پاکستان

توہین مذہب کے الزام میں گرفتار چینی شہری کی سخت سکیورٹی میں عدالتی پیشی، جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

Share

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے منسلک چینی شہری کو انسداد دہشت گردی کی ایبٹ آباد میں واقع عدالت میں پیش کرنے کے بعد جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا ہے۔

اس چینی شہری کو پولیس نے توہین مذہب کے الزامات کے تحت حراست میں لیا تھا۔

پیر کی دوپہر ملزم کو ہیلی کاپیٹر کے ذریعے کوہستان سے ایبٹ آباد منتقل کیا گیا جبکہ عدالت میں اُن کی پیشی کے موقع پر بھی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ خیبرپختونخوا پولیس نے بی بی سی کو بتایا کہ سکیورٹی وجوہات کے باعث ملزم کو آرمی ہیلی کاپٹر میں اپر کوہستان سے ہری پور جیل منتقل کیا گیا ہے۔

اس واقعے کا مقدمہ مقامی تھانے کے ایس ایچ او کی مدعیت میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت درج کیا گیا ہے۔

پولیس کے مطابق ابتدائی تفتیش کے دوران ملزم نے پولیس کو بتایا کہ جمعہ کے روز یہ واقعہ اس وقت پیش آیا پر پراجیکٹ پر کام کرنے والے مزدور نماز پڑھنے گئے جہاں پر انھوں نے بہت وقت لگا دیا جس کے باعث تلخ کلامی ہوئی۔

ایف آئی آر کے مطابق مبینہ توہین مذہب کا واقعہ جمعے (15 اپریل) کے روز اس وقت پیش آیا تھا جب داسو پراجیکٹ میں ہیوی ٹرانسپورٹ کے شعبے کے انچارج کا پراجیکٹ پر کام کرنے والے ڈمپر ڈرائیورز کے ساتھ دورانِ ڈیوٹی نماز کی ادائیگی پر تنازع ہوا۔

ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس تنازع کے دوران چینی شہری نے مبینہ طور پر توہین آمیز الفاظ ادا کیے۔

اس واقعے کا پتا لگتے ہی شہر میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے اور پولیس سے ملزم کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تحصیل چیئرمین داسو محمد ادریس نے بتایا کہ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے چینی اہلکار کو پیر کے روز (17 اپریل) اپنی حراست میں لے لیا ہے جس کے بعد لوگ بھی منتشر ہو گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے مقامی افراد کو یقین دلوایا ہے کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور ہر پہلو سے اس معاملے کا جائزہ لیا جائے گا۔

داسو سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد طاہر کے مطابق داسو پراجیکٹ پر کام کرنے والے چینی اہلکار نے مبینہ طور پر جمعے کے روز توہین مذہب پر مبنی کلمات ادا کیے تھے۔ جمعے کے دن تو اس واقعے پر کوئی احتجاج نہیں ہوا مگر بعد میں جوں جوں تفصیلات سامنے آئیں تو لوگوں نے اس معاملے پر احتجاج کرنا شروع کیا۔

اُن کے مطابق پراجیکٹ پر کام کرنے والے ڈرائیورز کا مؤقف ہے کہ مقامی مزدور نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے جا رہے تھے تو مبینہ طور پر چینی اہلکار نے اس پر بُرا منایا اور اُن کو کہا کہ وقت ضائع ہو رہا ہے جلدی کام پر واپس آئیں۔

پاکستان
،تصویر کا کیپشنسیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور مینیجر کام کرنے والے پریا نتھا کو ایک مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔

مزدوروں کا کہنا ہے کہ ان کے معاہدے میں یہ بات موجود ہے کہ انھیں دورانِ ڈیوٹی نماز ادا کرنے کا وقت دیا جائے گا۔ ان کے مطابق مزدور جب نماز پڑھ کر واپس آئے تو اُس وقت اس تنازع کا آغاز ہوا۔

مولانا محمد طاہر کا دعویٰ ہے کہ پراجیکٹ کے چینی انچارج مزدورں سے بذریعہ مترجم بات چیت کرتے ہیں اور مبینہ طور پر مترجم نے چینی اہلکار کے جانے کے بعد یہ الزام عائد کیا کہ چینی شہری نے توہین کی ہے جس پر لوگ مشتعل ہو گئے اور انھوں نے احتجاج کیا۔

اس واقعے کے خلاف مظاہرین نے اتوار اور سوموار کی درمیانی رات کو شاہراہ قراقرم کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بلاک کر دیا تھا تاہم پولیس کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج اور ملزم کی گرفتاری کے بعد سڑک کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ 12 سال میں پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات لگائے جانے کا سلسلہ تیزی سے بڑھا ہے۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے ڈیٹا کے مطابق سال 2014 سے 2020 میں سب سے زیادہ توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے جن میں سے زیادہ کیس صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں سے رپورٹ ہوئے۔

پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک توہین مذہب کے الزام کی وجہ سے ماورائے عدالت 90 لوگ مارے جا چکے ہیں۔

پاکستان میں مسلمان شہریوں کے علاوہ غیرمسلموں پر بھی گاہے بگاہے توہین مذہب کے الزامات لگتے رہے ہیں اور ایسا ہی ایک واقعہ دسمبر 2021 میں پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں پیش آیا تھا جب ایک فیکٹری میں کام کرنے والے سری لنکن مینیجر پریا نتھا دیاودھنہ کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کر کے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو آگ لگا دی تھی۔

اس کیس کی تفتیش کے دوران پولیس کا کہنا تھا کہ کچھ غیر ملکی کمپنیوں کے وفد نے فیکٹری کا دورہ کرنا تھا اور سری لنکن فیکٹری منیجر نے کارکنوں کو مشینوں کی مکمل صفائی کا حکم دیتے ہوئے مشینوں سے مذہبی جماعت کے سٹکرز اتارنے کا کہا تھا۔

پولیس رپورٹ میں کہا گیا کہ مبینہ طور پر جب فیکٹری ملازمین نے سٹکر نہیں ہٹایا تو مینیجر نے خود ہٹا دیا جس پر ورکرز نے ان پر توہین مذہب کا الزام عائد کر دیا۔