ہے کہ اچھی سیکس زندگی کے لیے کافی توانائی، وقت اور لگن درکار ہوتے ہیں۔

جی ہاں۔ ایک چیز جس کا ہم میڈیا میں ذکر سنتے ہیں وہ یہ ہے کہ سیکس اچانک اور قدرتی طور پر ہوتا ہے۔

اور یہی مفروضے پورن میں دکھائے جاتے ہیں۔ اصلیت یہ ہے کہ اچھے محبت کرنے والے اس کام کے لیے وقت اور توانائی صرف کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ اچھے محبت کرنے والے محنت سے بنتے ہیں، پیدائشی نہیں ہوتے۔

کیا آپ کی تحقیق کا طبی اعتبار سے بھی فائدہ ہوا؟

2012 میں ہم نے جانچنا شروع کیا کہ ہم اس تحقیق سے ایسے جوڑوں کو کیسے فائدہ پہنچا سکتے ہیں کو سیکس کے عدم توازن کا شکار ہیں۔

لیکن نفسیاتی علاج مہنگا ہوتا ہے اور یہ محدود آمدن والے افراد کی پہنچ سے دور ہوتا ہے۔

ہم نے کوشش کی کہ گروپ تھراپی کریں جس میں ہم نے آٹھ ہفتوں کے لیے ایک مواد تیار کیا جس کے ذریعے ہم نے ایسے جوڑوں کی مدد کی کوشش کی۔

کیا اس سے فائدہ ہوا؟

ہم نے 10 سال اس پر تحقیق کی ہے اور یہ کام کرتی ہے۔ یہ مختصر جواب ہے۔

ہم نے دیکھا کہ جوڑوں میں واضح تبدیلی آئی اور وہ پہلے سے زیادہ مطمئن تھے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ یہ تبدیلی چھ ماہ کے بعد بھی قائم رہی۔

انھوں نے اعتماد اور بات چیت میں بہتری محسوس کی۔